• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند روز سے تحریک لبیک کے مرکز کے باہر مستقل طور پر ایک احتجاجی مظاہرہ جاری تھا جس کے سبب یہ اندازہ لگانا کوئی جوئے شیر لانے کے مترادف نہیں تھا کہ تحریک لبیک کی قیادت اس بات کا احساس دلانا چاہ رہی ہے کہ ان سے ریاست نے وعدہ خلافی کی ہے، قطع نظر اس سے کہ ان کا مطالبہ قابل عمل ہے یا نہیں مگر ریاست کا اپنےکسی ایک بھی طبقے سے ایسا معاہدہ کرنے کی کیا تک بنتی ہے جس کو ناقابل عمل حکومت کی جانب سے خود قرار دیا جا رہا ہو۔ ریاست جو معاہدہ کرتی ہے اس کی ایک سا کھ ہوتی ہے اگر اس میں دھوکہ دہی کا عنصر شامل کر دیا جائے تو آئندہ ریاست کے وعدوں پر کون یقین کرے گا، تبدیلی نہ جانے تباہی کہاں تک لائے گی ؟

حالاں کہ وطن عزیز کو تباہی سے بچانے کے واسطے سماجی محرومیوں کو دور کرنے کے لئے بہت سارے افراد شخصی حیثیت سے متحرک ہیں، تحریک لبیک کے دھرنے کے مضمرات پر غور کر ہی رہا تھا کہ الطاف حسن قریشی اور طیب قریشی کی جانب سے کھانے پر گپ شپ کی دعوت ملی ۔مجیب الرحمن شامی ، سجاد میر ، ڈاکٹر امجد ثاقب، ڈاکٹر آصف جاہ ،طارق مغل شہزاد وحید اور منشاقاضی رونقِ محفل تھے ۔ان جیسے لوگ اخوت ، ہسپتال اور دیگر تنظیموں کے تحت تعلیم صحت روزمرہ کی ضروریات زندگی فراہم کرنے میں دن رات مگن ہیں ۔ اس دعوت کا برسبیل تذکرہ اس لئے کیا ہے کہ یہ تمام افراد بھی مذہبی تشخص رکھتے ہیں مگر مذہبی فکر کا ایسا تصور سامنے لاتے ہوئے انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں کہ اسے مذہبی فکر کی بنیاد پر کسی سے حد درجہ اختلاف کے باوجود اپنے ہی لوگوں سے تصادم کی راہ پر چلنے کے تصور سے وہ کوسوں دور ہیں ۔ ان افراد کی سرگرمیاں تحریک لبیک والوں کے لیے ایک سبق ہیں کہ اگر وہ اتنی زبردست مذہبی طاقت کو انسانیت کی غمگساری کرنے کی اسلامی تعلیمات کی جانب موڑ دیں اور اپنے لوگوں سے ، اپنے ہی پولیس والوں سے تصادم سے محفوظ رہیں تو دنیا کو زبردست پیغام جاسکتا ہے کہ ہمارا حقیقی پیغام یہ ہے کہ ہم کوڑا پھینکنے والی کی عیادت کرنے والے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہیں ۔ مگر کسی کو اس انداز فکر تک لانے کے لئے جو طریقہ کار درکار ہے اس سے تو حکومت کوسوں دور ہے۔ حالاں کہ اب تو پيج بھی ایک ہے جب کہ گزشتہ حکومت کو تو یہ بھی سہولت حاصل نہیں تھی اس وقت تو جذبات کو مشتعل کرنے کی غرض سے بھارتی ایجنٹ ،بھارتی ایجنٹ کا الزام داغ دیا گیا تھا۔ جن کو عوامی سطح پر پیسے تقسیم کیے ہوں ان پر ایسا الزام عائد کرنا اپنا ہی تمسخر اڑانے کے مترادف ہے ۔ بھارتی ایجنٹ، بھارتی ایجنٹ ،بھارتی ایجنٹ کا راگ اس طرح الاپا جاتا ہے کہ اس الزام کےعائد کرنے کے بعد یقین ہو جاتا ہے کہ کوئی حقیقی الزام عائد کرنا اب ممکن نہیں رہا ۔

یہ صورتحال بار بار پیدا ہو رہی ہے اور بار بار یہ ظاہر ہورہا ہے کہ حکومت کے پاس اس سے بچنے کی کوئی تدبیر موجود نہیں ۔ بس پولیس والوں کو سامنے کھڑا کر دو ان میں سے چند کی جانیں جانے دو سپاہی حوالدار پسے ہوئے طبقات سے تعلق رکھتے ہیں ،اس لئے ان کے مزید پس جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ افسوس کا مقام ہے یہ بھی ہے کہ تحریک لبیک کے پاس بھی کوئی حکمت عملی نہیں۔ ان کی قیادت بار بار کے تجربات کے بعد اب نہ صرف اچھی طرح جانتی ہے بلکہ آنکھوں سے دیکھ چکی ہے کہ اس صورتحال کے بعد ان کے کارکنان اور پولیس والے جو کسی چیز، کسی پالیسی کے براہ راست ذمہ دار نہیں، اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ عوام اور ریاست کے اداروں کے درمیان ایسے تصادم سے نفرت پیدا ہوتی ہے مگر وہ بھی بغیر کسی حکمت عملی کے طاقت کا مظاہرہ کرنے پر تل جاتے ہیں اور نتائج بھی کوئی حاصل نہیں کر پاتے حالانکہ مذہبی جماعتوں کے پاس تو اس صورت حال کو سمجھنے کی غرض سے افغان طالبان کی ماضی کی حکومت کا تجربہ موجود ہے ۔ افغان طالبان کو اس وقت بھی پاکستان کی کسی بھی مذہبی جماعت سے زیادہ طاقت حاصل تھی اور اسی طاقت کے بل بوتے پر وہ افغانستان پر حکومت کر رہے تھے مگر چونکہ عالمی حالات اور مقامی سیاسی حرکیات کو سمجھنے کی بجائے صرف اپنے زور بازو پر انحصار کر رہے تھے، اس لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو موقع مل گیا کہ وہ افغانستان میں آدھمکے اور وہاں ہزاروں انسانی جانوں کا اتلاف ہوگیا ۔ افغان طالبان نے تو اپنی ماضی کی پالیسیوں پر نظر ثانی کر لی ہے مگر اس سارے تجربے کو دیکھنے کے بعد بغیر کسی حکمت عملی کے تصادم کی فضا پیدا کر دینا مقاصد کے حصول کے لئے تو فائدہ مند نہیں ہوتا بلکہ یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ کوئی پرویزمشرف جیسا شخص لال مسجد جیسے المیے کو وقوع پذیر کر کے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی کوشش کر سکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین