چند ہفتہ پیشتر وزیراعظم نوازشریف نے اپنے وفد کے ساتھ چین کا دورہ کیا، اس کا وہاں شاندار استقبال کیا گیا۔ چین ہمارا قابل بھروسہ اور بہت پُرخلوص دوست ہے۔ کئی معاہدوں پر دستخط کئے گئے اور اخبارات اور ٹی وی کے ذریعے ہمیں اس دورہ کے بارے میں علم ہوتا رہا۔معاہدوں میں دو اہم معاہدے بجلی کی پیداوار میں مدد اور گوادر سے کاشغر تک ایک ہائی وے یا ایکسپریس وے کی تعمیر کا بھی ذکر ہے۔ اس اعلان کے بعد روزنامہ دی نیوز میں ہمارے سابق سفیر جناب آصف ایزدی ،ایک اور انگریزی معاصر میں صنعت کار جناب مُعظم حسین کے نہایت معلوماتی مضامین بعنوان کاشغر سے گوادر اور گوادر سے کاشغر تک شائع ہوئے۔ چونکہ میں بھی ان علاقوں سے خاصا واقف ہوں اس لئے کچھ عرض کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔
دیکھئے جہاں تک خنجراب سے کاشغر تک کی سڑک ہے وہ چین نے بہت اچھی بنائی ہے اور وہاں کوئی پرابلم نہیں ہے۔ مشکلات ہماری جانب ہیں۔ نہ صرف سڑک خراب ہے بلکہ لاتعداد بُرے موڑ بھی ہیں۔ میاں صاحب کو کیونکہ موٹر ویز بنانے کا شوق ہے اور ان کی مہربانی سے ہی پنجاب اور پشاور تک اعلیٰ سڑکیں تعمیر ہوئی ہیں ان کی گوادر،کاشغر موٹر وے کی تعمیر میں دلچسپی قابل سمجھ ہے۔ میں اس وقت اس شاہراہ کے ایک چھوٹے حصّہ کی جانب توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں جس کی تعمیر ہماری اوّلین ترجیح ہونا چاہئے اور یہ بُرہان سے ایبٹ آباد کا حصّہ ہے۔ پچھلے دنوں میں ایوب میڈیکل کالج میں ایک فنکشن میں بطور مہمان خصوصی گیا تھا۔ میرے ساتھ میرے پیارے دوست اور ملک کے مایہ ناز نیورو سرجن پروفیسر ڈاکٹر خلیق الزمان تھے۔ سیکورٹی کے فرائض کرنل جدون ادا کر رہے تھے جو خود ایبٹ آباد کے رہنے والے ہیں۔ ایوب میڈیکل کالج میں ڈاکٹر خلیق کے پرانے دوست و کلاس فیلو عزیزالرحمن یوسف زئی نے ہماری خوب آؤ بھگت کی اور بچوں اور بچیوں کا جوش و خروش قابل دید تھا۔
اسلام آباد سے ایبٹ آباد، مانسہرہ، بالاکوٹ، کاغان، ناران، کوہستان،،بلتستان، گلگت اور چین تک جانے کے لئے صرف ایک سڑک ہے جو حسن ابدال کے بعد پشاور سے آنے والی گاڑیوں کے لئے بھی یہی واحد راستہ ہے۔ یہ تمام سڑک نہایت گنجان آباد علاقوں سے گزرتی ہوئی سارے علاقوں کے بڑے بڑے شہروں کے درمیان سے گزرتی ہے۔ یہ شروع سے آخر تک ایک ہی سڑک ہے جس کے دونوں جانب ٹریفک چلتا ہے اس طرح ایک دوسرے کے مخالف سمت سے آنے والی گاڑیوں بشمول بڑے بڑے بھاری ٹرک کے لئے انتہائی تنگ اور خطرناک ہے اور لاتعداد حادثات کا سبب ہے۔ ابھی حال ہی میں ایسے حادثات میں 22 قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ حویلیاں سے چین تک کی سڑک شاہراہ قراقرم کہلاتی ہے، اسے شاہراہ کہنا مبالغہ آرائی ہے۔اس سڑک پر گدھا گاڑیاں، بیل گاڑیاں، کاریں اور ٹرک بکثرت چلتے ہیں اور ٹریفک رینگتا ہے۔ اکثر ایبٹ آباد سے اسلام آباد کا سفر سوا ، ڈیڑھ گھنٹے کے بجائے چار پانچ گھنٹے میں طے ہوتا ہیکیونکہ پہاڑی علاقہ ہے اس میں خطرناک موڑ بھی ہیں جو مزید تکلیف اور تاخیر کا باعث ہیں۔ اسی سڑک پر خواتین، بچّے اور مویشی بھی سفر کرتے ہیں جو ایک خطرناک صورتحال ہے۔ ٹریفک کے آہستہ حرکت کرنے سے سامان کی آمد اور روانگی میں بہت تاخیر ہوتی ہے جس کی وجہ سے بڑا معاشی نقصان ہوتا ہے۔ 110 کلومیٹر کا راستہ چار پانچ گھنٹے میں طے ہوتا ہے، پٹرول، ڈیزل، گیس وغیرہ کے مصارف بہت بڑھ جاتے ہیں اور گاڑیوں کی عمر بھی کم ہوجاتی ہے۔ٹریفک جام ہوتا ہے تو نتیجے میں جھگڑے فساد ہونے لگتے ہیں اور ہلاکتیں ہوجاتی ہیں۔ یہی اس شاہراہ کی ”باٹل نیک“ ہے۔
میاں صاحب اگر آپ گوادر سے کاشغر تک موٹر وے بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو سب سے پہلے اس راستہ کوصحیح معنوں میں موٹر وے بنانے کے لئے جنگی بنیادوں پر عمل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ آئندہ پروجیکٹ کے لئے بھی بے حد مفید ہوگا اور مستقبل قریب میں بھی ہمارے عوام کے لئے بھی آپ کی جانب سے ایک نہایت اچھا قیمتی تحفہ ہوگا۔امید ہے کہ آپ اس پروجیکٹ کو ترجیحی بنیادوں پر شروع کرائیں گے اور تکمیل کرائیں گے۔
اس شاہراہ کو حتمی شکل دینے سے پہلے چند دوسرے اہم پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا مثلاً اسلام آباد سے ہزارہ جانے کے لئے پہلے جنوب کی جانب سے حسن ابدال تک جانا پڑتا ہے جو اضافی سفر ہے اور پٹرول اور گیس کا غیر ضروری ضیاع ہے۔ اگر اس کے بجائے اسلام آباد سے جیری کس ہری پور تک مارگلہ پہاڑیوں سیونتھ ایوینو کو اسلام آباد، چڑیا گھر سے گزار کر ایک سرنگ کے ذریعے اس شاہراہ سے منسلک کردیا جائے تو اس سے بہت وقت بچے گااور پٹرول کی کفایت بھی ہو گی۔ یہی نہیں بلکہ پہاڑی کی دوسری جانب نئے رہائشی علاقے تعمیر کئے جاسکتے ہیں جس سے اسلام آباد میں رہائشی علاقوں کی کمی دور ہوجائے گی۔
اسی طرح پشاور سے ہزارہ جانے کے لئے پنجاب سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہزارہ کے لوگوں کو پشاور اور دوسرے جنوبی اضلاع میں صوبائی ملازمت کرنا پڑتی ہے اور ان کی زمینوں کی پیداوار مثلاً چاول، گندم، آٹاوغیرہ کا دو دفعہ صوبوں کے درمیان نقل و حرکت کی پابندی کی صورت میں کسٹم والے روکتے ہیں، پریشان کرتے ہیں اور بہت وقت ضائع ہوتا ہے جس کی وجہ سے ایک ہی صوبہ کی پیداوار اپنے ہی صوبہ کے دوسرے علاقوں میں لے جانے کے لئے عوام کو انتہائی پریشانیوں اور غلط فہمیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے پشاور سے بھی متبادل شاہراہ کی ضرورت ہے جو پنجاب سے گزرے بغیر ہزارہ سے ملا دے۔ اس کی ضرورت کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ تمام سرکاری ادارے، صوبائی اسمبلی، اعلیٰ عدالتیں، صوبائی سیکریٹریٹ اور کئی اہم اداروں کے صدر دفاتر پشاور میں واقع ہیں جس کی وجہ سے ہزارہ کے ملازمین اور عوام کو اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے بے حد تکالیف اُٹھاتے ہوئے پشاور جانا پڑتا ہے علاوہ ازیں پٹرول اور وقت کا ضیاع ہے۔
