• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مفتی غلام مصطفیٰ رفیق

محدث العصر ،مجاہدختم نبوت ،عاشقِ رسول ؐ،حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں،اللہ تعالیٰ نے آپ کوبین الاقوامی شہرت اورعزت عطافرمائی تھی، علمی اورعملی اعتبار سے آپ کی شخصیت عرب وعجم میں مسلّم تھی۔ آپ سادات میں سے تھے اور نسبی تعلق حضرت سیدآدم بنوری رحمہ اللہ سے تھا جو امام ربانی، مجددالف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ کے سب سے بڑے خلیفہ تھے، سیدآدم بنوری کی طرف نسبت کی وجہ سے آپ بنوری کہلاتے تھے ۔

علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ نے دینی علوم کی تکمیل برصغیرکے عظیم دینی ادارے جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں اپنے وقت کے سب سے بڑے محدث علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ، شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانیؒ  اور دیگر نام ور اکابرکے زیرسایہ کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد کافی عرصہ حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں گزارا، اور ان کے علوم ومعارف کونہ صرف یہ کہ محفوظ کیا، بلکہ ان کے علوم کی اشاعت کو آپ نے اپنامشن بنالیا تھا، حضرت بنوری ؒ کی تمام تصانیف میں علوم انور شاہؒ جھلکتے دمکتے نظرآتے ہیں۔ 

علامہ انورشاہ کشمیری ؒ کی خدمت کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کواپنے شیخ کے رنگ میں رنگ دیاتھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کوتمام علوم وفنون میں بلند مقام اور امتیازی شان نصیب فرمائی تھی،جس کااندازہ آپ کی کتب سے لگایا جاسکتا ہے۔ حدیث رسولﷺ سے آپ کوخصوصی شغف اورمحبت تھی،کم وبیش نصف صدی اللہ تعالیٰ نے آپ کو حدیث رسول ﷺکی خدمت کی توفیق نصیب فرمائی، جو بلاشبہ بہت بڑا اعزاز ہے۔

فن حدیث میں آپ ابتداہی سے ممتاز تھے، آپ کے علمی رتبے کی بناء پر جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں علامہ انور شاہ کشمیری ؒاورشیخ الاسلام علامہ شبیراحمدعثمانی ؒکے بعد آپ کوہی شیخ الحدیث اورصدر مدرس کے منصب پرفائز کیا گیا۔ درس وتدریس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تصنیف کااعلیٰ ملکہ نصیب فرمایا تھا، آپ کی تمام تصانیف عربی زبان میں ہیں اور عربی ادب کا بہترین شاہ کار ہیں۔ ایک معروف عرب عالم نے آپ کی کتاب ’’نفحۃ العنبرفی حیاۃ امام العصرالشیخ محمد انور‘‘ پڑھ کریہ اعتراف کیا:’’میں نے آپ کی کتاب پڑھی اورآپ کے اندازِ بیان کے سامنے سرجھکالیا‘‘،اس سے عربی ادب میں آپ کے مقام کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ چونکہ حدیث شریف سے خاص لگاؤ تھا، اسی لیے عشق ومحبت میں ڈوب کرحدیث کی خدمت کی۔

علامہ بنوری ؒنے سالہاسال تک ترمذی شریف کادرس بھی دیااورپھراپنے شیخ کے افادات وملفوظات کی روشنی میں ’’معارف السنن‘‘کے نام سےچھ ضخیم جلدوں میں ساڑھے تین ہزارصفحات پرمشتمل کتاب الحج تک شرح لکھی،یہ آپ کی شاہکار تصنیف ہے، یہ کتاب حدیثی مباحث کی شرح اور مذاہب اربعہ کی فقہی روایات کا بہترین مجموعہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علامہ بنوریؒ نے معارف السنن کے ذریعے نہ صرف یہ کہ علامہ کشمیریؒ کے علوم ،نادرتحقیقات کو محفوظ کیا، بلکہ اپنے شیخ کے علوم کی سچی ترجمانی اورشرح وتفسیرکاحق اداکردیا۔

علم حدیث میں مہارت تامہ کے ساتھ آپ فقہ کی گہرائیوں کے بھی شناور تھے، اسی وجہ سے دارالعلوم دیوبندکے اکابرین نے متفقہ طورپر آپ کو دارالعلوم دیوبند میں صدرمفتی کے عہدۂ جلیلہ کے لیے طلب فرمایا، مگر آپ بعض وجوہ کی بناء پر اسے قبول نہ فرماسکے۔ آپ کی فقہی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت آپ کے وہ فقہی مقالات بھی ہیں جوآپ نےپاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں میں پیش کیے،جو بعد ازاں آپ کے ادارے سے چھپنے والے ماہنامہ’’ بینات‘‘میں بھی شائع ہوئے۔

