• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

میں سینٹری فیوج سسٹم آنکھ چراکر کسی ملک پہنچا سکتا تھا اور پھر یہ کہ سینٹری فیوج ٹیکنالوجی اتنی چھوٹی چیز بھی نہیں کہ میں نے جا کر کسی کی جیب میں ڈال دی میری موت کے بعد بھی میرے ساتھ کام کرنے والے گواہی دیں گے کہ میں بے قصور تھا ۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا بس یہی میرا’’جرم ‘‘ہے پرویز مشرف کا بس چلتا تو مجھے امریکہ کے حوالے کر دیتا۔ میں جب بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ملاقات کرتا یا ان سے فون پر بات ہوتی وہ اس بات کا گلہ کرتے کہ وہ اپنی مرضی سے جی سکتے ہیں اور نہ مر سکتے ہیں ۔ مجھ سے ایک آزاد شخص کے طور پر زندہ رہنے کا حق چھین لیا گیا ہے وہ کسی سے مل سکتے تھے اور نہ ہی کسی کو ان سے ملنے کی اجازت تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر خان سے کسی نہ کسی بہانے ملنے کی کوشش کی جاتی تو اس شخص کو ہل روڈ پر روک لیا جاتا جس کے ہاتھ میں کیمرہ ہوتا یا اس پر اخبار نویس ہونے کا شک ہوتا۔اسے ڈاکٹر خان کی رہائش گاہ کے قریب نہیں پھٹکنے دیا جاتا تھا ڈاکٹر صاحب سے میری تین چار ملاقاتیں ان کے گھر ہر ہوئیں، اسی طرح دوتین ملاقاتیں ان کے دفتر میں ہوئی ہیں البتہ یوم تکبیر یا سالگرہ پر بھجوائے جانے والے پھول ان تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جاتی تھی میں نے ان کے اعزاز میں راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب میںپہلی تقریب پذیرائی منعقد کی اس کے بعد بھی مزید تین چار تقاریب منعقد کیں جن میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو زبر دست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیاڈاکٹر صاحب پوری زندگی حکمرانوں کے طرز عمل پر نالاں رہے ، انہیں امریکہ کے حوالے کیا جارہا تھالیکن قومی سلامتی کے اداروں نے انہیں امریکہ کے حوالے نہیں کرنے دیا۔ پرویز مشرف نے ان کے تمام اعزازت واپس لینے کا اعلان تو کیا لیکن یہ اعزازات ان کے پاس ہی رہے مختلف حکومتوں میں شامل لوگ ڈاکٹر خان کے پاس بیٹھنا عزت افزائی سمجھتے تھے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے 18 سال قید تنہائی کی اذیت برداشت کی جب ان پر غداری کا الزام عائد کیا گیا انہوں نے برملا یہ بات کہی کہ میرا تعلق بھوپال سے ہے جہاں کبھی کوئی غدار پیدا ہواہے اور نہ ہی قادیانی ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی شدید علالت بارے فیس بک پر پوسٹیں چلائی جاتی تھیں جب کوویڈ19-کے باعث ہسپتال میں داخل ہوئے ہوئے تو بعض عناصر نے ان کی موت کی خبر چلا دی حالانکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صحت یاب ہو گئے تھے جس پر انہوں نے فوری طور پر وڈیو پر پیغام ریکارڈ کرایا اور کہا کہ وہ اللّٰہ تعالی کے فضل و کرم سے صحت یاب ہیں‘‘ وہ صحت یاب ہو کر گھر آ گئے لیکن 10 اکتوبر2021 کی صبح کو خون کی قے ہوئی جس کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ فیصل مسجد کے احاطہ میں ان کا مزار تو نہ بنا ،ایچ-8- قبرستان میں ان کی قبر پر پھول چڑھانے والوں کی قطاریں لگی رہیں اور لوگ اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کرتے رہے۔ میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی اہلیہ ہینی کوبھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنے شوہر کو آخری وقت تک اکیلے نہیں چھوڑ ا پاکستان کی شہریت اختیار کر لی اور مشکل وقت میں ایک بہادر بیوی کی طرح ساتھ دیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کوہینی جیسی بیوی نہ ملتی تو ممکن ہے وہ بہت جلد ہمت ہار جاتے ہیں وہ آج اس دنیا میں نہیں ہیں، ان کے اثاثوں کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرنے والوں کو اب مایوسی ہوگی انہوں نے اپنے پیچھے دو گھر چھوڑے ہیں، ایک 207 ہل سائیڈ روڈ پر ہے جہاں انہوں نے اپنی زندگی قید میں گزار دی دوسرا مکان بنی گالہ میں ہے جہاں وہ منتقل نہیں ہو سکے یہ مکان انہوں نے اپنی بڑی صاحبزادی ڈاکٹر بینا خان کو گفٹ کر دیا تھا جو ان کی اکلوتی بیٹی تابندہ خان کے زیر استعمال ہے البتہ اس ملک کے حکمران بنی گالہ کے مکین بن گئے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کاجب بھی بات کرتے۔

