• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے امیر ترین اور طاقت وَر ممالک کی تنظیم’’ جی۔20 ‘‘ کی حالیہ کانفرنس کا ایجنڈا اِس بات کی عکّاسی کر رہا تھا کہ کورونا کی وبا اب دنیا سے جا رہی ہے، کم ازکم اِن ممالک میں تو اس کا اختتامی سفر شروع ہو ہی چُکا ہے۔اٹلی کے شہر، روم میں ہونے والی اِس کانفرنس کے ایجنڈے میں کلائیمٹ چینج، یعنی موسمیاتی تبدیلیوں اور کووِڈ۔19 کے علاوہ کارپوریٹ ٹیکس کے معاملات بھی شامل تھے۔ چین کے علاوہ باقی رُکن ممالک کے رہنما کانفرنس میں شرکت کے لیے روم آئے تھے، جب کہ چین کی شرکت ورچوئل رہی۔ روس کو یوکرین تنازعے کے بعد اِس گروپ سے نکال دیا گیا تھا، اِس طرح فی الحال یہ عملاً 19 ممالک پر مشتمل ہے۔ 

کانفرنس کا ایجنڈا ہمارے خطّے کے کچھ ممالک کے لیے مایوس کُن تھا کہ اِس تین روزہ کانفرنس میں افغانستان کا ذکر تک نہیں ہوا، حالاں کہ پاکستان اور طالبان حکومت بار بار اپیل کر رہے تھے کہ افغانستان کی معاشی صُورتِ حال فوری توجّہ کی متقاضی ہے۔ وہاں خوارک، تن خواہوں اور ادویہ جیسے معاملات بہت پیچیدہ صُورت اختیار کرچُکے ہیں اور حالات کسی بھی وقت بدترین انسانی المیے میں تبدیل ہو سکتے ہیں،لیکن ظاہر ہے، جی- 20 ممالک کی اپنی ترجیحات ہیں، جن میں افغانستان کی کیا حیثیت ہے، اُس کا کانفرنس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اِس کانفرنس کے فوراً بعد برطانیہ کے شہر، گلاسگو میں’’ سی او پی۔26 ‘‘ (کوپ- 26)ہوئی، جو موسمیاتی تبدیلیوں پر ہونے والی پیرس کی پہلی عالمی کانفرنس کی طرح کی ایک عالمی میٹنگ تھی۔اِس کا مقصد اُن اقدامات کا جائزہ لینا تھا، جن پر پیرس کانفرنس میں اتفاق کیا گیا تھا۔اس اجلاس کے مقصد کو برطانوی وزیرِ اعظم، بورس جانسن کے الفاظ میں یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ’’نصف شب میں صرف ایک لمحہ رہ گیا ہے۔کچھ کرنا ہے، تو کرلیں۔‘‘دوسرے الفاظ میں عالمی رہنما اور ماہرین اِس امر پر متفّق تھے کہ موسم جس تیزی سے بدل کر ستم ڈھا رہے ہیں، اُس کی زمین متحمّل ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس پر رہنے والے۔لہٰذا، اس سے نمٹنے کے لیے سب کو فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔

جی۔20 کانفرنس میں تین اہم فیصلے کیے گئے۔ کورونا کے حوالے سے جو سب سے اہم فیصلہ سامنے آیا، وہ غریب ممالک کو مفت ویکسین فراہم کرنے کا وعدہ تھا۔ رُکن ممالک نے اِس عزم کا اظہار کیا کہ رواں سال غریب ممالک کے چالیس فی صد عوام کو ویکسین لگا دی جائے گی، جب کہ اگلے سال یہ شرح 70 فی صد ہوگی۔ یہ بھی طے ہوا کہ عالمی ادارۂ صحت ویکسین لگانے کے پروگرام کی نگرانی کرے گا اور وہی اِس امر کو یقینی بنائے گا کہ دنیا جلد سے جلد اِس وبا سے مکمل طور پر نجات پا جائے۔

یوں وہ ممالک، جو مالی وجوہ کی بنیاد پر اپنے عوام کو ویکسین لگانے میں پیچھے رہ گئے ہیں،اِس فیصلے سے اب سُکھ کا سانس لیں گے۔جی-20 کا یہ فیصلہ کوئی معمولی بات نہیں، کیوں کہ کورونا وبا سے نجات پائے بغیر دنیا کے معمولات بحال ہونا ممکن نہیں ہے۔ اگر ترقّی یافتہ اور ترقّی پذیر ممالک میں یہ وبا ختم بھی ہوجاتی ہے، تب بھی یہ وائرس نقل وحمل کے مختلف ذرائع سے غریب ممالک سے اُن تک پہنچ سکتا ہے، اِس لیے دنیا اُس وقت تک اِس کے نشانے پر رہے گی، جب تک اس کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوجاتا۔یاد رہے، کورونا وائرس کو چین کے شہر، ووہان سے یورپ اور امریکا تک پہنچنے میں شاید ایک ہفتہ بھی نہیں لگا تھا۔ویسے، اب دنیا میں کورونا کی صُورتِ حال قابو میں ہے۔امریکا میں، جہاں اس نے کاری ضرب لگائی، دوتہائی سے زاید افراد ویکسینز لگوا چُکے ہیں۔

