• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترک صدر ایردوان اس وقت عالم اسلام کے واحد لیڈر ہیں جنہیں عالمی رہنمائوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے اور پھر اپنی بات منوانے کا فن آتا ہے ۔گزشتہ ماہ امریکہ، کینیڈا، فرانس، فن لینڈ، ڈنمارک، جرمنی، نیدرلینڈ، نیوزی لینڈ، ناروے اور سویڈن کے سفیروں نے ترک صدر ایردوان اور ترک عدلیہ کو نشانہ بناتے ہوئے ترک جیل میں قید سماجی کارکن عثمان کوالہ کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ عثمان کوالہ 2017 سے ترکی کی جیل میں قید ہیں اور ان پر ابھی تک فردِ جرم عائد نہیں کی گئی ۔ انھیں 2013میں حکومت مخالف’’ گیزی پارک‘‘ مظاہروں کا اہتمام کرنے اور پھر جولائی 2016میں حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا ۔ عثمان کوالہ جنہیں مغربی ممالک کی پشت پناہی حاصل ہے، اپنے خلاف لگائے جانے والے تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں جبکہ یورپی کورٹ آف ہیومین رائٹس نے 2019 میں اپنے ایک فیصلے میں عثمان کوالہ کی رہائی کا حکم دیا تھا جسے صدر ایردوان نے ترکی کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے تعبیر کرتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔ اس کے بعد ان دس ممالک کے سفیروں نے یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے حکم کی تکمیل کرنے سے متعلق وارننگ جاری کی تھی جس پر ترک صدر ایردوان نے ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سفیر ترک وزارتِ خارجہ کو حکم دینے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ سفیروں کے جاری کردہ بیان میں عثمان کوالہ کے مقدمے میں تاخیری حربے استعمال کرنے، فردِ جرم عائد نہ کرنے پر ترکی پر جمہوریت اور عدالتی نظام کے شفاف نہ ہونےکا الزام لگایا گیا تھا۔

ترک وزارتِ خارجہ نے ان تمام سفیروں کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے انہیں وزارتِ خارجہ طلب کیا تھا۔اس کے بعد صدر ایردوان نے کہا تھا کہ میں نے اپنے وزیرِ خارجہ کو ان دس سفیروں کو فوراً ’’پرسونا نان گراٹا‘‘ ( ناپسندیدہ شخصیت) قرار دینے کی کارروائی شروع کرنے کے احکامات صادر کردیے ہیں ۔ ترک صدر نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ’’انہیں ترکی کو جاننا، سمجھنا اور ترک قوانین کی پاسداری کرنا ہوگی ۔ اگر وہ ترکی کو جاننا اور سمجھنا نہیں چاہتے تو پھر وہ اس ملک سے جاسکتے ہیں۔‘‘ حکومتِ ترکی کی جانب سے ان دس سفیروں کو ملک بدر کرنے کے لیے نوٹی فیکیشن تیار کرلیا گیا تھا اور اور کابینہ کے اجلاس میں اس کی منظوری دیے جانے کے بعد ان دس سفیروں کو ملک بدر کیا جانا تھا، اس بارے میں ترک وزیر خارجہ میولود چاوش اولو نے ایک ٹی وی بیان میں کہا کہ حکومتِ ترکی نے ان دس سفیروں کو کابینہ کی منظوری کے بعد ملک بدر کرنے کی تیاری کرلی تھی لیکن انقرہ میں امریکہ کے سفیر کی جانب سے اسی روز ایک ٹویٹ جاری کرتے ہوئے سفارتی تعلقات سے متعلق ویانا کنونشن کے آرٹیکل 41 کی تعمیل کرنے سے آگاہ کیا گیا اور اسی ٹویٹ کو دیگر نو ممالک کے سفیروں نے بھی ری ٹویٹ کیا اور یوں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک صدر ایردوان کے سخت اقدام اٹھانے سے قبل ہی پس قدمی پر مجبور ہوگئے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے سفیروں کے ٹویٹ میں کہا گیا تھا کہ سفارت کار جن ممالک میں فرائض ادا کرتے ہیں ان ممالک کے قوانین اور ضوابط کی تعمیل کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ صدر ایردوان نے دس مغربی ممالک کے سفیروں کی جانب سے اپنے بیان کو واپس لینے کے بعد کہا کہ یہ سفیر اب سبق حاصل کرچکے ہیں اور وہ مستقبل میں مزید احتیاط سے کام لیں گے اور ترکی پر بہتان لگانے سے گریز کریں گے۔

یاد رہے کہ ویانا کنونشن کے آرٹیکل 41 کے تحت ایک سفارت کار جس ملک میں فرائض ادا کررہا ہوتا ہے، اس ملک کے قوانین اور ضوابط کا احترام کرنے کا پابند ہوتاہے۔ترک صدر رجب طیب ایردوان نے یورپی ممالک کے سفیروں کے اس بیان جس میں انھوں نے ویانا کنونشن کے آرٹیکل 41کی مکمل پاسداری کا اعادہ کیا ہے، کا خیرمقدم کیا ۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں ترکی اور امریکہ کے درمیان ترکی کی جانب سے روس سے S-400 میزائل سسٹم حاصل کرنے کی وجہ سےطویل عرصے سے کشیدگی چلی آرہی ہے ۔ اس سلسلے میں امریکی سینیٹرز اور ایوان ِ نمائندگان کے اراکین ترکی کو اس وقت تک طیارے نہ دینےکا کہہ چکے ہیں کہ جب تک ترکی روس سے خریدے ہوئے S-400 میزائلوں کا آرڈر منسوخ نہیں کردیتا۔

اب اٹلی کے دارالحکومت روم میں ہونے والے جی-20سربراہی اجلاس کے موقع پر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوششوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور دونوں ممالک اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دینے پر راضی ہوگئے ہیں ۔ صدر ایردوان اس سے قبل صدر بائیڈن کو واضح طور پر یہ پیغام دے چکے تھے کہ امریکہ ایف 35طیاروں کی خریداری کے لیے ادا کردہ رقم کو فوری طور پر واپس کرے یا پھر اس کی جگہ ایف -16طیارے فراہم کرے۔ امریکی صدر بائیڈن اور ترک صدر ایردوان کے درمیان ہونے والی ملاقات میں طیاروں کی خریداری کے بارے میں بات چیت کی گئی ہے اور صدر بائیڈن نے کہاہے کہ اس مسئلے کو جلد حل کرلیا جائے گا کیونکہ ترکی ان کا اتحادی ملک ہے اور اس نے نیٹو میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے صدر ایردوان کو یقین دلاتے ہوئے کہا کہ ایف -16طیاروں کی ترکی کو فروخت کے لیے امریکی سینٹ اور ایوانِ نمائندگان سے منظوری لیتے ہوئے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس موقع پر ترک صدر ایردوان نے امریکہ سے شام میں ترکی کے خلاف برسر پیکار دہشت گرد تنظیم وائی پی جی کی پشت پناہی کرنے سے گریز کرنے اور فوری طور پر ٹھوس اور عملی قدم اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ افغانستان کی صورتِ حال کے بارے میں بھی امریکی صدر کے ساتھ بات چیت ہوئی اور اس بارے میں روڈ میپ وضع کرنے پر مطابقت پائی گئی ہے۔

تازہ ترین