• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ قاصد کو قتل کرنے کا ایک کلاسک کیس تھا ۔ پیغام طبیعت پر گراں گزرے تو پیغام بر کی جان لے لیں۔ موجودہ کیس میں قاصد وہ ٹیلی ویژن سیٹ تھے جو بھارتیوں کے گھروں میں رکھے ہوئے تھے ۔ ان قاصدوں نے بھارتیوں کو یہ پیغام دینے کی جسارت کی تھی کہ پاکستان نے اُن کی کرکٹ ٹیم کا کام تمام کردیا ہے۔ یہ صرف ایک شکست نہیں ، مکمل تباہی تھی ۔ میرے نزدیک اس پیغام کا سب سے شرم ناک حصہ یہ تھا کہ پاکستان نے ایک بھی وکٹ گنوائے بغیر بھارت کا اسکور پورا کردیا۔ بھارت کویہ شکست آسانی سے اور اتنی جلدی ہضم نہیں ہوگی۔ یہ میچ کافی دیر تک ایک ڈرائونا خواب بن کر اُن کے حواس پرچھایا رہے گا۔خیرپاکستان کے لیے یہ بہت ہی جاں فزا لمحہ تھا۔ ہندوستان کے زیر اثر بین الاقوامی میڈیا پاکستان کے ہارنے کی توقع لگائے بیٹھا تھا۔ خیال تھا کہ کچھ ہی دیر کی بات ہے جب تاریخ خود کو دہرا لے گی۔لیکن یہ کیا! پاکستان نے بھارت کے چھکے چھڑا دیے۔ بھارتی میڈیا برسوں سے پاکستان مخالف جنون میں مبتلا رہا ہے۔ یہ جنون صر ف کرکٹ کے میدانوں تک ہی محدود نہیں ۔اس چیز نے پاکستان کی جیت کواور بھی کرارا بنادیا۔ جلد ہی ٹیلی ویژن پر بھارتی اینکر اپنی ٹیم پر برس پڑے۔ ہندو آبادی نے ٹیم میں شامل واحد مسلمان کھلاڑی، محمد شامی پر غداری کا الزام لگا دیا۔ ناراض بھارتی ناظرین نے اپنے ٹیلی ویژن سیٹوں کو توڑنا شروع کر دیا۔

اس کا غصہ بھارتی مسلمانوں پر اتر سکتا تھا اور اُس پر اُن کے جنونی وزیر اعظم کی پیشانی تک شکن آلودنہ ہوتی۔ بلکہ وہ اس کی تائید کرتے۔درحقیقت بھارتیوں نے اپنی اصلیت دکھادی ۔ واحد مثبت اشارہ مارکیٹ میں نئے ٹی وی سیٹوں کی فروخت ہوسکتی تھی ۔ خیریت گزری کہ دونوں ٹیموں نے میدان میں کھیل کی وضع داری قائم رکھی ۔اب جب کہ میں نے دل کی بھڑاس نکال لی ہے تو میں کہنا چاہوں گا کہ بیس سالہ شاہین شاہ آفریدی نے شروع سے ہی انڈیا کی کمرتوڑ دی تھی۔ اس کے بعد پاکستانی ٹیم نے کھیل کے ہر شعبے میں اپنا غلبہ برقرار رکھا۔ ممکن ہے کہ ہندوستان اور پاکستان ورلڈ کپ میں کسی میچ میں دوبارہ آمنے سامنے ہوں تو ہندوستان بدلہ چکانے کی کوشش کرے اور وہ ایک دیکھنے والا میچ ہوگا۔ ذاتی طور پر میں امید کرتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان کے ہاتھوں ایک اور شکست ناقابل بیان سانحات کا باعث بن سکتی ہے۔