برطانیہ میں یہ شرح تقریباً 75 فی صد اور یورپ میں 60 صد ہے، جب کہ چین، روس اور ترقّی پذیر ممالک میں بھی ویکسینز لگوانے کی رفتار تسلّی بخش ہے۔عالمی ادارۂ صحت کے مطابق، بھارت میں ایک ارب افراد کو ایک ڈوز لگ چُکی ہے۔امریکا میں پانچ سے بارہ برس کے بچّوں کو بھی ویکسین لگانے کی اجازت مل گئی ہے اور فائزر کو آزمائش کے بعد اِس مقصد کے لیے قابلِ استعمال قرار دیا گیا ہے۔

تاہم، کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ بچّوں کو ویکسین لگانے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ اُن میں قوّتِ مدافعت بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ اثر انداز نہیں ہوتی، لیکن دوسری رائے یہ ہے کہ بچّے کیرئیرز، یعنی ایک سے دوسرے تک وائرس پہنچانے کا ذریعہ بنتے ہیں، اِس لیے اُنہیں بھی ویکسین لگانا ضروری ہے۔ اب بات وہی ہے کہ جس کے پاس ویکسین بنانے کی صلاحیت ہے اور لگانے کی اہلیت بھی، وہ تو کوئی بھی قدم اُٹھا سکتا ہے، حفاظت کا مسئلہ تو غریب ممالک کا ہے، جن کے پاس وسائل کی کمی ہے اور بہت سے تو اِس معاملے میں سنجیدہ ہی نہیں ہیں۔ پولیو، ملیریا اور ٹی بی جیسے امراض کی موجودگی ان ممالک کی سنجیدگی کا واضح ثبوت ہے۔

چوں کہ عالمی معیشت میں مزید تیزی کے لیے بھی اقدامات ضروری تھے اور معیشت کو جو نقصان پہنچا ہے، وہ بھی پورا کرنا تھا، گھر بیٹھے لوگوں کو جو مالی ریلیف دیا گیا، اُس کی رقم بھی پوری کرنی تھی، تو اِس ضمن میں جی-20 نے کارپوریٹ سیکٹر پر ٹیکس کے معاملات پر پیش رفت کی۔ دنیا کی یہ بڑی معیشتیں اِس معاہدے پر رضامند ہوگئیں کہ بڑی یا عالمی سطح کی کمپنیز پر کم ازکم ٹیکس پندرہ فی صد ہوگا۔یہ معاہدہ اس پس منظر میں ہوا کہ بڑی کمپنیز پر مختلف طریقوں سے اپنا منافع چُھپانے کا الزام ہے، جس سے مُلکوں کو مالی نقصان ہوتا ہے، جب کہ یہ ادارے مضبوط ہی نہیں، طاقت وَر بن کر ان ممالک کو ہدایات بھی دینے لگتے ہیں۔بہت سے ممالک کو ان کمپنیز کی جانب سے دبائو کا سامنا رہتا ہے۔

یہ ٹیکس ڈیل امریکا کی طرف سے پیش کی گئی۔صدر بائیڈن نے اس موقعے پر کہا کہ جی۔20 ممالک دنیا کی معیشت کی80 فی صد کی نمایندگی کرتے ہیں۔یہ ٹیکس معاہدہ، ایک گلوبل معاہدہ ہے، جو کم ازکم ٹیکس کا تعیّن کرتا ہے۔اس طرح دنیا کی اقتصادی شکل کو ایک نئی ہیئت دینے کی کاوش کی گئی ہے، جس پر تمام ممالک متفّق ہیں۔دراصل، یہ فیصلہ عالمی اقتصادی بحران اور کورونا وبا کے بعد ضروری بھی تھا کہ عالمی اقتصادی پالیسیز پر ازسرِنو غور کیے بغیر چارہ نہیں۔

