20ویں صدی کے اوائل میں بعض مغربی دانشوروں نے سرمایہ داری اور فاشزم کوایک دوسرے کے مماثل کہا جس کی بڑی علامتیں ہٹلر اور مسولینی کی شکل میں ابھریں اور معدوم ہوگئیں۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ فاشزم نے دستانے اتار رکھے ہیں اس لئے ہر کوئی بآسانی اپنا لہو تلاش کرسکتا تھا لیکن سرمایہ داری نے جودستانے پہنے ہوئے ہیں اس کے لہو کی تلاش کے لئے سماجی اور معاشی سائنس کو سمجھنے کے لئے علمی اور معروضی شعور حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ آج جمہوریت کے آئینی پردے میں ہر ملک کا ذوق اور ذائقہ تبدیل کیاجاتا ہے ۔ نو سے انیس سال کے بچوں کو ہدف بنا کر پبلسٹی کی جارہی ہے تاکہ آئندہ نسلیں خوراک بھی ان کی مرضی کی کھائیں ، لباس بھی ان کا اور موسیقی بھی ان کی اپنائیں تاکہ کل کھیت بھی ان کے ہوں اور ثقافت بھی ان کی ” پاپ کلچر “ میں ڈھل جائے اسی لئے ایک انٹرویو میں نوم چومسکی نے کہا ہے ” امریکہ اپنے کلچر اور اپنی اقدار کی گلوبلائزیشن کررہا ہے“ دنیا میں کمرشل ازم کے دور سے نکل کر اب عالمگیر ، پاپ کلچر اور منڈی کی معیشت کی بے رحم قوتوں کے حصار میں داخل ہورہی ہے ۔ یہاں ایک سوال کاجواب تلاش کرنا ہوگا مثلاً وہ کونسی وجوہات ہیں کہ جن سے مجبور ہوکر کلاسیکی گانے والا نوجوان پاپ موسیقی کی طرف راغب ہورہا ہے امریکی مارکیٹنگ کے انداز اس سوال کاجواب ہے۔ مارکٹنگ اس انداز سے کی جارہی ہے تاکہ نوجوان صارف عالمگیریت کی چکا چوند ، تھری ڈی ، سی ڈیز ، سائیبر کیفے اور ڈسکو کے شبستانوں میں گم اور ماوٴف ہوکر بے ہنگم موسیقی کی طرف مائل ہو اور ہورہا ہے ۔ ” جنک فوڈ “ کھائے اور پھٹی ہوئی میلی جینز پہنے ۔ مشروب در مشروب پیئے اور معدے کو خراب کرے ۔ عالمی تجارتی تنظیم کے ضابطوں کی وجہ سے حکومتوں کی زبانوں پر قفل لگے ہیں لیکن پاکستانی صارف کواتنی سمجھ ہونی چاہئے کہ کیا کھانا اور کون سا لباس زیب تن کرنا ہے۔ عصر حاضر میں عالمگیریت اور آزاد تجارت کو امریکی کلچر بڑی تیزی سے متحرک کررہا ہے ذہنوں کو ماؤف کرنے کے لئے لایعنی فلمیں دکھائی جارہی ہیں تاکہ نئی نسل کچھ عرصے بعد ” برین واش “ ہوکر ربوٹ بن جائے جس کے باوصف تیسری دنیا کے ممالک کے وسائل کے علاوہ ذہنی طور پر سیاست کو انقلاب دشمن بنایا جائے ۔ ”ٹین ایج “ نوجوان چاہے وہ پسماندہ ممالک سے تعلق رکھتے ہوں یانئے صنعتی ممالک(Nics)ہوں عالمی تجارت میں ان کا کردار کلیدی ہے اس لئے مارکیٹنگ کے تمام انداز نوجوان صارف کو متوجہ کرتے ہیں تاکہ مجموعی اور جبری طلب میں اضافہ ہو اسDRIVED طلب کے ذریعے عالمگیر تجارت میں فوری تبدیلیاں لائی جارہی ہیں ۔ اس لئے کہ مذکورہ طلب ہی کنزیومر ازم کی نئی شکل کے کاروبار کو زیادہ منافع بخش بناسکتی ہے ۔ مغرب میں معاشی ترقی کیلئے اس خیال کو بڑھایا گیا ہے کہ صارف جس قدر خرچ کرے گا معاشی سرگرمیاں اتنی ہی تیز ہوں گی ۔ اسی چکر میں معاشی انہدام بھی ہوگیا لیکن اسے بیل آوٴٹ کیا جارہا ہے ۔ مغرب کے معاشی منیجر کا کہنا ہے کہ طلب کے صرف یہ معنی نہیں کہ کسی شے کی خواہش کی جائے بلکہ طلب کو موثر بنانے کیلئے صارف کی خواہش کو خریدنے میں تبدیل کیاجائے اس نئی تجارت میں جبری طلب کا پیدا کرنا مارکیٹ اکانومی میں اشتہار بازی کا مرہون منت ہے۔چنانچہ بعض ترقی یافتہ اور زیادہ تر ، ترقی پذیر ملکوں میں کنسرٹس ، تھری ڈی اور موبائلز اور اسی سے جڑے ہوئے دیگر الیکڑانک کھلونوں سے جبری طلب پیدا کرکے کنزیومر ازم کونئی صورت دے کر غیر پیداواری اخراجات کو مہمیز دی جارہی ہے اسی لئے کرنسی کی بالادستی انسان پر بڑھ گئی ہے ۔ جس کے نتیجے میں نئی نسل کی بڑی اکثریت نئے مشروبات فرنچائز برگر جیسے طعام کی طرف راغب ہورہی ہے لہٰذا مغرب دنیا بھر کے نوجوانوں کے انتخاب اور ترجیحات میں تبدیلی لانے میں ابہام اور فکری مغالطوں کو پبلسٹی کی بنیاد بنارہا ہے ۔ برانڈ کا ذہنی غلام بنارہا ہے جو تیسری دنیا کے غلاموں ہی سے سستے داموں بنایا جارہا ہے ۔ دوسری جانب لوگ قبائلی نظام سے نہیں نکلے اس لئے دہشت گردی بھی اسلحہ فروخت کرنے والے اجاہ داروں کے لئے نہایت فائدہ مند کاروبار ہے ۔ یہ بھی دیکھئے کہ جب جبری طلب کو متعارف کرایا گیا تو اسے موثر بنانے کے واسطے مغرب نے پارٹ ٹائم روزگار کا بندوبست کیاتھا تاکہ نوجوانوں کی قوت خرید بڑھے اور عالمی ساہوکاروں کا منافع بڑھے اسی کی بنا پر آج مغرب بحران زدہ ہوگیا ہے کیونکہ سرمایہ داری کی بنا پر انسانی فلاح نہیں صرف منافع اور سود کا حصول چاہے جنگوں سے حاصل ہو ، ہیروئین اور گٹکا فروخت اور اسمگل کرکے ہو۔
چنانچہ نوجوانوں کو ذہنی غلام بنانے کیلئے ”لوگو“ اور برانڈ سے متاثر کیا جا رہا ہے۔ کینیڈا کی معروف صحافی خاتون ناؤمی کلائن نے اس تناظر میں ”نو لوگو“ کتاب تحریر کی ہے جو مذکورہ استحصال کو بے نقاب کرتی ہے۔ ظاہری ثقافت کے مظاہر دیکھنے ہوں ،دنیا کے بڑے شہروں مثلاً ایل اے، ٹوکیو اور ریو کو دیکھیں جہاں نوجوان صارف میں یکسانیت نظر آئے گی۔ ذوق اور ذائقہ ایک جیسا ہے اور یہ رجحان دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس بارے میں ”اکنامکس ٹو ڈے“ اپنے ادارے میں لکھتا ہے کہ ”ایک نیا پاپ پروڈکٹ جب امریکہ میں متعارف کرایا جاتا ہے اس کے فوراً بعد 137ممالک اس کا فالو اپ کرتے ہیں۔ جن میں ترقی پذیر ممالک کی تعداد زیادہ ہے“۔ ایک اندازے کے مطابق آج سے کچھ عرصہ قبل جب عالمی مالیاتی انہدام نہیں ہوا تھا نوجوانوں کے ایسے گروپ نے60ارب ڈالر کی خریداری کی جن میں سینما کے ٹکٹ ،وڈیوز اور تین گنا زیادہ جینز خریدنے پر خرچ کرنا بھی شامل ہے۔
