• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریحام خان

ریحام خان، پختون روایات کے حامل ، سیاسی پس منظر رکھنے والے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، لیکن پاکستان میں ریحام خان کی پہچان پہلے ایک ٹی وی نیوز اینکر کی حیثیت سے محدود سطح پرہوئی اور بعد ازاں وزیر اعظم عمران خان سے شادی نے انہیں عالم گیر شہرت بخشی۔ یہاں تک کہ طلاق کے با وجود بھی وہ دنیا بھر میں وزیراعظم پاکستان ، عمران خان کی سابقہ بیوی کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔

ریحام خان نسلاً پشتون ہیں ، لیکن ان کی آبائی زبان ہندکو ہے۔ انہیں ہندکو کے علاوہ انگریزی، پشتو اور اردو زبانوں پر مکمل عبور حاصل ہے، ریحام نے ’’جناح کالج برائے خواتین، پشاور‘‘ سے گریجویشن کیا۔یاد رہے، ان کے والدین 1960ءمیں پاکستان سے لیبیا منتقل ہوئےتھے، جہاں 1973ءمیں ریحام خان کی پیدائش ہوئی۔ ان کے ماموں، عبدالحکیم خان کے پی کے کے گورنر اور پشاور ہائی کورٹ کے جج بھی رہے۔ ریحام کی پہلی شادی ایک ماہرِ نفسیات، ڈاکٹر اعجاز رحمان سے 1992ءمیں ایبٹ آباد میں ہوئی تھی، جو15 سال قائم رہی،اس شادی سے ریحام خان کے تین بچّے،ساحر رحمان، ردھا رحمان اور عِنایہ رحمان ہیں۔ 

کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر اعجاز رحمان سے طلاق کی وجہ ریحام خان کی شعبۂ صحافت سے وابستگی بنی۔ بعد از طلاق انہوں نے لندن کے مختلف نشریاتی اداروں میں براڈ کاسٹ جرنلسٹ کے طور پر اور بعد میں آزادانہ طور پر ٹی وی شوز میں اینکرنگ کی اور 2008ء میں باضابطہ طور پر بی بی سی جوائن کر لیا، جہاں وہ مختلف پروگرامز پیش کرنے کے علاوہ ’’موسم کے حال‘‘ کا بلیٹن بھی پیش کرتی تھیں۔ وطن واپس لَوٹنےکے بعد ریحام نےقریباً ایک سال تک مختلف ٹی وی چینلز پر پروگرامز بھی کیے۔

وزیر اعظم عمران خان نے جب پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین کی حیثیت سے اسلام آباد میں حکومت کے خلاف طویل دھرنا دیااور ایک کنٹینر میں جزوی قیام کیا ہوا تھا،وہاں ان کا انٹرویو کرنے والے صحافیوں میں ریحام خان بھی شامل تھیں اور اس انٹرویوکے بعد ہی ان کے اور ریحام کے تعلق کی افواہوں اور قیاس آرائیوں نے شدّت اختیار کی تھی۔ گوکہ دونوں کے تعلقات کے حوالے سے چہ مگوئیاں 2014 ءہی میں شروع ہوگئی تھیں، لیکن ان خبروں کی تصدیق نہیں ہو پا رہی تھی۔ بہرحال، 6جنوری 2015کو عمران خان نے باضابطہ طور پر ریحام خان سے اپنی شادی کی تصدیق کر دی، مگر بعد ازاںریحام خان نے انکشاف کیا کہ ان دونوں کی شادی دھرنے کے دوران ہی ہوگئی تھی۔

وزیرِاعظم، عمران خان کا انٹرویو لیتے ہوئے
وزیرِاعظم، عمران خان کا انٹرویو لیتے ہوئے