اس فتح کا لطف بڑھاتے ہوئے دو دن بعد پاکستان نے نیوزی لینڈ کو بھی مات دے دی۔ کیویز حال ہی میں سیکورٹی وجوہات کا بہانہ بناتے ہوئے ٹاس سے صرف تین گھنٹے قبل پاکستان سے چلے گئے تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ خطرے کا کھڑا کیا گیا ہوا بالکل بے بنیاد اوربلاجواز تھا۔ نیوزی لینڈ کاخوف دراصل ہندوستان اور اس کے اسیر سوشل میڈیا کا پیدا کردہ تھا۔ یہ ہماری توہین تھی اور تب سے مجھے لگتا ہے کہ نیوزی لینڈ کرکٹ حکام بھی اپنے رویے پر کافی شرمندہ ہیں۔انگلینڈ، جسے نیوزی لینڈ کے فوراً بعد پاکستان آناتھا، نے بھی دورہ منسوخ کرکے پاکستان کی توہین کی۔ انگلینڈ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نے بعد میں شرمندگی کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔ ہم نے ہندوستان اور نیوزی لینڈ ، دونوں کے ساتھ حساب برابر کردیا ہے، اور امید ہے کہ کچھ دنوں بعد انگلش ٹیم کے ساتھ بھی ادھار نہیں رکھیں گے۔

کرکٹ کو اقوام کے درمیان خیر سگالی پیدا کرنی چاہیے لیکن بھارت کے رویے کی وجہ سے اس جذبے کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ رپورٹس کے مطابق بھارت پاکستان کو کرکٹ کے میدانوں سے باہر کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ آئی سی سی، جو بین الاقوامی کرکٹ اتھارٹی ہے، بھارت سے باز پرس کرے۔ پابندی نہیں، لیکن کسی قسم کی سزا تو ملنی چاہیے ۔چاہے پاکستان ہو یا بنگلہ دیش، چین یا نیپال ، جہاں بھی کوئی مسئلہ ہو تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اس کی جڑ انڈیا ہے۔ امریکہ نے حال ہی میں انڈیا کی مدد سے چین کو محدود کرنے کا بچگانہ اور ناقابل عمل فیصلہ کیا۔ خیر امریکا کا جو بھی اتحادی بنا، اس نے نقصان ہی اٹھایا۔ ہم یہ سبق سیکھ چکے ، اب انڈیا کی باری ہے ۔ جب بھی افغانستان اور پاکستان کا میچ ہوتا ہے ، افغان رویے پر معاندانہ جذبات غالب دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان نے بہت تکلیف اٹھائی ہے ۔ پاکستان نے ایک وقت میں برسوں تک چالیس لاکھ سے زائد افغانوں کی میزبانی کی ہے ۔ تیس لاکھ سے زائد افغان آج بھی پاکستان میں رہ رہے ہیں ۔ لیکن جب بھی کسی افغان سے انٹرویو کے دوران افغانستان کے مسائل کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتا ہے ۔ یہ کہتے ہوئے وہ بھول جاتا ہے کہ پاکستان نے افغانستان کے لیے ایک لاکھ سے زیادہ جانوں کی قربانی دی ہے ۔ بھاری معاشی نقصان اس کے علاوہ ہے ۔لیکن جیسا کہ حضرت علیؓ کا فرمان ہے: جس پر احسان کرو، اس کے شر سے بچو۔

وقت آگیا ہے، جب تمام کھیلوں کو سیاسی نفرت سے پاک کیاجائے ۔ ورلڈ کپ کھیلنے والی تمام ٹیمیں میدان میں ایک گھٹنے کے بل جھک کر ’’بلیک لائف میٹر‘‘ تحریک کے ساتھ اظہار یک جہتی کر رہی ہیں ۔ صرف ایک کھلاڑی، جنوبی افریقہ کے ڈی کوک نے ایسا کرنے سے انکار کیا۔ تاہم بعد میں اس نے معذرت کرلی ۔ اگر اس پر جنوبی افریقہ کرکٹ بورڈ پابندی لگادیتا تو یہ بھی افسوس ناک بات ہوتی کیوں کہ وہ بہرحال بہت باصلاحیت کھلاڑی ہے ۔ ان مسائل کا حل یہ ہے کہ سیاست اور کھیل کو الگ رکھا جائے۔ آخر میں ، میں وہ بات دہراتا ہوں جو بار ہا کہہ چکا ہوں: جب بھی انسانیت کی تاریخ لکھی جائے گی تو پتہ چلے گا کہ سیاست نے انسا ن کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔

تازہ ترین