• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جموں و کشمیر کے آزاد خطے میں قائم ہونے والی پہلی حکومت کے ساتھ ہی یہاں نظریات کی جگہ اقتدار کی سیاست نے پنجے گاڑنا شروع کر دئیے تھے لیکن تحریک آزادی کے چراغ بھی ابھی پوری آب و تاب سے روشن تھے اور نظریاتی سیاست دوسری تمام مصلحتوں پر غالب تھی۔ تاہم 1965ء کی جنگ کے بعد ہونے والے پاک بھارت معاہدوں سے جو مایوسی اور بددلی پیدا ہوئی اس کے نتیجے میں اقتدار کی سیاست رفتہ رفتہ زور پکڑنے لگی۔ چنانچہ 25 جولائی 2021ء کو آزاد کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں تحریک انصاف نے اکثریت حاصل کی تو حکومت سازی کیلئے پہلے سے قائم کم از کم دوپریشر گروپ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کیلئے سرگرم ہو گئے لیکن وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تحقیق کی بنا پر جب ایک ایسے شخص کو وزیر اعظم نامزد کر دیا جو نسبتاً کم معروف سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا، تحریک آزادی میں جس کی قربانیاں زباں زد خاص و عام تھیں جس کا منشور سیاسی اقتدار سے زیادہ غریب عوام کی خدمت تھا۔ جو منصب و مرتبے کی خواہشات کا اسیر نہیں تھا اور جس نے کوئی پریشر گروپ بھی نہیں بنا رکھا تھا تو ان گروپوںکو جو اقتدار کے حصول کی دوڑ میں خود کو منزل کے قریب پہنچتا محسوس کر رہے تھے بہت تعجب ہوا اور مایوسی بھی ہوئی مگر جن عوامی حلقوں کو سردار عبدالقیوم نیازی کے خاندانی پس منظر کا بخوبی علم ہے ان کے نزدیک وزارت عظمیٰ کیلئے ان سے بہتر انتخاب کوئی ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ عمران خان نے نیازی ہونے کے ناطے انہیں نامزد کیا ہے مگر اب یہ حقیقت بھی واضح ہو چکی ہے کہ نیازی ان کا قبیلہ نہیں عرفیت ہے۔ ان کا تعلق دراصل دلی مغل برادری سے ہے جو عددی لحاظ سے ایک اقلیتی برادری ہے اور یہ اتفاق کی بات ہے کہ ان کے انتخابی حلقے میں جتنی بھی برادریاں ہیں۔ تعداد کے اعتبار سے اقلیتی ہی شمار ہوتی ہیں۔ سردار قیوم نیازی اور ان سے پہلے ان کے بڑے بھائی سردار غلام مصطفیٰ خان انہی کی تائید و حمایت سے اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے رہے۔ درویش صفت سردار غلام مصطفیٰ دو مرتبہ اسمبلی کے رکن اور ایک بار وزیر مال بھی رہے۔ سردار قیوم نیازی بھی دوبار اسمبلی کے رکن بنے اور وزیر خوراک و جنگلات کے منصب پر فائز ر ہے۔ اس طرح وزارت عظمیٰ کیلئے ان کا انتخاب ایک وسیع سیاسی و انتظامی تجربے کے حامل ہونے کی وجہ سے ہوا۔ تحریک آزادی میں ان کے گھرانے کا کردار بھی مثالی ہے۔ ان کے دادا سردار اللہ دتہ خان اپنے علاقے، درہ شیر خان کے پہلے شہید تھے۔ وہ ڈوگرہ فوج کی مزاحمت کرتے ہوئے اس وقت شہید ہوئے جب اس نے سو فیصد مسلمانوں کے اس قصبے کو ہندوئوں کے جتھوں کی مدد سے اس خوبصورت وادی پر پے درپے حملے کر کے گھروں کو آگ لگانا شروع کر دی۔ سردار اللہ دتہ نے ان کا مقابلہ کیا اور جام شہادت نوش کر گئے۔ ان کے بیٹے سردار خان محمد خان اور سردار فضل داد خان کل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے فعال رہنما تھے۔ انہوں نے سیز فائر لائن کی دونوں جانب تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لیا ۔ درہ شیر خان کے تقریباً ایک تہائی پہاڑی علاقے پر بھارتی فوج کا قبضہ ہے اور سردار قیوم نیازی کے گھر براہ راست اس کی توپوں کی زد میں ہیں جو بے پناہ نقصان پہنچا چکی ہیں۔ اس کے باوجود ان کا خاندان وہاں موجود ہے اور ہر ابتلا کا مقابلہ کر رہا ہے حالانکہ کہیں بھی محفوظ مقام پر منتقل ہونا ان کے لئے مشکل نہ تھا۔ یوں قیوم نیازی آزاد کشمیر کے پہلے وزیر اعظم ہیں جو کنٹرول لائن پر رہتے اور بھارتی جارحیت کے چشم دید گواہ ہیں۔

سردار عبدالقیوم نیازی تنازع کشمیر کے تمام پہلوئوں کا مفکرانہ اور مدبرانہ ادراک رکھتے ہیں۔ ایسے وقت میں جب بھارت نے بظاہر مقبوضہ جموں و کشمیر کو پوری طرح ہڑپ کر لیا ہے وہاں قتل و غارت کا بازار گرم ہے ہر آٹھ کشمیری مرد و زن پر ایک مسلح فوجی کھڑا ہے، 9 لاکھ بھارتی فوج کشمیریوں کی نقل و حرکت روکنے پر مامورہے۔عالمی برادری سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمدسے مجرمانہ اغماض برت رہی ہے مسلم امہ بھی جسے ذرا سی تکلیف پہنچے تو کشمیری اور پاکستانی مسلمان تڑپ کر رہ جاتے ہیں زبانی اظہار ہمدردی تک محدود ہو گئی ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ محکوم و مقہور کشمیری شاید ہی آزادی کا سورج دیکھ سکیںمگر سردار عبدالقیوم نیازی کو پختہ یقین ہے کہ جموں و کشمیر پر بھارت کا تسلط ختم ہو کر رہے گا۔ ان کا وجدان کہتا ہے کہ حریت پسند جس طرح بھارت کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں کشمیری نوجوان جن میں پڑھا لکھا طبقہ، ڈاکٹر، انجینئر ، پروفیسر بھی شامل ہیں شوق شہادت سے سرشار مادر وطن کی آزادی کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں، آخری فتح کشمیری عوام کی ہوگی۔ سردار صاحب اس معاملے میں افغانستان کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانوں کے پاس کوئی بیس کیمپ نہیں تھا پھر بھی ایک سپر پاور کو شکست دی ہمارے پاس تو ایک مضبوط بیس کیمپ ہے۔ ایمان و ایقان کی قوت ہے۔ ہمارا لیڈر عمران خان جیسا قوت ارادی کا پیکر ہے جس نے مسئلہ کشمیر کو اقوام عالم میں پھر سے زندہ کر دیا ہے۔ ایسے میں حالات ضرور کروٹ لیں گے۔ عالمی طاقتیں اپنا منافقانہ رویہ ترک کریں گی۔ بھارت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گا اور کشمیر بنے گا پاکستان۔ سردار قیوم نیازی آزاد کشمیر میں تعمیر و ترقی کیلئے پرعزم ہیں۔ سرنگ کے ذریعے آزاد کشمیر کو گلگت ،بلتستان سے ملا کر جموں و کشمیر کے ان دونوں خطوں کو آپس میں ملانا چاہتے ہیں۔ عام آدمی کی فلاح و بہبود کیلئے پاکستان کی طرف سے ملنے والے 5 سو ارب روپے کے پیکیج سے انقلاب برپا ہو تا دیکھ رہے ہیں۔ انہیں سیاسی گروہ بندیوں میں نہ الجھایاگیا جو بدقسمتی سے شروع ہو چکی ہیں تو یقیناً پانچ سال بعد کا آزاد کشمیر آج کے آزاد کشمیر سے مختلف ہو گا۔

تازہ ترین