28مئی1998ء کو ہونے والے ایٹمی دھماکوں سے ایک روزقبل انہوں نے اس بات کا گلہ کیا کہ ان کو ایٹمی دھماکوں کے مقام چاغی پہاڑ تک پہنچنے کے لئے ہوائی جہا ز فراہم نہیں کیا جا رہا کیونکہ کچھ لوگ ان سے ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ چھیننا چاہتے ہیں لیکن اس وقت کی عسکری قیادت نے ان کے کوئٹہ پہنچنے کے لئے خصوصی جہاز فراہم کر دیا۔ اس روز میں نے اور سہیل عبدالناصر نے 28مئی کو ہونے ایٹمی دھماکوں کی خبر فائل کی جو میرے صحافتی کیرئیر میں کریڈٹ ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان خان کی وفات پر ہر اس شخص نے ان کے ملک کو ایٹمی قوت بنانے میں کلیدی کردار کا اعتراف کیا جو ان کو میٹرالوجسٹ ہونے کا طعنہ دیتا تھا۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے بھی ان کی ایٹمی قوت کے لئے خدمات کو سراہا ہے۔ فیض آباد انٹرچینج میں چاغی پہاڑ کا مڈل نصب تھا جسے بوجوہ ہٹا کر ایف -9- منتقل کر دیا گیا اب تو یوم تکبیر پر بھی کوئی بڑی تقریب منعقد نہیں ہوتی ۔میرا ڈاکٹر خان سے اکثر فون پر رابطہ رہتا تھا ، میں ان سے ٹیلی فون پر ہی انٹرویو لے لیتا تھا۔ میں نے ان کی زندگی کا آخری انٹرویو بھی وٹس ایپ پر لیا ۔

ڈاکٹر خان نے پاکستان کو ایٹمی قو ت بنا دیا اورکسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی ، انہوں نے ضیاء الحق کے اقتدارمیں چھ سال کے اندر پاکستان کو ایٹمی قوت بنا دیالیکن بین الا قوامی دبائو کے پیش نظر کسی حکمران کو دھماکہ کرنے کی جرأت نہیں ہوئی ا س بات کا کریڈٹ نواز شریف کو جاتا ہے جنہوں نے امریکی صدر بل کلنٹن کی5ٹیلیفون کالز اور 500 ارب ڈالرز کی پیشکش نظر انداز کر کے ایٹمی دھماکے کر دئیے۔ ڈاکٹر عبدالقدیرخان ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات میں مطلوبہ کارخانے لگانے کا کہہ کر ہالینڈ واپس چلے گئے ان کی واپسی پر کارخانے لگ گئے پھر ایٹمی پلانٹ کے لئے جگہ کا انتخاب کیا گیا چاغی کے پہاڑ میں میں جو ایٹمی دھماکوں کے لئے ضیا الحق کے دور میں ہی سرنگ بنالی گئی تھی ، مجھے بھی دیکھنے کا موقع ملا ہے میں وہاں سے پہاڑ کا وہ ٹکڑا بھی اٹھا لایا جو دھماکے کے وقت پہاڑ سے ٹوٹ کر ا تھا جو ایٹمی توانائی کمیشن نے ہمیں محفوظ بنا کر دے دیا۔ میں جب بھی ہل سائیڈ روڈ سے گزرتا ہوں میری نظر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو تلاش کرتی ہے اب وہاں ڈاکٹر عبدالقدیر خان تو نہیں لیکن ان کا پاکستان کو دیا ہوا ’’تحفہ‘‘ اس کے استحکام و سلامتی کا ضامن رہے گا۔

تازہ ترین