جمالیاتی قدریں انسانوں کے جسم میں اِنجیکٹ نہیں کی جاسکتیں، نہ ہی قانون کی سخت گرفت، سزا کا خوف اور ذات کی بے اطمینانی انسان کے اندر بہتے شر، جبر اور ظلم کے سیلاب کی روک تھام کرسکتی ہے۔ مسئلہ سوچ کے آنگن میں چراغ جلانے اور رویوں میں تبدیلی لانے کا ہے۔ ظاہر کو جس قدر ممکن ہو چمکانےکی کوشش کر دیکھیں، اگر باطن کی کوٹھری میں اندھیرا ہوگا تو باہر بھی تاریکی چھائی رہے گی کیونکہ انقلاب اور تبدیلی اندر کی آواز اور کھڑکیوں سے چھن کر آنے والی روشنی سے جڑی ہوتی ہے۔ اس لئے کسی ایسی جادوئی چھڑی کی ضرورت ہمیشہ موجود رہتی ہے جو انسان کے تن من میں رابطے کا پل اور وسیلہ بن سکے۔ انسان کی ذات میں مختلف قوتوں کے سرچشمے پوشیدہ ہیں انھیں مثبت رنگ میں ڈھالنا اصل مقصدِ حیات ہے۔ مگر ایسا کون کرے ، انسان کی جمالیاتی تربیت تو کبھی کسی حکومت کے منشور کے پس منظر میں موجود ہی نہیں رہی۔ معاش اور آسائش سے بات آگے بڑھتی ہی نہیں۔ زیبائش بھی مین روڈ کا ماتھا لشکانے تک ہے ۔ ابتدائی دور حیات میں پتھروں پر رقم معلوم تاریخ کے نقطے ، لکیریں اور تصویریں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آدم نے سفر زندگی میں ہمیشہ جمال کو تلاشا، آنکھوں سے چوما، دل میں بسایا اور کسی نہ کسی طورمحفوظ کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بغیر اس کی تشفی ممکن ہی نہ تھی کیونکہ یہ سب خوبصورتی اس کی روح میں سمائی ہوئی تھی۔ اس سے تعلق استوار کرنا اور اس کے ذریعے احساسات کا اظہار کرنا اس کی سرشت میں تھا۔ اسے جس طرح سانس لینے کے لئے ہوا کی ضرورت تھی، روحانی اور جمالیاتی کیفیات کو لفظ اور رنگ میں بیان کرنا بھی اس کی زندگی کے اطمینان سے جڑا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی مکتب میں فنون کی تعلیم اور تعظیم شامل تھی۔ یونان جو دانش کی سرزمین کہلاتی ہے میں قبل مسیح کے فلسفیوں نے اپنے افکار میں فنون کی اہمیت اجاگر کی۔ اصول وضابطے وضع کئے۔ تحسین و تسلیم کی رسم ڈالی۔ فن ہی وہ الہامی وسیلہ ہے جس کے ذریعے تخیل کی پروازیں ساتویں آسمان تک سفر کر سکتی ہیں اور بند آنکھوں کے مشاہدے کو احساس میں رچا کر رقم کیا جا سکتا ہے۔ اسلام خود جمالیات کا قدردان دین ہے جس کے ہر حکم میں اخلاقی رہنمائی، ذات کی اچھائی اور معاشرے کی خیر وابستہ ہے۔ کئی کئی منزلہ عمارتوں پر مشتمل یونیورسٹیاں وجود میں آنے سے پہلے مدارس اور مکاتب میں نظم و نثر، فلکیات، موسیقی خطاطی اور مصوری نصاب کا حصہ ہوتے تھے۔ جب تعلیم کو بھی طبقوں اور درجوں میں بانٹ دیا گیا تو متشدد رویوں نے شدت اختیار کی کیونکہ علم کو معاش اور ظاہری تراش خراش تک محدود کر دیا گیا تھا۔ یوں ایک مصنوعی دور کا آغاز ہوا، دل میں کچھ، دماغ میں کچھ اور زبان پر کچھ اور کی رسم چلی۔ یہ دور طویل ہوتا جارہا ہے۔ فنون جو کسی معاشرے کی تمدنی اور تہذیبی ترقی کے علمبردار ہوتے ہیں، کی بیخ کنی کرنے سے معاشرے کا مجموعی مزاج شدت پسندانہ ہوا جس نے برداشت اور رواداری کو وجود سے حذف کر دیا۔