یہ بھی آپ کے مشاہدے میں آیا ہو گا کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں بعض ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز میں برانڈڈ اشیاء و مصنوعات سستے ترین داموں میں بناتی ہیں۔ ان زونز میں کوئی لیبر لاء لاگو نہیں ہوتا اور نہ ہی محاصل کا اطلاق ہوتا ہے لیکن یہ سستی بنی مصنوعات امریکہ ،برازیل ، میکسیکو، یورپ اور ایشیاء میں بھی یکساں اور مہنگی قیمت پر فروخت ہوتی ہیں کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ نو سے انیس سال کے نوجوان صارف لاطینی امریکہ میں59ملین ہیں تاہم ان کی تعداد امریکہ میں کم ہے جو لگ بھگ36ملین ہے۔ ایشیاء کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں ان صارفین کی تعداد42ملین ہے۔ یہ ثقافتی یلغار موسیقی اور خوراک کے ذریعے روندتی ہوئی نوجوانوں کی سوچ پر محیط ہو رہی ہے کیونکہ ترقی پذیر ملکوں کے سیاسی لیڈر شپ نے ابھی تک نوجوانوں کیلئے کچھ نہیں کیا۔ تو پھر ان کو اعلیٰٰ موسیقی ،شاعری ،فلم و ادب اور خوراک کی کیا سمجھ ہو گی ۔ہندوستان اور مغرب جسم کی نمائش پر ٹکٹ لگا کر جنسی انارکی کو بڑھا رہا ہے۔ ہندوستان کے اداکار نصیر الدین شاہ نے ہندوستانی فلموں کو کوڑا کرکٹ کہا ہے۔ سستیا جیت ،شیام بینیگل ،نتن یوس، احمد دیو کی بوس جیسے فلم ساز ختم ہو گئے ہیں۔ ہالی ووڈ میں اب اچھے اسکرپٹ کا کوئی کام نہیں ہورہا۔ بالی ووڈ کے اداکار مائیکل ڈگلس ، الیچینو ،کیون سپیسی بھی ٹی وی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں بچوں اور عورتوں کو بڑی بے رحمی سے استعمال کیا جا رہاہے اس لئے ضروری ہو گیا ہے کہ دنیا کے دانشور ایک نئے تعلیمی نصاب کو متعارف کرائیں۔سماجی دانشوران پیچیدگیوں کے خلاف تحریک چلائیں۔ ہمارے سماج کا مسئلہ تعلیمی، صحت ،صاف پانی ، سر پر چھت ،آب نکاسی اور روزگار ہے اس لئے کنزیومر ازم میں امریکہ کی نقل کرنا ناجائز ہے۔ امریکہ کا آج سے کچھ عرصہ پہلے یہ مسئلہ تھا کہ ان کے بلیاں اور کتے موٹے ہو رہے ہیں جن کے علاج معالجغ اے لئے وہ 17ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں اور اسحاق ڈاردو ارب ڈالر مزید لینے کے لئے جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں اس لئے کہ ہماری سمت درست نہیں ہے اور ان قرضوں کے حصول کو موجودہ حکومت بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے۔ اس لئے کنزیومر ازم اور پاپ کلچر پاکستان کے لئے زہر ہے۔