• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
بریڈ فورڈ کے ایک سابق لارڈ میئر محمد عجیب سی بی ای پر شائع ہونے والی ایک تازہ کتاب میں بریڈفورڈ سے سینئرصحافی اور دانشور شخصیت ظفر تنویر کا Struggle, Justice and Ajeeb کے عنوان سے ایک باب ہے اس میں ظفر تنویر کے بارے میں لکھا ہے کہ ظفر تنویر برطانوی پاکستانی صحافی ہیں وہ بریڈ فورڈ میں گزشتہ 50 سال کے رہائشی ہیں۔ انہوں نے پاکستانی سیاست کے اتار چڑھاو کو دیکھا اور رپورٹ کیا۔ برطانوی سیاست میں تارکین وطن کے کردار پروہ باقاعدگی سے لکھتے چلے آ رہے ہیں۔ میرے لیے ظفر تنویر بھائیوں سے بھی بڑھ کر ہیں آپ کا تعلق برصغیر کے نامور صحافتی گھرانے سے ہے، انہوں نے محمد عجیب کے متعلق اپنے تاثرات کو نہایت خوبصورت پیرائے میں سمویا ہے۔ انہوں نے اپنے مشاہدات کو بیان کیا ہے اور صرف زیر بحث شخصیت کا جائزہ پیش نہیں کیا بلکہ صحیح معنوں میں ایک محقق کا رول ادا کرتے ہوئے اس دور کے بریڈفورڈ کے سیاسی حالات کا پس منظر بھی بھی پیش کیا ہے تاکہ ایک قاری یہ جان سکے کہ جس وقت بریڈفورڈ کے سیاسی منظر پر ابھرے تو شہر کی عمومی سیاسی تصویر کیا تھی ۔ظفر تنویر کی ایک نمایاں خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ماضی کے واقعات اور کرداروں کو حال سے جوڑ دینے کا فن بھی جانتے ہیں اور پھر آگے چل کر اپنے مین کردار کو زیر بحث لاتے ہیں اس طرز تحریر سے قاری کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے کہ وہ صرف ماضی میں ہی نہیں بلکہ حال میں بھی مصنف کے ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں ۔ظفر تنویر قاری کو صرف محمد عجیب نہیں بلکہ ایک تاریخ سے بھی آگاہی دے رہے ہیں۔ اس کتاب میں بھی انہوں نے لکھا ہے کہ جب وہ یہ سطریں لکھ رہے ہیں توایک اور ایشیائی کونسلر نے لارڈ مئیر بریڈفورڈ کا حلف اٹھایا۔لارڈ میئر بریڈ فورڈ کے دفتر نے اسے چھٹا ایشیائی لارڈ مئیر بنایا ہے۔ دیگر شہروں میں بھی ایشیائی افراد کی ایک بڑی تعداد بطور کونسلر خدمات انجام دے رہی ہے اور بعض ان کے مقامی لارڈ میئر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں تاہم یہ 2020 ہے (جب ظفر تنویر صاحب نے محمد عجیب پر کتاب میں لکھا) ۔ جس عرصہ میں محمد عجیب سیاست میں آگے بڑھ رہے تھے تو اس وقت صورت حال آج سے بہت مختلف تھی 1985 تک ہمارے پاس ایشیائی نوجوان گریجویٹ اس طرح نہیں تھے۔ میزبان کمیونٹیوں میں نہ سیاست میں اور یونیورسٹیاں اس طرح کا اپنے لوگوں کاخیرمقدم کرتی تھیں 1980 کی دہائی میں بیشتر ایشیائی تارکین وطن ابھی تک روزی کمانے کے لئے جدوجہد کر رہے تھے ظفر تنویر نے واضح کیا کہ اس وقت تارکین وطن چھوٹے گروسری شاپس اور ریستورانوں میں اپنے پاؤں رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ محمد عجیب اس پس منظر میں پہلے غیر سفید فام لارڈ مئیر کے طور پر منظر پر ابھرے انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ جب محمد عجیب لارڈ میئربنے تو شہر میں نسلی طور پر کس طرح کی صورتحال درپیش تھی انہوں نے نسلی تعصب کے واقعات پر محمد عجیب کے کردار کو اجاگر کیا ہے اور بریڈفورڈ کونسل میں ایشیائی افراد کی قطع نظر سیاسی پس منظر حوصلہ افزائی کے رول کو اجاگر کرتے ہوئے انہیں ایک مشعل قرار دیا ہے۔محمد عجیب سیاست میں نئے آنے والوں کے لیے رہنمائی کی ایک مشعل ہیں جس طرح کہ بریڈ فورڈ لیسٹر مل کی چمنی لوگوں کے لیے ایک تاریخی نشان کے طور پر بریڈفورڈ کے ارد گرد راستے تلاش کرنے کا کام کرتی ہے۔ محمد عجیب نے توقع سے بھی زیادہ اپنے لوگوں کے لئے کام کیا ہے اور انتہائی مشکل ادوار اور حالات میں اپنے لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ احسن طریقے سے انجام دیا، اور سٹی ہال کی راہداریوں کے گرد ان کی رہنمائی کی۔ پھر انہوں نے بجائے کسی اور پس منظر کے ہمیشہ لیبر پارٹی کے کونسلر ہونے پر فخر محسوس کیا اور انٹی گریشن کے تصور کو مضبوط کیا ۔ظفر تنویر کی تحریر سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ محمد عجیب نے بریڈفورڈ میں مقامی سیاست میں اس امر کی حوصلہ افزائی کی کہ ایشیائی صرف ایسی وارڈ سے الیکشن جیت کر ٹاؤن ہال نہ پہنچیں جو خود ایشین آبادی کی اکثریت پر مشتمل ہیں بلکہ سفید فام کمیونٹی کے اکثریتی حلقوں میں بھی ان کی نمائندگی ہو اور خود محمد عجیب نے بھی نے بھی اسی طرح کی ایک وارڈ سے کامیابی حاصل کر کے اس تاثر کو ختم کر دیا کہ صرف ایک سفید فام امیدوار ہی سفید فام وارڈ سے جیت سکتا ہے۔ مصنف نے ان واقعات کا بھی احاطہ کیا ہے جن کی وجہ سے برطانیہ میں پاکستانی کشمیری کمیونٹی کا یہ عظیم سپوت برطانیہ کی پارلیمنٹ کے لئے منتخب نہ ہو سکا اور کمیونٹی ان کی صورت میں اہم نمائندگی سے محروم رہ گئی ۔ خیال رہے کہ اس کتاب کو مرتب کرنے والوں میں ممتاز ادیب یعقوب نظامی، کونسل برائے مساجد کے رہنما اشتیاق احمد اور صحافی ظفر تنویر شامل ہیں، اُن کی اس کاوش سے برطانیہ میں منتخب ہونے والے پہلے ایشیائی لارڈ میئر محمد عجیب کی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور سیاسی سماجی جدوجہد کے مختلف مراحل کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ بلاشبہ محمدعجیب ان تارکین وطن میں نمایاں ہیں جن کی برطانوی معاشرے میں جدوجہد نسلی اقلیتوں کے لیے ایک مشعلِ راہ کا کردار ادا کرتی رہے گی ۔
تازہ ترین