قومی اسمبلی کے حلقہ 75 ڈسکہ میں اس سال فروری میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں بہت بڑے پیمانے پر دھاندلی کی شکایات سامنے آئی تھیں جن کی بناء پرالیکشن کمیشن نے یہاں ازسرنو انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔حکمراں جماعت کے فاتح امیدوار نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا تھا لیکن یہ درخواست مسترد ہوگئی تھی اور دوبارہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) نے اس نشست کو ووٹوں کے بڑے فرق سے جیت لیا تھا۔ کمیشن نے گزشتہ روزضمنی الیکشن میں دھاندلی سے متعلق مفصل تحقیقاتی رپورٹ جاری کردی ہے جس میں بیس پریزائڈنگ افسروں کی کئی گھنٹوں تک پراسرار گمشدگی سے متعلق حقائق بھی بے نقاب کیے گئے ہیں‘ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت کی منشاء کے مطابق نتائج حاصل کرنے کیلئے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت منظم دھاندلی روا رکھی گئی اور انتخابی عملے کو آلہ کار بنایا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ڈسکہ ضمنی الیکشن میں ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز محمد اقبال نے الیکشن عمل میں ہیرا پھیری کیلئے اجلاسوں میں شرکت کی جبکہ اے سی ہاؤس میں ہونے والے اجلاسوں میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی اس وقت کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان بھی شریک رہیں۔ ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز نے پریزائیڈنگ افسران کو ووٹنگ کے عمل کو سست کرنے اور شہری علاقے میں ووٹنگ کی شرح 25 فیصد سے زیادہ نہ ہونے دینے کی ہدایت کی۔پریزائیڈنگ افسروں کو کہا گیا کہ وہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے کام میں مداخلت نہ کریں اور پولیس کی مدد سے ساڑھے چار بجے پولنگ اسٹیشن بند کر دیں۔ رپورٹ کے مطابق انتخابی عملے کے ارکان اور حکومتی محکمے انتخابی عمل میں اپنے فرائض منصبی درست طور پر ادا کرنے کے بجائے اپنے غیر قانونی آقاؤں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنے رہے۔ پولنگ کے بعد ووٹوں سے بھرے تھیلوں کے ساتھ کئی گھنٹوں تک لاپتہ رہنے والے پریذائیڈنگ افسران کے حوالے سے رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پریذائیڈنگ افسران کو نامعلوم مقام پر لے جایا گیا، رپورٹ کے مطابق ضمنی انتخاب میں ہونے والی یہ کارروائی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھی جس کے تحت 17 پریزائیڈنگ افسروں نے ڈیوٹی سے معذرت کی درخواست کی جبکہ ان سب درخواستوں کی لکھائی یکساں تھی یعنی یہ ساری درخواستیں سیالکوٹ میں بیٹھے کسی ایک شخص نے تیار کیں۔ متعلقہ ایس ایچ اوز نے الیکشن عمل میں ہونے والے جوڑ توڑ میں کردار ادا کیا، وہ اپنی حدود بھی تبدیل کرتے رہے، ایس ایچ اوز پولنگ اسٹیشن کے اندر پولنگ اسٹاف سے ملے جس کی انھیں اجازت نہیں تھی۔ایس ایچ اوز کی سرکاری گاڑیاں بعض لاپتہ پریزائیڈنگ افسروں کو غیر متعلقہ مقامات پر لے کر گئیں اور پولیس اہلکاروں نے غیر مجاز افراد کو پولنگ اسٹیشن آنے سے نہیں روکا بلکہ پی اوز کی ان غیر مجاز افراد سے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملاقاتیں کرائیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے محافظ کے بجائے اغوا کاروں کا کردار ادا کیا اور پریذائیڈنگ افسروںکو غیر متعلقہ افراد کے حوالے کیا۔ الیکشن کمیشن کی یہ رپورٹ ہمارے پورے انتخابی نظام پر سوالیہ نشان ہے لیکن اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ قومی تاریخ میں شاید پہلی بار الیکشن کمیشن نے ہر قسم کے دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے حکمرانوں کی مرضی کے برخلاف ان کی دھاندلی کو پوری جرأت سے بے نقاب کیا ہے اور عدلیہ نے بھی الیکشن کمیشن کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ناکام بناکر دھاندلی کے ذمہ داروں کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ تاہم اب مجرموں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی بھی لازمی ہے اور دھاندلی سے پاک انتخابات کا مستقل بندوبست بھی کہ اس کے بغیر ہمارا خود کو جمہوری ملک قرار دینا اپنا مذاق آپ اڑانے کے مترادف ہے۔