• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان کے سعودی عرب کے دورے میں سعودی حکومت نے اسٹیٹ بینک میں 3ارب ڈالر جمع کرانے اور 1.2ارب ڈالرکے ادھار تیل کی فراہمی کا اعلان کرنے سے پاکستانی روپے کی قدر جو مسلسل گررہی تھی، ڈالر کے مقابلے میں 175سے 170روپے پر بحال ہوئی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ جو بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے باعث تعطل کا شکار تھا، جلد طے پانے کی راہ ہموار ہوئی جس سے ملکی معیشت کو استحکام ملے گا۔ سعودی عرب کی پاکستان کو مشکل وقت پر حالیہ امداد پہلی بار نہیں۔ تیل کی موخر ادائیگی کی سہولت 1998ء میں شروع ہوئی جب پاکستان کو جوہری تجربات کے بعد بین الاقوامی پابندیوں کا سامناتھا۔ 2014ء میں سعودی عرب نے ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنے کیلئے اسٹیٹ بینک میں 1.5رب ڈالر جمع کرائے، 2018ء میں پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے بعد سعودی عرب نے 3ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں جمع کرائے تھے اور 3سال کیلئے 3.2ارب ڈالر سالانہ تیل کی موخر ادائیگی کی سہولت بھی دی تھی لیکن مسئلہ کشمیر پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کےایک متنازع انٹرویو کے بعد سعودی عرب پاکستان کے تعلقات میں تنائو دیکھنے میں آیا اور صرف 9ماہ بعد 2020ء میں پاکستان سے ادھار تیل کی سہولت اور اسٹیٹ بینک میں جمع کرائے 3ارب ڈالر میں سے ایک ارب ڈالر واپس لے لئے گئے جس کی ادائیگی کیلئے پاکستان کو چین سے ایک ارب ڈالر کا قرضہ لینا پڑا تھا۔ اسی دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی عرب کا دورہ کیا جہاں ان کی ملاقات سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی ہوئی جس میں یہ تمام باتیں زیر بحث آئیں۔ جنرل باجوہ کے دورہ سعودی عرب میں میرے دوست اور پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی نے اہم کردار ادا کیا جو سفیر بننے سے پہلے پاکستان میں سعودی عرب کے ملٹری اتاشی رہ چکے ہیں، اس لحاظ سے اُن کے پاکستانی افواج سے پرانے تعلقات ہیں اور بعد میں سعودی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان سے پاک سعودی تعلقات میں مزید بہتری آئی۔ پاک سعودی تعلقات پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے کے ہیں جب 1946ء میں قائداعظم نے ایم ایچ اصفہانی کی قیادت میں مسلم لیگ کا ایک وفد اقوام متحدہ بھیجا تھا تاکہ تحریک پاکستان کیلئے عالمی رہنمائوں کی تائید حاصل کی جاسکے لیکن چونکہ پاکستانی مملکت وجود میں نہیں آئی تھی لہٰذا وفد کو اجلاس میں شرکت سے روک دیا گیا۔اس وقت سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز جو بعد میں سعودی فرماں روا بنے، نے پاکستانی وفد کی اپنے ہوٹل میں عالمی رہنمائوں کے ساتھ ایک ظہرانے پر ملاقات کروائی۔ پاکستان وجود میں آیا تو سعودی فرماں روا شاہ عبدالعزیز آل سعود وہ پہلے رہنما تھے جنہوں نے قائداعظم کو مبارکباد پیش کی۔ سعودی عرب کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے ہمیشہ سرکاری سطح پر مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی کھل کر تائید کی ہے۔1967ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کے معاہدے کے تحت سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی تربیت کا کام پاکستان کو سونپا گیا۔ سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ مل کر 39ممالک پر مشتمل فوجی اتحاد بنانے کا اعلان کیا جس کی سربراہی پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو سونپی گئی جو پاکستان کیلئے اعزاز کی بات ہے۔ حرمین الشریفین مکہ اور مدینہ کی وجہ سے پاکستانی عوام سعودی عرب کے ساتھ ذہنی، قلبی اور روحانی طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب میں تقریباً 16 لاکھ پاکستانی مقیم ہیں جو ہر سال 8ارب ڈالر ترسیلات زر پاکستان بھیجتے ہیں جو ملک کی مجموعی ترسیلات زر کا 25سے 30یصد ہے۔ سعودی عرب کی معیشت کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سعودی عرب کو تیل اور دیگر قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے جن کی مالیت کا اندازہ 34.4کھرب ڈالر لگایا گیا ہے۔ سعودی عرب، امریکہ اور روس کے بعد دنیا کا تیسرا بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک ہے جس کی 2020ء میں یومیہ تیل کی پیداوار 9.3ملین بیرل ہے جبکہ امریکہ کی 11.3 اور روس کی 9.9ملین بیرل یومیہ ہے۔ 34ملین نفوس پر مشتمل سعودی عرب کی 2021ء میں جی ڈی پی 804ارب ڈالر جبکہ فی کس آمدنی 22700ڈالر ہے۔ سعودی معیشت کا دارومدار 53فیصد سروس سیکٹر، 44فیصد صنعت اور 3فیصد زراعت پر ہے۔ اہم صنعتوں میں خام تیل کی پیداوار، پیٹرولیم ریفائنریز، پیٹروکیمیکلز،سیمنٹ، فرٹیلائزر، کنسٹر کشن ، پلاسٹک، کاسٹک سوڈا اور امونیم شامل ہیں۔ سعودی عرب کے اہم تجارتی پارٹنر چین، یو اے ای، امریکہ اور بھارت ہیں۔ 2020ء میں پاکستان اور سعودی عرب کی باہمی تجارت 1.2ارب ڈالر ہے جس میں پاکستان سے سعودی عرب ایکسپورٹ527ملین ڈالر اور امپورٹ 704ملین ڈالر ہے۔ پاکستان سے ایکسپورٹ کی جانے والی اشیا میں سیریل، ٹیکسٹائل مصنوعات، فروٹ، چائے، کافی اور گوشت شامل ہیں جبکہ سعودی عرب سے امپورٹ کی جانے والی اشیا میں خام تیل، پلاسٹک، کیمیکلز اور المونیم شامل ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری میں بے انتہا پوٹینشل پایا جاتا ہے جس کے فروغ کیلئے ہمیں باہمی اعتماد کو مزید مضبوط بنانا ہوگا۔

تازہ ترین