جی۔20 کانفرنس کے ایجنڈے کا ایک اہم نکتہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور پیرس معاہدے پر عمل درآمد کا جائزہ لینا بھی تھا، لیکن اِس کانفرنس میں اِس حوالے سے کوئی ٹھوس تجاویز سامنے نہ آسکیں۔ بس یہ یقین دہانی کروائی گئی کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کم سے کم کیے جائیں گے۔غالباً اِس کی وجہ یہ تھی کہ اِس کانفرنس کے فورا بعد گلاسگو میں’’ سی او پی-26 ‘‘ کا انعقاد تھا۔موسمیاتی تبدیلیوں کا معاملہ کیا ہے؟تفصیل میں جائے بغیر بتاتے چلیں کہ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں بدترین ماحولیاتی تبدیلیوں سے محفوظ رہنا ہے، تو دنیا کے درجۂ حرارت میں اضافے کو ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنا ہوگا۔

اسے یوں بھی کہا جاتا ہے کہ گرین ہاؤس گیسز کا اخراج ختم کرنا ہے، کیوں کہ یہی زمین کی حدّت کا سبب ہیں۔عالمی ادارہ موسمیات کا کہنا ہے کہ صُورتِ حال اِتنی خراب ہوچُکی ہے کہ سخت ترین موسم(یعنی شدید گرمی اور شدید سردی) معمول بن چُکا ہے اور اس کی وجہ سے ہر کچھ مہینوں بعد تباہ کُن سیلاب مختلف علاقوں میں تباہی پھیلا رہے ہیں۔رواں صدی کے بیس سالوں میں درجۂ حرارت میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا۔ 

ظاہر ہے، گرین ہاؤس گیسز کا اخراج ممکنہ حد تک محدود کرنا ضروری ہے اور اگر یہ ہدف حاصل نہیں کیا گیا، تو دنیا کی حدّت ناقابلِ برداشت ہوجائے گی،گلیشیئرز پگھلیں گے، سمندری طوفان دنیا کو ڈبوئیں گے، لوگ بے گھر ہوں گے، بیماریاں بڑھیں گی، جب کہ جانوروں اور نباتات کے لیے بھی اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا۔عالمی رہنما چھے سال قبل پیرس میں اِس صورتِ حال پر غور کے لیے اکٹھے ہوئے اور کئی فیصلے کیے، اب گلاسگو کانفرنس میں ان فیصلوں پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ 

یاد رہے، دنیا کی بیش تر آلودگی کے ذمّے دار ترقّی یافتہ اور بڑی آبادی والے ممالک ہیں، جو زیادہ تر فیول فوسل استعمال کرتے ہیں، اِسی لیے بار بار متبادل انرجی پر شفٹ ہونے پر زور دیا جا رہا ہے۔دنیا میں سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسز کا اخراج چین کرتا ہے، اُس کے بعد امریکا، بھارت اور یورپ کا نمبر ہے۔غریب ممالک انرجی کم استعمال کرتے ہیں اور اسی حساب سے وہاں گرین ہاؤس گیسز کا بھی کم استعمال ہوتا ہے، لیکن اُن کے پاس ایسے وسائل نہیں کہ وہ ان گیسز کا متبادل تلاش کر سکیں، اِس لیے امیر ممالک کو ان کی حفاظت کا ذمّہ بھی لینا پڑے گا۔ 

سعودی عرب میں ژالہ باری، متحدہ عرب امارات کے صحرا میں بارش، پاکستان میں شدید گرمی اور زیادہ بارش اور سال میں دو، تین بار سمندری طوفان کا خطرہ موسمیاتی تبدیلی کی کچھ مثالیں ہیں۔ گلاسگو کانفرنس میں طے کیا گیا کہ جنگلات کاٹنے کا عمل بہت محدود کیا جائے تاکہ فضائی آلودگی کم کی جاسکے اور 2030ء تک جنگلات کی کٹائی مکمل طور پر روک دی جائے۔دوم، متبادل انرجی کا استعمال بڑھایا جائے گا، جس کے لیے بارہ ارب ڈالرز فراہم کیے جائیں گے۔چین، امریکا اور بھارت نے وعدہ کیا کہ وہ گیسز کا اخراج بتدریج کم کریں گے۔

جی۔20 کانفرنس کی سائیڈ لائن پر کچھ اہم ملاقاتیں بھی ہوئیں، جن میں سب سے اہم امریکی صدر جوبائیڈن اور فرانس کے صدر کی تھی۔کوئی ایک ماہ پہلے’’ آکوس‘‘ نامی ایک چار رُکنی معاہدہ ہوا تھا، جس میں آسٹریلیا کو12 ایٹمی آب دوزیں دینے کا فیصلہ کیا گیا، جس کا مقصد انڈو پیسیفک میں مغربی مفادات کا تحفّظ اور چین کی فوجی نگرانی کرنا ہے۔فرانس نے اِس پر شدید ردّ ِعمل ظاہر کیا، کیوں کہ اس فیصلے سے اُس کا آسٹریلیا کو تین بلین ڈالرز کی آب دوزیں فراہم کرنے کا معاہدہ ختم ہوگیا۔گلاسگو میں ہونے والی ملاقات میں امریکا کے صدر نے فرانسیسی ہم منصب سے تقریباً معذرت کی اور تسلیم کیا کہ آکوس فیصلہ امریکا کی جلد بازی اور حماقت تھی۔ 