ایک اور پہلو سیاسی ہے۔ صوبائی اسمبلی میں ہزارہ کے ممبران اقلیت میں ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وزیر اعلیٰ کا ہزارہ سے چُنے جانا تقریباً ناممکن ہے اگر کوئی خوش قسمتی سے بن بھی جائے تو دوسرے علاقوں کے نمائندوں کی اکثریت کی وجہ سے ہزارہ وسائل سے محروم رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس علاقہ میں ترقی دوسرے علاقوں کے مقابلہ میں بہت کم ہوئی ہے۔ قبل اس کے کہ یہ فرق ایک نفرت اختیار کرلے (مشرقی مغربی پاکستان کی مثال سامنے ہے)یہ بے حد ضروری ہے کہ سیاسی اور انتظامی اُمور کے لئے جلداز جلد عملی اقدامات کرکے آپس میں بھروسہ اور اعتماد کی فضا قائم رکھی جائے اگر اس میں دشواریاں ناقابل حل نظر آئیں تو جلد از جلد ہزارہ کو علیحدہ صوبہ بنا دیا جائے۔ یہ فیصلہ جس قدر جلد کیا جائے اتنا ہی ملک کے مفاد میں ہوگاکیونکہ یہ پختون قوم کے دو فریقوں کی بہترین صلاحیتوں کو ملک کی مجموعی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے لئے ایک احسن اقدام ہوگا کیونکہ یہ فیصلہ نسلی، زبان یا مذہب کے بجائے صرف انتظامی اور سیاسی ضرورتوں کے مطابق ہو گا۔ حالیہ دورہ چین کے دوران چین کے وزیراعظم نے معاشی راہداری (Corridor) کی بات کی ہے جو کہ چین کے شہر کاشغرسے گوادر تک اہم شہ رگ ہوگی۔ مستقبل میں سڑک کے ساتھ ریلوے لائن کی بات بھی ہو رہی ہے اگر بصیرت سے دیکھا جائے تو ہنزہ، گلگت، بلتستان، چلاس، کوہستان اور ہزارہ کا علاقہ پاکستان کے مستقبل کے لئے ایک معاشی شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس شہ رگ کو بین الاقوامی معیار کی شاہراہ بنانے کی اہم اور فوری ضرورت ہے۔یہ صرف ہزارہ کے لئے نہیں پورے پاکستان کی قسمت بدلنے میں انتہائی اہم و بنیادی منصوبہ ہے۔
یہ پاکستان میں معاشی انقلاب لائے گا۔ اس سلسلہ میں مانسہرہ میں ہوائی اڈہ اور ڈرائی پورٹ بھی ضروری ہے۔مواصلات کی سہولت معاشی انقلاب کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ اس علاقہ میں اہم پروجیکٹ دیامربھاشا ڈیم بھی ہے، اس کی تعمیر کے لئے بھاری مشینری کی روانگی لازمی ہوگی۔ اس کے علاوہ اہم بات یہ ہے کہ ہزارہ میں تعلیمی خواندگی کی شرح بہت اچھی ہے۔ بین الاقوامی معیارکے کئی تعلیمی و تربیتی ادارے وہاں قائم ہیں مگر کوئی صنعتی زون قائم نہیں کیا گیا ہے، یہ شاہراہ اس علاقہ میں صنعتی ترقی کا پیش خیمہ ہوگی۔
اس علاقہ میں قیمتی پتھروں کی کانیں ہیں ان پر ابھی تک سنجیدگی سے کام نہ ہو سکا کہ مواصلات کی سہولتیں اچھی نہیں ہیں۔اس کے علاوہ یہ علاقہ سیر و سیاحت کے لئے جنت ہے، کاغان، ناران، بابوسر، دیو سائی پلین،فےئری میڈوز، گلگت، ہنزہ، اسکردو، سندور وغیرہ کے علاقے سوئٹزرلینڈاور آسٹریا سے کم نہیں ہیں، یہاں کی خوبصورت جھیل اور دنیا کی بلند برفانی چوٹیاں سیاحوں کو ہر وقت دعوت دیتی رہتی ہیں۔ مواصلات کی بہتری سے اس علاقہ کی سیاحت میں بہت اضافہ ہوگااور اس کے نتیجے میں عوام کی معاشی حالت بدل جائے گی۔ میاں صاحب یہ چیلنج قبول فرمائیے۔ ملک کی معاشی و بین الاقوامی حالت بدل دیجئے اور تاریخ میں نام پیدا کرجائے۔