عشقِ رسول ﷺان کے سینے میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا،یہی وجہ ہے کہ اللہ کریم نے ختم نبوت کی مقدس تحریک کابارِگراں ان کے کندھوں پر ڈال کر انہیں اس مرحلے میں سرخرو وبامراد فرما کر زندہ جاوید کر دیا، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے سربراہ مولانا محمد علی جالندھری ؒکے وصال کے بعد آپ اس تحریک کے قائدوسپہ سالار بنائے گئے، چند ماہ ہوئے تھے کہ 29مئی 1974ءسانحہ ربوہ پیش آیا، اور یہ سانحہ ایک عظیم انقلاب کاذریعہ بنا، اور جو کام پاکستان بننے کے ستائیس برس بعد بھی نہ ہوسکا تھا، وہ محض تین ماہ کے قلیل عرصے میں انجام پذیر ہوگیا۔ لاہور میں حضرت بنوری ؒ کی صدارت میں بیس جماعتوں کانمائندہ اجلاس ہوا، اورایک تحریک مجلس عمل کے نام سے وجود میں آئی اورآپ ہی بالاتفاق اس کے صدرمنتخب کئے گئے، آپ نے باوجودنقاہت وبیماری کے پورے ملک کے طوفانی دورے کئے۔

برسراقتدارطبقے کوختم نبوت کی اہمیت اورمسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کیا،ان شبانہ روز محنتوں کے نتیجے میں 7ستمبر1974ء کو قومی اسمبلی سے قادیانیوں کوآئینی طور پر بھی غیرمسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ علامہ بنوریؒ نے لکھا ہے:’’جب سے پاکستان بنا ہے مسلمانوں کو کبھی اتنی مسرت اور خوشی نہیں ہوئی جتنی کہ اس خبرسے ہوئی کہ اس سرزمین پاک میں آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت کو آئینی تحفظ دے کو پاکستان کے مسلمانوں نے تاریخ اسلام میں ایک زریں باب کااضافہ کیا‘‘۔ 

حضرت علامہ بنوری ؒ نے دینی امور،علمی مشاغل، تبلیغی مصروفیات اور مختلف کتب کی اشاعت کے سلسلے میں کئی اسلامی ممالک کے اسفار فرمائے، وہاں کے اکابر علماء سے تعارف ہوا،کتب کی اشاعت کے سلسلے میں مصرمیں قیام کےدوران وہاں کے اخبارات ورسائل میں آپ کے بلیغ مضامین اورنبی کریم ﷺ کی مدح میں عربی قصیدے بڑے اہتمام سے شائع ہوئے۔اسلامی ممالک میں آپ کی علمیت کاچرچا ہی نہیں، بلکہ دھاک بیٹھ گئی، اسی بناء پر عالمی کانفرنسوں میں آپ کو نہایت توقیر و احترام کے ساتھ مدعو کیا جانے لگا۔

آپ کو اللہ کی ذات پرکامل بھروسہ تھا، زہدوقناعت کے آپ بادشاہ تھے،اخلاص کوٹ کوٹ کربھرا ہوا تھا، اللہ تعالیٰ کی ذات کے سواکسی سے کوئی امید نہ رکھتے تھے، دین کی خدمت کو کبھی ذاتی مفاد کے لئے استعمال نہیں فرمایا، ارشاد فرماتے تھے:’’زمین وآسمان کے خزانے اللہ کے قبضے میں ہیں، اگر ہم اخلاص کے ساتھ دین کاکام کریں تواس کے خزانوں میں کیا کمی ہے؟‘‘۔آپ نے بے سروسامانی کے عالم میں ،مادی وسائل کی قلت ،تعمیری مشکلات کے باوجود محض فلاح آخرت اور رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر’’مدرسہ عربیہ اسلامیہ‘‘کے نام سے جس ادارے کی بنیادرکھی ،آج عالم اسلام کے ممتاز ترین دینی اداروں میں اس کاشمار ہے۔

آپ کے علمی مقام ومرتبہ کی بناءپر بڑی قدر و منزلت اور عزت وافتخارکے ساتھ آپ سے اسلامی نظریاتی کونسل میں شمولیت کی درخواست کی گئی، آپ نے ملک عزیز میں اسلامی نظام کے نفاذ کے جذبے کے تحت اس درخواست کو قبول کیا، کونسل کے اجلاس کے سلسلے میں اکتوبر1977ء کواسلام آباد تشریف لے گئے، دو دن شرکت کے بعد علیل ہوئے اور وہیں وقت موعود آپہنچا۔

17؍اکتوبر1977ء کوعلم وفضل کایہ روشن مینار، قائد تحریک ختم نبوت، بانی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن ،سچاعاشق رسولؐ اس دارفانی سے کوچ کرگیا۔آپ کی میت کراچی لائی گئی،حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی ؒکے خلیفہ ڈاکٹر مولانا عبدالحئی عارفی ؒ کی اقتداء میں نمازجنازہ اداکی گئی اورجامعہ علوم اسلامیہ کے مغربی حصے میں آپ کی تدفین عمل میں آئی، آج اسی گوشے میں آپ اپنے رفقاء مفتی احمد الرحمٰن، ڈاکٹر حبیب اللہ مختار ،مولانا عبدالرزاق اسکندر اور صاحب زادہ مولانا محمد بنوری شہید رحمہم اللہ کے ساتھ آرام فرمارہے ہیں ۔صبح شام قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں ان تک پہنچتی ہیں اورلیل و نہار مہمان انِ رسول ان کی قبور پر ایصال ثواب کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔

تازہ ترین