یہ شادی عمران خان کی رہائش گاہ، بنی گالہ میں ہوئی تھی، جس میں کسی سیاسی شخصیت کو مدعو نہیں کیا گیا تھا، جب کہ ولیمے کی تقریب میں غریب اور یتیم بچّوں میں کھانا تقسیم کیا گیا تھا۔ البتہ ،بنی گالہ کے وسیع و عریض لان میں نوبیاہتا جوڑے کا شان دار فوٹو شوٹ ضرور ہوا تھا ،جو میڈیا اور سوشل میڈیا میں خاصا مقبول ہوا۔ مگر چند ماہ بعد ہی دونوں کے درمیان اختلافات کی خبریں سامنےآنے لگیں اوربالآخر، 30اکتوبر 2015ءکو عمران خان نے اپنے ایک پیغام میں ریحام خان سے طلاق کی تصدیق کر دی ۔ اس طرح کنٹینر میں طے پانے والی شادی ،صرف 9 ماہ بعد ٹوئٹر پر طلاق کی خبر کے بعد ختم ہوئی ۔

ریحام خان کی دونوں شادیوں اور طلاقوں میں ایک مماثلت یہ پائی جاتی ہے کہ پہلے شوہر ڈاکٹر اعجاز کے حوالے سےبھی ان کا کہنا ہے کہ ’’ مجھے ابتدا ہی میں یہ علم ہوچُکا تھا کہ اس کی عادات، نفسیات اور طرز ِزندگی میرے مزاج سے قطعی مطابقت نہیں رکھتے اور میرا اس شخص کے ساتھ گزارہ ممکن نہیں اور ایسا ہی ہوا۔ ‘‘ عمران خان کے حوالے سے بھی ان کا یہی موقف ہےکہ ’’شادی کے فوراً بعد ہی سمجھ گئی تھی کہ میرا خان سے شادی کافیصلہ غلط تھا۔‘‘ طلاق کے بعد مغربی ذرایع ابلاغ کو دئیےجانے والے انٹرویوز میں ریحام خان نےبتایا کہ ’’شادی سے کچھ دن قبل جب مَیں عمران کے ساتھ بنی گالہ کے وسیع وعریض لان میں گفتگو کر رہی تھی،تو مچّھروں کا ایک غول میرے پاؤں پر حملہ آور ہوگیا، جس پرمَیں گھبرا گئی۔ 

یہ دیکھ کر عمران اچانک ہی اپنی نشست سے اُٹھے اور میرے پاؤں پر دونوں ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے۔ وہ میرے پاؤں مچھروں سے محفوظ کرنا چاہتے تھے۔یہ ایک ایسا طرزِ عمل تھا، جس سے کسی بھی عورت کا دل جیتا جا سکتا ہے،تو میرے بھی کچھ ایسے ہی احساسات تھے اور میرے نزدیک یہ رومانس کا ایک برجستہ اظہار تھا، لیکن یہ محض میری خوش فہمی تھی ( یہ واقعہ ریحام خان نے اپنی کتاب میں بھی لکھا ہے) پھر شادی کے بعد وہ مجھے جمائما کے بارے میں واقعات اور اپنی گرل فرینڈز کے قصّے بھی مزے لے لے کر سُنایا کرتے، جنہیں سُن کر مَیں سخت غصّے میں آجاتی، لیکن اگلے ہی لمحے خیال آتا کہ عمران خان ایک سلیبرٹی ہے،لوگ اسے پسند کرتے ہیں، اس لیے وہ لوگوں کی پروا کیے بغیر جو دل چاہے کرتا ہے۔ 

بحیثیت شریکِ زندگی یہ میری ذمّے داری ہے کہ مَیں ان کی زندگی کے منفی رویّوں کو مثبت انداز میں تبدیل کروں۔ لیکن یہ میری بھول تھی۔‘‘ایک سوال کے جواب میں ریحام خان کا کہنا تھا کہ ’’مجھے عمران نے بتایا تھا کہ مَیں وزیراعظم ضرور بنوں گا اور یہ تفصیلات بھی بتائی تھیں کہ وہ یہ ہدف کس طرح پورا کریں گےاور بالآخر ایسا ہی ہوا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’مَیں نے اپنے مُلک کی خاتونِ اوّل بننے کا خواب نہیں دیکھا تھا۔