اُنہوں نے کہا کہ امریکا، فرانس سے دوستی کے اعتماد کو ختم نہیں کر سکتا۔فرانس کے صدر نے یہ معذرت بڑی حد تک قبول کی، تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ امریکا، فرانس کا نقصان کیسے پورا کرے گا؟اِس موقعے پر امریکا اور یورپی ممالک کے سربراہان کے درمیان بھی ملاقات ہوئی، جس میں ایٹمی افزودگی پر ایرانی پیش رفت پہ شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔ تاہم، ایران کا کچھ روز پہلے بیان آیا کہ عالمی طاقتوں، امریکا اور ایران کے درمیان نیوکلیئر ڈیل پر مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔

اِس کانفرنس میں جس معاملے کا کوئی ذکر نظر نہیں آیا،وہ افغانستان تھا۔یعنی اسلام آباد اور طالبان حکومت نے انسانی بنیادوں پر مدد کی جو اپیلز کیں، اُس پر مکمل خاموشی رہی۔ امریکا اور کچھ دیگر ممالک افغانستان کو ضروری امداد تو دے رہے ہیں، تاہم جی-20 گروپ سے جو اُمیدیں وابستہ کی گئی تھیں، وہ پوری نہیں ہوئیں۔دوسرے الفاظ میں طالبان حکومت کو پیغام دیا گیا کہ جب تک وہ اپنے وعدے کے مطابق نمایندہ حکومت تشکیل نہیں دیتے، اُن کی مالی یا سیاسی مشکلات پر غور کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

اِس فورم میں صرف امریکا اور اُس کے مغربی اتحادی ہی نہیں ہیں، بلکہ سعودی عرب، تُرکی، چین اور انڈونیشیا بھی اس کا حصّہ ہیں، لیکن اُن کی طرف سے بھی افغانستان پر کوئی پیش رفت نہیں دیکھی گئی۔مغربی ممالک کے علاوہ صرف چین ہی ایک ایسا مُلک ہے، جو طالبان حکومت کی مدد کو آسکتا ہے، لیکن اب تک جتنی بھی عالمی اور علاقائی کانفرنسز ہوئی ہیں، اُن سب میں کوئی بھی نمایندہ حکومت کی شرط سے پیچھے ہٹنے کو تیار نظر نہیں آیا۔

ایسی عالمی کانفرنسز سے متعلق یہ سوال عام ہے کہ آخر ان کا فائدہ ہی کیا ہے؟ہوسکتا ہے کہ اِن کانفرنسز سے سب کی توقّعات پوری نہ ہوتی ہوں، مگر ان کی افادیت سے انکار بھی ممکن نہیں۔گزشتہ پندرہ برسوں میں دنیا نے بہت سے تکلیف دہ حالات دیکھے۔عالمی اقتصادی بحران، کورونا وبا اور موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے منفی اثرات، جو اب خوف ناک ہوچُکے ہیں، ان سے دنیا کا کوئی مُلک یا خطّہ تنہا نہیں نمٹ سکا۔

یہ صرف اقتصادی یا سیاسی معاملات نہیں، بلکہ انسانی معاملات ہیں اور اگر انہیں کسی نظریے یا مُلکی طاقت کے زیرِ اثر کردیا گیا، تو دنیا تباہ ہو جائے گی۔موسمیاتی تبدیلیوں سے ہر آدمی متاثر ہو رہا ہے، چاہے وہ کسی بھی نسل، رنگ، مذہب یا علاقے سے تعلق رکھتا ہو۔اسی طرح کورونا سے ہوا۔منہگائی کا وہ عالم ہے کہ پوری دنیا پریشان ہے۔ تو پھر دنیا سے قدم ملا کر چلنے کے علاوہ کیا راستہ باقی بچتا ہے؟ 

شکایات اپنی جگہ، لیکن ایسی عالمی کانفرنسز میں کچھ تو ریلیف مل ہی جاتا ہے۔البتہ ایک سبق ضرور ہے کہ اب دنیا کو باہمی تنازعات نہیں، بلکہ بیماریوں، بھوک، منہگائی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ لڑنا ہوگی، وگرنہ اگلی نسلوں کے لیے گھٹا ٹوپ اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔

تازہ ترین