• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے حکمراں لاثانی ہیں ،ان سے بھلا کس کا موازنہ ،تاہم ایک نظر اُس سوویت یونین کے حکمران پر ڈال لینے میں بھی کیا حرج ہے ،جس کے17ٹکڑے کرنے کاشرف ہمیں حاصل ہے۔ ایک بات واضح ہے کہ راہبر کی صورت اُس کے قول و فعل میں یکسانیت سے تابند ہ ہوتی ہے،کھوکھلے دعوئوںاور دلکش نعروں سے نہیں۔ولادیمیر لینن نے مساوات کا نعرہ لگایا توحکومت ملنے پر عمل کرکے بھی دکھایا۔آئیے 17اکتوبر 1917کو زار شاہی کو شکست دیکر سوویت یونین (روس )کے حکمران بننے والے کے طرزِ حکمرانی کی چند جھلکیاں دیکھتے ہیں جو Stories About V.I.Ieninکے توسط سے اُن مزدوروں کی زبانی ہم تک پہنچیں جنہوں نےانہیں قریب سے دیکھا۔ایک مزدور بورسیوف کہتے ہیں، ’’یکم مئی 1920کو کمیونسٹ پارٹی نے پورے ملک میں کام کا دن منایا، ملک کا کوئی کونہ ایسا نہ تھا جہاں لوگوں نے اس روز کام نہ کیا ہو، میں تعمیراتی ملبہ ہٹانے کے کام میں لگ گیا، دیکھا لینن بھاری بورے اٹھارہے ہیں ، میں نے کوشش کی کہ وہ ہلکے اور میں بھاری اٹھائوں، ہم میں تکرار ہوئی، لینن نے کہا کہ آپ ہلکے اٹھائیں گے کیونکہ آپ 50اورمیں 28برس کا ہوں ! وقفے کے دوران انہیں سگریٹ پیش کیا گیا تو جواب تھا، میں سگریٹ نہیں پیتا‘‘ایک کارخانے کے مزدور ایوانوف کی سنئے۔’’ 1921میں حجام خانے میں شیو کیلئے بیٹھا تھا، چھ آدمی اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے، اچانک ’’قائد انقلاب‘‘ شیو کیلئے آگئے، ہم نے پوچھا کیسا مزاج ہے ولادیمیر ایلیچ، کیسا مزاج ہے رفیقو! انہوں نے جواب دیا اور اپنی جیب سے رسالہ نکال کر پڑھنے لگے، تھوڑی دیر میں کرسی خالی ہو گئی، ہم نے لینن سے کہا کہ وہ باری کے بغیر کرسی پر بیٹھ جائیں، جواب تھا نہیں، آپ کا شکریہ، ہمیں قطار کا لحاظ رکھنا چاہئے، ہم خود ہی تو قاعدے بناتے ہیں! لینن کے نجی ڈرائیور گیل ایک بہادر و حوصلہ مند رہنما کی کیا حیران کن تصویر کشی کرتے ہیں،’’ انقلاب کے پہلے سال ہی بھیانک قحط پڑا تھا، سامراجی جنگ ابھی ابھی ختم اور خانہ جنگی شروع ہوئی تھی، 20اگست 1918کو اناج کی منڈی میں جلسے کے بعدلینن فیکٹری میں مزدوروں کے سوالات کے جواب دے رہے تھے کہ ایک عورت نے ان پر دو فائر کئے، ہر طرف آوازیں گونج اٹھیں ’’مار ڈالا لینن کو مار ڈالا‘‘ سارا مجمع حملہ آور کے پیچھےدوڑ پڑا ،ہم نے لینن کو اسپتال پہنچانا چاہا، انہوں نے کہا ’’گھر، گھر‘‘ ہم نے انہیں گاڑی میں ڈالا، لیکن وہ ایک بار بھی نہ تو کراہے اور نہ ہی انہوں نے کوئی آواز نکالی، گھر پہنچنے پر ہم ساتھیوں نے کہا ’’ہم آپ کو اٹھا کر اندر پہنچا دیں گے، لیکن انہوں نے انکار کر دیا، ’’میں خود چلا جائوں گا‘‘ کوٹ اتار لو، اس طرح میرے لئے چلنا آسان ہو گا اور پھر وہ سیڑھیاں چڑھنے لگے...! علاج کے بعد وہ مزدوروں کے پاس پہنچ گئے، سب کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی، ان کا پہلا سوال تھا ’’آپ کی صحت کیسی ہے ولادیمیر ایلیچ؟‘‘ شکریہ بالکل ٹھیک ہے، لینن مسکراتے ہوئے جواب دیتے‘‘۔ ایک اور واقعہ ،لینن دو آدمیوں کے ساتھ گھاس پر چل رہے تھے، دور سے ایک کسان ’بیندیرین‘ نامی چلاتا ہوا کہہ رہا تھا، گھاس سے نکل جائو ، بہت مہنگی ہے !! قریب آنے پر وہ شرمسار ہوا اور کہا کامریڈ لینن میں دور سے پہچان نہ سکا،اتفاق سے لینن کو اپنے آتش دان کی مرمت کیلئے ہنر مند کی ضرورت پڑی، مذکورہ کسان اس میں ماہر تھا، فوجی اس کے پاس آئے اور کہا کہ لینن کے ہاں جانا ہے۔

اس نے بیوی سے کہا’’ اچھا کاتیا، اب ہم ایک دوسرے سے کبھی نہ مل سکیں گے، غالباً میرا پرانا اجڈ پن لینن کو یاد آگیا ہے ‘‘ میرے پہنچنے پر لینن نےکہا بڑے میاں آپ وہی ہیں نا، جس نے گپھا میں گھاس کے میدان سے مجھے نکال باہر کیا تھا۔ بیندیرین نے کہا ’’خطا ہو گئی‘‘ لینن نے کہا، ’’آپ بجا طور پر مجھ پر ناراض ہو گئے تھے، میرا گھاس کو روندنا ٹھیک نہیں تھا ۔اب میری آپ سے بڑی درخواست ہے، دیکھو میں کس حالت میں رہتا ہوں، ساری دیواریں دھوئیں سے کالی ہو گئی ہیں، تم چمنی ٹھیک کر سکتے ہو نا‘‘ ! جی ہاں بیندیرین نے جواب دیا۔ واپسی پر اس نے گھر میں داخل ہوتے ہی فرط جذبات سے کہنا شروع کر دیا،’’ سنتی ہو، کاتیا! میں نے کامریڈ لینن کا آتش دان ٹھیک کردیا، انہوں نے مجھے مناسب اجرت بھی دی اور چائے بھی پلائی‘‘ ، انقلاب مخالف 20 افرادکو جب ہنگامی کمیشن نے گرفتار کیاتو ان کی شکایت پر وہ قید خانے گئے ، خوراک پر مامور وزیر ژینسنگی نے کہا ’’ہمارے پاس اپنے مزدوروں کیلئے راشن نہیں ہے ان انقلاب دشمنوں کیلئے راشن کہاں سے آئے گا‘‘، لینن کا جواب تھا ’’سمجھتا ہوں،لیکن ہم نے گرفتار کیا ہے ان کو کھلانا بھی ہماری ذمہ داری ہے‘‘۔سوال یہ ہےکہ ہمارے آج کے ریاستِ مدینہ کے دعوے دار حکمراں اور کل کے ملحدحکمرانوں میں سے کون عوام کا زیادہ غم خوارٹھہرا؟

تازہ ترین