البتہ، یہ خواہش ضرور تھی کہ اگر عمران وزیراعظم نہ بھی بنے، تو کوئی بات نہیں کہ کے پی کے میں انہی کی حکومت تھی اور مَیں بھی اسی علاقے کی رہنے والی ہوں، تو کم از کم اپنےصوبے اور علاقے کے لوگوں کی خدمت توضرور کرسکوں گی۔ لیکن افسوس مَیں انہیں نہ سمجھ سکی اور وہ بھی مجھے نہ سمجھ سکے۔‘‘ 

دوسری طرف ریحام خان اور عمران خان کی شادی اور طلاق کے حوالے سے بعض لوگوں کا،جو دونوں کے رابطے میں رہے، کہنا تھا کہ ’’عمران خان نے جب ریحام کو شادی کی پیش کش کی،تو اس وقت وہ سیاسی مقبولیت کے عروج پر تھے اور یہ تاثر بھی مضبوط ہوتا جارہا تھا کہ آئندہ وہی مُلک کے وزیراعظم ہوں گے، لیکن معاملہ فہم، موقع شناس ریحام خان نے نہایت ’’دانائی‘‘سے صورتِ حال سمجھی۔ ‘‘

ذرائع کا کہنا ہے کہ ریحام خان واقعتاً خاتونِ اوّل بننے کا خواب دیکھ رہی تھیں، یہی وجہ تھی کہ شادی کے چند دنوں بعد ہی انہوں نے پاکستان تحریکِ انصاف کے سیاسی اُمور میں دخل اندازی شروع کر دی تھی اور عمران خان کے نوٹس میں لائے بغیر تنظیمی فیصلے کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ۔ 

پھر ایسی اطلاعات بھی عمران خان تک پہنچیں کہ انہوں نے پارٹی کے حوالے سے مالی مفادات بھی حاصل کیے ، اس اثناعمران خان خاموشی سے تمام معاملات کا جائزہ لیتے رہے اور جب انہیں یہ باور کروا دیا گیا کہ اگر ریحام نے خاتونِ اوّل کا اعزاز حاصل کر لیا، تو وہ وزیراعظم کے لیے بڑی مشکلات پیدا کرسکتی ہیں، تو عمران نے ریحام خان کو طلاق دینے کا فیصلہ کیا۔ انہی حلقوں کے مطابق ریحام خان نے مغرب کی ایک آزاد فضا میں بہترین وقت گزارا تھااور وہ پاکستان میں بھی بلا روک ٹوک اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کی خواہش رکھتی تھیں، لیکن عمران خان کی بیوی ہونے کے ناتےان کی یہ خواہش ہر گزپوری نہیں ہوسکتی تھی، اس لیے یہ ازدواجی رشتہ ختم ہوا۔

اسی طرح صرف دس ماہ میں شادی ختم ہونے کے بارے میں ایک بھارتی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ریحام کا کہنا تھا کہ ’’شادی کے چند ہفتوں بعد ہی سوشل میڈیا پر میرے خلاف الزامات اور طنزو تشنیع کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اس کام میں صرف عمران خان کے مخالفین ہی نہیں، خود پی ٹی آئی کے لوگ بھی شامل تھے۔ لیکن افسوس کہ میری حمایت کرنے اور اس سلسلے کو روکنے والا کوئی تھا، نہ ہی مجھے اجازت تھی کہ اپنا دفاع کرسکوں۔ یہ بات درست ہے کہ مَیں گھر میں اُن کے دوستوں کے ہجوم کو، جن میں سے بعض آزادانہ طور پر نقل و حرکت کیا کرتے تھے، پسند نہیں کرتی تھی۔اگر عمران خان کی بہنوں نے میرے آنے کے بعد وہاں آنا چھوڑ دیا تھا،تو میں اس سلسلے میں کیا کہہ سکتی ہوں۔‘‘ گو کہ ریحام خان نے رواں سال کے آخر یا 2022ءکے اوائل میں پاکستان آنے کا پروگرام بنایا ہے۔ 

