• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری

انسان کی شخصیت، اس کے عادات واطواراور افعال اورکردارسے نمایاں ہوتی ہے۔انسان فطری طورپراپنا مصاحب اور دوست بھی انہی کو بناناپسند کرتاہے جو معاشرے میں اچھے ہوتے ہیں اوربرے لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرتاہے۔ فارسی مثل مشہورہے’’صحبت طالع تراطالع کند‘‘، اور جاپانی مقولہ ہے’’جب کسی شخص کا کردارتم پرواضح نہ ہوتواس کے دوستوں کو دیکھو‘‘۔ اس سے اس کے معیارکا پتا چلتا ہے، اس لئے معمولی سے معمولی عقل وشعور رکھنے والا انسان کبھی برے لوگوں کو ا پنا دوست بناناپسند نہیں کرتا ،بلکہ اس کی فحش باتوں اور برے کاموں سے بچنے کے لئے اس سے دوری اختیارکرنے میں اپنی بھلائی محسوس کرتاہے۔نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’مومن محبت اورالفت کاحامل ہوتاہے اوراُس شخص میں کوئی خوبی اور بھلائی نہیں جونہ خودمحبت کرے اورنہ لوگوں کواس سے الفت ہو۔‘‘(مسند احمد،بیہقی شعب الایمان)

مسلمان برے دوستوں سے بچتے ہوئے اللہ کے نیک اورصالح بندوں سے محبت اوردوستی کرتاہے۔وہ سب لوگ جواللہ اوراس کے رسول ﷺ کے باغی اورفاسق ہیں،وہ ان سے بغض رکھتاہے۔ گویااللہ اوراس کے رسول ﷺ کی محبت اس کی محبت ہے اوراللہ ورسول ﷺ کی دشمنی اس کی دشمنی ہے۔رسول اللہ ﷺ کاارشادعالی ہے :جوشخص اللہ کے لیے کسی سے محبت وبغض رکھے اوراللہ ہی کے لیے کوئی چیز دے اور روکے، تواس نے اپناایمان مکمل کرلیا۔(سنن ابو داؤد) اچھے لوگوں سے میل جول رکھنااوردوستی کاہاتھ بڑھاناایک پکے مومن کی شان ہے، جیسا کہ حضوراکرمﷺ نے فرمایا:مومن دوستی کرتاہے اوراس سے دوستی کی جاتی ہے(اور)اس شخص میں کوئی خیرنہیں ہے جونہ توکسی سے مانوس ہوتا ہے اورنہ ہی اس سے کوئی مانوس ہوتاہے۔(مسنداحمد)

اچھے دوست بنانے والوں کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے عظیم خوشخبری سنائی ہے کہ:عرش کے اردگردنورکے منبرہیں ، ان پرنورانی لباس اورنورانی چہروں والے لوگ ہوں گے، وہ انبیاءؑ وشہداء تونہیں ،مگرانبیاء ؑوشہداء ان پر رشک کریں گے۔صحابۂ کرام ؓ نے عرض کیا ’’اے اللہ کے رسول ﷺ ! ہمیں بھی ان کی صفات بیان کیجئے ‘‘۔آپ ﷺ نے فرمایا:یہ لوگ اللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے،ایک دوسرے کے پاس بیٹھنے والے اورللہ ہی کے لیے ایک دوسرے کی ملاقات کوآنے والے ہیں۔(سنن نسائی)

اچھے لوگوں سے دوستی رکھنااللہ تعالیٰ کی محبت کاذریعہ ہے ۔حدیث قدسی میں ہے ،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:میری محبت ان کے لیے ثابت ہوچکی ہے جومیرے لیے ایک دوسرے سے ملتے ہیں اورمیری محبت ان لوگوں پرثابت ہوچکی ہے جومیری خاطرایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔(مستدرک حاکم) یہی نہیں بلکہ آپ ﷺ نے فرمایا:قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ کے عرش کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا، اس وقت اللہ تعالیٰ سات بندوں کواپنے عرش کاسایہ نصیب فرمائے گا، جس میں سے وہ دوآدمی بھی ہوں گے جواللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت رکھتے اوراللہ ہی کے لیے ایک دوسرے سے جداہوتے ہیں۔(صحیح بخاری)

احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے جہاں اچھے لوگوں کے اوصاف اورخوبیاں بیان کی ہیں، وہیں برے اورناپسندیدہ لوگوں کی بھی پہچان بتادی ہے، تاکہ ایسے لوگوں سے دوررہاجائے۔ اس سلسلے میں ایک اصولی بات یہ ہے کہ ہروہ انسان جس میں کسی طرح کی خیرکی امید نہ رکھی جائے ،حتیٰ کہ اس کے شرسے بھی لوگ محفوظ نہ ہوں تو وہ شخص بدترین انسان مانا جائے گا،کیونکہ ایسی صورت میں وہ معاشرے کے فسادوبگاڑکا سبب بنے گا۔نبی کریمﷺ کا فرمان ہے: ’’تم میں بدترین شخص وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کونہ خیرکی امید ہو، نہ اس کے شرسے لوگ محفوظ ہوں۔‘‘ (جامع ترمذی )

بسااوقات انسان کسی برے شخص سے ملتا ہے، مگراس کے ساتھ بہترانداز سے پیش آتاہے ،اس سے گمان ہونے لگتاہے کہ وہ معاشرے کا بہترین فردہوگا حالانکہ وہ بدترین انسان ہوتا ہے۔نبی کریم ﷺنے ایسے شخص کی وضاحت فرمادی ہے۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺسے ملاقات کی اجازت چاہی ، آپﷺ نے فرمایاکہ اسے آنے کی اجازت دے دو، ساتھ ہی یہ بھی فرمایاکہ وہ معاشرے کا برا انسان ہے۔

جب وہ داخل ہواتوآپ ﷺنے اس سے نرم گفتگوکی ، اس کے جانے کے بعد حضرت عائشہؓ نے دریافت کیا:اے اللہ کے رسولﷺ! آپ نے تواس کے سلسلے میں ایسا ایسا فرمایاتھا جبکہ آپﷺ نے اس سے گفتگو میں نرمی اختیارکی۔ نبی کریمﷺ نے ارشادفرمایا: ’’اے عائشہؓ! اللہ تعالیٰ کے نزدیک قدرومنزلت میں سب سے براانسان وہ ہے جس کے شراوراذیت کی وجہ سے لوگ اسے چھوڑ دیں یا اس سے دوری اختیار کرلیں۔‘‘(صحیح بخاری)

نبی کریم ﷺنے فرمایا: ’’تم قیامت کے دن اللہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے بدترین انسان انہیں پاؤ گے جو دورخی اختیارکرتے ہیں۔‘‘(بخاری)آپﷺ نے اس کی مزیدوضاحت ان الفاظ میں فرمائی: ’’یقیناً بدترین شخص وہ ہے جودومنہ رکھتاہو،کچھ لوگوں کے پاس ایک منہ لے کرجاتاہے اورکچھ لوگوں کے پاس دوسرامنہ لے کرجاتاہے۔‘‘(صحیح مسلم) ایسا شخص سچ اورجھوٹ کوملاکر لوگوں میں فساد وبگاڑپیداکرنے کی کوشش کرتاہے۔

اسی وجہ سے اسے نفاق کی علامت قراردیا گیاہے۔ ایسے لوگوں کوانسانیت کا دشمن اورمعاشرے کا ناسور سمجھاجاتا ہے۔ ایسا شخص لوگوں کی کمزوریوں کی ٹوہ میں لگارہتاہے، تاکہ ان کی اطلاع دوسروں کو دے۔ اس طرح ان کے مابین قطع تعلق کا سبب ہے۔اسی وجہ سے اس کا دل حسد اور کینہ کی آگ میں جلتا رہتا ہے۔

تازہ ترین