جب سے کائنات وجود میں آئی ہے تصویر بنانے کا فن انسان کے دل و دماغ میں موجود رہا ہے۔ جب لفظ ایجاد نہیں ہوئے تھے اور انسان روزمرہ زندگی کے معاملات کے لئے اشاروں سے کام لیتا تھا، غمی خوشی، ناراضی اور پسندیدگی کے جذبات بھی علامتی زبان کے مترادف تھے جہاں وہ پانی میں اپنا عکس دیکھ کر مٹی پر اپنی شکلیں بناتا، وہیں اپنی محبوب ہستیوں، پرندوں اور درختوں کے علاوہ کچھ آپسی تصویریں بھی کندہ کرتا تھا جن کو اس نے کبھی دیکھا نہ تھا گویا وہ کسی طاقتور قوت کو تجسیم کرکے تخیل کی آمیزش کرتا تھا۔ مطلب سوچتا بھی تھا اور خواب کی تعبیر کو احساس میں رچا کر اظہار بھی کرتا تھا۔ آج بھی غاروں اور کھنڈروں میں موجود ابتدائی انسان کے تخلیقی مصوری کے نمونے حیرت میں مبتلا کرتے ہیں۔
برصغیر پر اسلامی خطاطی کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ پاکستان کے خطاطان نے اسلامی اور برصغیر کی تہذیب کے ملاپ سے خطاطی میں کئی جدتیں متعارف کروائیں۔ لاہور میں خطاطی کی نمائشیں ہوتی رہتی ہیں۔ ربیع الاوّل کے مبارک مہینے کی مناسبت سے وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان احمد خان بزدار نے 12 ربیع الاوّل کو پِلاک کا خصوصی دورہ کیا، ریڈیو پر سامعین سے گفتگو کی، میوزیم میں ثقافتی اشیاء دیکھیں۔ انھوں نے سب سے زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ خطاطی کے فن پاروں کو دیکھتے ہوئے کیا۔ وہ ہر تصویر کے پاس رُکے اور اُس میں پنہاں خوبصورتی کی تحسین کی۔ بہت سے فن پارے دیکھ کر انھوں نے ان کے خطاط کا تذکرہ کیا۔ پاک ایران خطاطی کی نمائش میں ایرانی سفیر جناب محمد رضا ناظری اور جعفرروناس، ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ خصوصی طور پر شریک ہوئے۔ یہ نمائش ربیع الاول کے پورے مہینے جاری رہے گی۔ نمائش میں ایرانی خطاط علی رضا کدخدائی، ڈاکٹر کاظم خراسانی اور مسعود صفار کے علاوہ پاکستانی خطاطوں اسلم کمال، جنرل (ر) ہمایوں خان بنگش، شفیق فاروقی، خالد محمود صدیقی، اصغر علی، واجد محمود یاقوت رقم، محمد جمیل حسن نفیسی، شوکت علی منہاس زریں رقم، عبدالرحمٰن، عرفان احمد قریشی، طلعت محفوظ بٹ، زین العابدین، عثمان غنی، زبیر مغل، انور خان، عکاشہ ساحل اور نعمان منور کے فن پارے نمائش کے لئے رکھے گئے ہیں۔
خطاطی ایک ایسا فن ہے جِس کا تعلق ہماری روح سے ہے اِس کے ذریعے ہم اپنے خالق اور اپنے پیغمبرﷺ سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ خطاطی ہمارے دینی، روحانی اور جمالیاتی جذبات و احساسات کی ترجمانی کا ایک منفرد ذریعہ ہے۔ نئی نسل کو اس سے جوڑنے اور اس کی ترقی و ترویج کے لیے پِلاک ایک ورکشاپ کا اہتمام کر رہا ہے جس میں اِس دور کے نامور خطاط طالبعلموں کی رہنمائی کریں گے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعے پنجاب کی کھوئی ہوئی جمالیاتی قدروں کو تلاشنے اور دوبارہ زندگیوں کا حصہ بنانے کے لیے خیر کا جو عمل شروع کیا ہے وہ یقیناً لائق تحسین ہیں۔