تاہم، اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سیاست میں حصّہ لینے کا ارادہ نہیں رکھتیں۔ لیکن سوشل میڈیا پر جس انداز سے وہ فعال ہیں اور پاکستان میں ہونے والے سیاسی واقعات پر جس انداز سے بروقت تبصروں کے ساتھ، حکومتی اقدامات پر تنقید اور جارحانہ ردّ ِعمل ظاہر کرتی ہیں، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں پاکستانی سیاست میں کس قدر دل چسپی ہے۔

جہاں تک ریحام خان کی موجودہ مصروفیات کا تعلق ہے، تو وہ کم وبیش ایک سال سے لائم لائٹ سے دُوراپنے بچّوں کے ساتھ لندن میں مقیم ایک طرح سے گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہی ،مطالعے اور پینٹنگز کے شوق کی تکمیل میں مصروف تھیں۔ لیکن ایک طویل عرصہ شہ سُرخیوں سے غائب رہنے والی ریحام، گزشتہ دِنوں ایک بار پھر خبروں کی زینت بنیں، جب انہوں نے سوشل میڈیا پر جاری ایک ویڈیو پیغام میں وزیرِاعظم پاکستان کے سابق معاونِ خصوصی، زلفی بخاری پر متعدّد بار لگائے جانے والے کرپشن اور دیگر الزامات پر غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے زلفی بخاری کی جانب سے خود پر عائد مقدمے میں ہتک ِ عزّت اور قانونی اخراجات کی مد میں رقم ادا کرنے پر بھی اتفاق کیا۔

واضح رہے،ریحام خان نےدسمبر 2019ءمیں اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئےکہا تھا کہ ’’ زلفی بخاری وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ مل کر ایک کرپٹ پلان کے تحت نیویارک میں واقع روزویلٹ ہوٹل کم قیمت پر فروخت یا حاصل کرنا چاہتے ہیں‘‘۔بعد ازاں، رواں سال زلفی بخاری نے ریحام خان کے خلاف ہتکِ عزّت کا مقدمہ دائر کیا، جس میں یہ الزام جھوٹا ثابت ہوا۔ریحام خان نے اپنے ایک انٹرویو ہی میںبتایاتھا کہ ’’مَیں کسی پروگرام یا منصوبہ بندی کے تحت پاکستان نہیں گئی تھی۔ مجھے2013ء میں واپس آنا تھا، لیکن ایک ٹریفک حادثے کے باعث وہیل چیئر پر آگئی۔ کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ اس دوران مَیں وہیل چیئر ہی پر پروگرام پیش کرتی رہی۔

عمران خان مقبولیت کی جس انتہا پر تھے،اُن کا وزیرِاعظم بننا یقینی تھا اوریہ باتیں مَیں نے بھی سُنی ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ مجھے بطورِ خاص کسی ادارے یا خفیہ ایجینسی نے عمران خان سے شادی کے لیے ایک مشن کے طور پر بھیجا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ مجھے کسی نے پاکستان بھیجا تھا اور نہ پاکستان پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (نون) نے اس حوالے سے مجھ سے کوئی رابطہ کیا۔ تاہم، مَیں اتنا ضرور کہتی ہوں کہ عمران خان سے میری شادی حقیقی یا نارمل شادی نہیں تھی۔ 

مگر اب میرا نہ تو دوبارہ شادی کا کوئی ارادہ ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی پارٹی بنانے کا۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مجھے عمران خان کی کون سی بات سب سے زیادہ پسند تھی،تو وہ یہ ہے کہ جس چیز کو وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، حاصل کرکے ہی رہتے ہیں۔ خواہ اس کے لیے انہیں کیسی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے یا کتنی ہی جدّو جہد کیوں نہ کرنی پڑے۔ اُن سے میری شادی حادثہ نہیں،زندگی سیکھنے کا ایک عمل تھا۔‘‘ (جاری ہے)

تازہ ترین