اسلام آباد (نمائندہ جنگ، جنگ نیوز) آرمی پبلک اسکول ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے طلب کرنے پر جب وزیر اعظم عمران خان احاطہ عدالت پہنچے تو اُن سے پہلے ہی اُن کی سکیورٹی کا عملہ سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر ون کے باہر اپنی پوزیشنیں سنبھال چکا تھا۔ نیلی شلوار قمیض میں ملبوس وزیر اعظم جب کمرہ عدالت میں پہنچے تو کمرہ عدالت پہلے ہی اپنی گنجائش کے مطابق بھر چکا تھا۔
وزیر اعظم عمران خان سیٹوں کی پہلی نشست میں اُس سیٹ پر بیٹھے جو کہ چیف جسٹس کے بالکل سامنے تھی۔ وزیر اعظم اپنے مخصوص انداز میں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھے، انکے دائیں ہاتھ میں تسبیح تھی جس پر انکے ہاتھ کی انگلیاں تیزی سے گھوم رہی تھیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری وزیر اعظم کی پچھلی نشست پر بیٹھے تھے اور وہ مسلسل وزیر اعظم سے سرگوشیوں میں بات کر رہے تھے۔جب وقفے کے بعد اس کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا وزیر اعظم آگئے ہیں؟ جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ وزیر اعظم کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔
سماعت کے دوران جب بینچ میں موجود ججز کچھ مزید ریمارکس دینا چاہتے تھے تو وزیر اعظم نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے اور ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر جسٹس ایک منٹ اور اسکے بعد انھوں نے افغان جنگ اور اسکے بعد کی پیدا ہونے والی صورتحال پر بات کرنا شروع کر دی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سانحہAPS کے انٹیلی جنس ایجنسی کہاں تھی؟ذمہ داروں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی، وزیراعظم نے کہا کہ اللہ شہید طلبا کے والدین کو صبر دیگا ،ہم انہیں معاوضہ دینے کے علاوہ اور کیا کرسکتے تھے ؟چیف جسٹس نے کہا کہ APSکے شہید طلباء کے والدین سوال کرتے ہیں اسوقت سیکورٹی سسٹم کہاں تھا؟
وزیراعظم نے کہا کہ سانحہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا ، دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی ہے، جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ایک گروپ سے مذاکرات اور، TLPسے معاہدہ کیا گیا، جنھوں نے 9 پولیس اہلکاروں کو ’شہید‘ کیا، وزیراعظم کا موقف تھا کہ اس سارے معاملے کو افغانستان کے پس منظر میں دیکھنا ہو گا ؟
تفصیلات کے مطابق عدالت عظمیٰ میں سانحہ آرمی پبلک اسکول از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے سیکورٹی اداروں کی غفلت ولاپرواہی کے حوالے سے متعدد سوالات اٹھائے ہیں ، چیف جسٹس گلزار احمد نے سوال اٹھا ہے کہ انٹیلی جنس کی اتنی بڑی ناکامی کیوں اور کیسے ہوئی؟ سانحہ اے پی ایس کے وقت ہماری انٹیلی جنس ایجنسی کہاں تھی؟
ایجنسی اور فوج کے کرتا دھرتا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے ، ریاست نے شہریوں کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ ہمیں یہ جاننا ہے کہ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی مجرموں کا سراغ کیوں نہیں لگایا جا سکا ہے؟اعجاز الاحسن نے سوال اٹھایاکہ کیاحملہ کرنے والے دھشت گردوں کے علاوہ بھی کوئی انکے سہولت کار تھے،کوئی اندر سے مدد گار تھے؟
حکومت نے اب تک اس حوالے سے کیا کارروائی کی ہے ؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کا پوراسیکورٹی سسٹم کہاں تھا؟ عدالت کے واضح حکم کے باوجود ابھی تک کسی کے خلاف کوئی کارروائی ہی نہیں کی گئی ہے؟وزیر اعظم عمران خان نے جواب دیاہے کہ ،اللہ شہید طلباء کے والدین کو صبر دے گا ،ہم انہیں معاوضہ دینے کے علاوہ اور کیا کرسکتے تھے ؟
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا ہے کہ سانحہ اے پی ایس کے موقع پر خفیہ ادارے کہاں تھے ؟کیا اس حوالے سے سابق آرمی چیف اور دیگر ذمہ داروں کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہوا ہے؟ عدالت کے 20اکتوبر2021کے حکم کے مطابق اس وقت کے اعلیٰ عہدیداران کیخلاف شہیدطلبا کی مائوں کی جانب سے غفلت سے متعلق الزامات پر ذمہ داری کے تعین کے حوالے سے کوئی کارروائی کی گئی ہے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں آرمی چیف اور ڈی جی ،آئی ایس آئی کے حوالے سے تو کوئی فائنڈنگ ہی نہیں دی گئی ہے،دوران سماعت چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیاوزیراعظم نے عدالت کا 20اکتوبر کا حکمنامہ پڑھا ہے؟تو اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ انہیں یہ حکمنامہ نہیں بھیجا تھا تاہم میں انہیں عدالتی حکم سے آگاہ کردوں گا۔
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ ہماری ایجنسیوں اور اداروں کو تمام خبریں ہوتی ہیں لیکن جب اپنے لوگوں کے تحفظ کی بات آئے تو انٹیلی جنس ایجنسی کہاں چلی جاتی ہے؟ انہوں نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ عدالت نے ایک واضح حکم نامہ جاری کیا تھا ،آپ اس کے مطابق حکومت سے ہدایات لے کر کیوں نہیں آئے ؟
آپ اپنے ضمیر کی آواز سنیں،جس پر انہوں نے کہا کہ عدالت جو حکم کرے گی؟مجھے قبول ہے، میں کسی کا دفاع نہیں کروں گا،چیف جسٹس نے وزیر اعظم عمران خان سے استفسار کیا کہ سانحہ اے پی ایس کے حوالے سے کیا کر رہے ہیں؟ آپ اس ملک کے چیف ایگزیکیٹیو ہیں اور آپ کو قومی سلامتی سے متعلق اقدامات کرنے سے کس نے روکا ہے؟تو انہوں نے جواب دیا کہ ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے۔
عدالت حکم جاری کرے ،حکومت کارروائی کرے گی ،چیف جسٹس نے کہا کہ شہید طلباء کے والدین سوال کرتے ہیں کہ اس وقت پورا سیکیورٹی سسٹم کہاں تھا؟وزیرِ اعظم نے موقف اختیار کیا کہ اس سانحہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہاکہ ہم نے ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی ہے،جسٹس قاضی محمد امین نے(حکومت کی جانب سے ٹی ٹی پی کے ساتھ مبینہ مذاکرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے) کہا کہ اطلاعات ہیں کہ ریاست کسی گروہ کے ساتھ مذاکرات کرنے جا رہی ہے؟
کیا ہم ایک بار پھر سرنڈر ڈاکومنٹس(ہتھیار ڈالنے کی دستاویز) سائن کرنے جا رہے ہیں؟ آپ نے تو ٹی ایل پی کے ساتھ بھی معاہدہ کیا ہے، جنھوں نے احتجاج کے دوران 9 پولیس اہلکاروں کو ’شہید‘کیاہے ،جس پر وزیر اعظم نے کہا کہ اس سارے معاملے کو افغانستان کے پس منظر میں دیکھنا ہو گا؟