• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت ملک میں بے یقینی اور بے چینی کی صورت حال ہے۔ جس کی وجہ خود حکومت ہے۔ یہ حکومت کی ناسمجھی ہے یا کچھ اور۔ آئی ایس آئی چیف کی تعیناتی میں تاخیر نے صورت حال کو گمبھیر کردیا ہے۔ طرح طرح کی افواہیں اور خبریں زیر گردش ہیں۔ اس اہم تعیناتی میں وزیر اعظم کی طرف سے تاخیر کی وجہ سے بعض اہم عہدوں پر تعیناتیاں بھی رکی ہوئی ہیں۔ جس کی وجہ سے ان عہدوں کے معاملات جمود کے شکار ہورہے ہیں۔ شاید دنیا بھی یہ تماشا دیکھ رہی ہے ہم نے موجودہ حکومت کی سیاسی معاملات میں ضد اور انا کو دیکھا ہے اور اب بھی دیکھ رہے ہیں لیکن حکومت سے یہ توقع ہرگز نہیں تھی کہ وہ ان اہم اداروں کے ساتھ سیاست کو منسلک کرکے سیاسی سلوک کرے گی۔ ممکن ہے کہ اس تحریر کی اشاعت تک وزیر اعظم کی طرف سے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کی منظوری کا پروانہ جاری ہوجائے اوریوں باقی عہدوں پر بھی تعیناتیوں کی رکاوٹ ختم ہوجائے اور مسئلہ حل ہوجائے۔ بہتر ہوتا کہ ان حساس عہدوں پر تعیناتیوں کے لئے آئی ایس پی آر کے اعلان کے مطابق کارروائی مکمل ہوجاتی اور خواہ مخواہ کی بے چینی پیدا نہ کی جاتی لیکن اب بھی اگر اس اعلان کے مطابق آئی ایس آئی چیف کی تعیناتی کی منظوری دی جائے تو کم از کم کچھ تو حالات نارمل ہوجائیں گے۔ اس معاملے میں مزید تاخیر یا رد و بدل مناسب نہیں ہوگا۔ ہم تو حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے مشورہ دے سکتے ہیں باقی مرضی اور اختیار تو وزیر اعظم کے پاس ہے۔ بس ایک بات کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ ملکی سیاست اور دفاعی ادارے دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ دفاعی اداروں کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے ان کا ہر فیصلہ ملکی دفاع اور حالات کو پیش نظر رکھ کر ہوتا ہے۔ ان فیصلوں میں ذاتی مفادات، اور پسند ناپسند کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ یہ سب کچھ سیاست میں ہوتا ہے۔ ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ حکومت کی طرف سے ایسے معاملات میں جب بھی غیرضروری مداخلت کی گئی ہے یا ان میں ضد، انا اور ذاتی پسند ناپسند کو شامل کیا گیا ہے تو نقصان ہوا ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’جس کا کام اسی کو ساجے‘‘ سمجھنے کے لئے یہی محاورہ کافی ہے۔ملک میں مہنگائی نے عوام کو جینا دوبھر کر رکھا ہے اور حکومتی وزراء لوگوں کو عجیب و غریب مشورے دے رہے ہیں کوئی مہنگائی کی وجہ کورونا وباکو قرار دے رہا ہے، کوئی اس کی وجہ دنیا میں مہنگائی بتا رہا ہے۔ کوئی اس کی وجہ ڈالر کا اڑان بتا رہا ہے۔ کوئی ڈالر کی قیمت کو افغانستان کے حالات سے جوڑتا ہے۔ کوئی پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کا تقابل جاپان، کوریا اور ملائیشیا سے کراتا ہے۔ کوئی مہنگائی کا توڑ ’’کم کھائو‘‘ بتاتا ہے کوئی کہتا ہے کہ اپنی آمدن بڑھائو پھر مہنگائی محسوس نہیں ہوگی۔ یہ سب مذاق اس بدحال قوم کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ بلکہ یہ غریبوں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ مہنگائی اب نہیں ہوئی ہے بلکہ جب سے موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی ہے مہنگائی کا بھی آغاز ہوا ہے۔ جس کی وجہ سابق حکومتوں کو قرار دیا جارہا تھا۔ جبکہ اب کورونا اور دیگر عوامل کا سہارا لیا جارہا ہے۔ اور مہنگائی میں ناقابل برداشت اضافہ جاری ہے۔ گیس اور بجلی کے نرخوں میں روز افزوں اضافہ کا ذمہ دار بھی سابقہ حکومتوں کو گردانا جاتا رہا۔ اگر کورونا وبا پوری دنیا میں نہ پھیلتی اور صرف پاکستان میں آتی تو عین ممکن ہے کہ اس کی ذمہ داری بھی سابقہ حکومتوں پر ڈال دی جاتی۔ سابقہ حکومت کے دور میں جب پنجاب میں ڈینگی پھیلا تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے خاطر خواہ انتظامات کرکے اس پر قابو پالیا تھا۔ اس وقت ڈینگی کے پھیلتے ہی شریف برادران کو ڈینگی برادران کے تضحیک آمیز نام سے یاد کیا جانے لگا۔ اب تو ڈینگی بھی ہے اور روک تھام کے اقدامات و انتظامات بھی نہیں ہیں تو اب کس کوکس نام سے یاد کیا جائے۔ خدارا! اس بدحالی، مہنگائی اور بے روزگاری کے مارے عوام کی تضحیک اور ان سے مذاق کا سلسلہ اب بند کیا جائے۔اپوزیشن جماعتیں ایک بار پھر متحرک ہورہی ہیں۔ حکومت یہ نہ سمجھے کہ پہلے کی طرح یہ لوگ تھوڑا شور شرابہ کرکے خاموش ہوکر بیٹھ جائیں گے۔ کیونکہ اس وقت حالات کچھ اور تھے اب کچھ اور ہیں۔ حکومت نے ہر ادارے کیساتھ تنازع مول لیا ہوا ہے۔ مہنگائی قابو اور برداشت سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ انتہائی سخت شرائط پر قرضے لئے گئے ہیں اور مزید لئے جارہے ہیں۔ بیورو کریسی میں آئے روز تبادلوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ ملک میں بدامنی اور جرائم کا سلسلہ پھیلتا اور بڑھتا جارہا ہے۔ عدم تحفظ کا احساس ہر طرف ہے۔ اور تو اور چادر اور چاردیواری بھی محفوظ نہیں ہے۔ اداروں کو مخالفین کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے حکومتی چھتری تلے بیٹھے بعض افراد ہر ادارے کی گرفت سے باہر اور مزے کررہے ہیں۔ بلوچستان میں حکومتی مشینری جام کمال کی ضد کی وجہ سے جام ہے۔ کے پی حکومت بیانات پر چل رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ پروٹوکول کے مزے لینے میں مصروف ہیں۔ جس سے ایک چھوٹی سی وزارت نہیں چل سکتی تھی اس کو پورے صوبے کی وزارت اعلیٰ دے دی گئی ہے۔ پنڈورا لیکس میں آف شور کمپنیوں کے مالکان حکومتی بریگیڈ میں شامل ہونے کی وجہ سے وہ بکسہ ہی بند ہے۔ حکومت ان تمام معاملات پر توجہ دے اور حالات کی نزاکت کو سمجھے۔ اسی میں حکومت اور ملک و قوم کی بہتری ہے۔ اب کھیل تماشوں سے بات آگے چلی گئی ہے۔

تازہ ترین