مولانا حافظ عبد الرحمٰن سلفی
ارشادِ ربّانی ہے: اور ہم نے اسی زمین میں تمہارے لئے روزی کے سامان بنائے ہیں اور ان کے لئے بھی جنہیں تم روزی نہیں دیتے ہو (بلکہ ہم ہی انہیں روزی دیتے ہیں) (سورۃ الحجر)اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ہر جاندار کی روزی رزق اللہ تعالیٰ ہی دینے ولا ہے۔ غور کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ کس کس انداز میں اپنی مخلوقات کی روزی کا بندوبست کرتا ہے۔
چرند پرند کو دیکھیں کہ رب تعالیٰ کس طرح انہیں رزق پہنچاتا ہے چوپایوں کو دیکھیں جو ہمارے لیے پیدا کئے گئے انہیں بھی اللہ ہی رزق دیتا ہے، اسی طرح جنگلی درندے اور کیڑے مکوڑے حشرات الارض ہیں وہ کہاں سے اپنی روزی حاصل کرتے ہیں، سب کے سب اللہ ہی سے رزق پاتے اور زندہ رہتے ہیں۔ تو پھرکیا اللہ تعالیٰ اپنی حسین ترین مخلوق جسے اس نے اشرف المخلوقات بنایا ‘اسے بے یار و مددگار چھوڑ دے گا ۔نہیں ! ہر گز نہیں، بلکہ انسان کے لئے بھی اس نے بے پناہ ذرائع وسائل تخلیق فرمائے ہیں، البتہ ان کے حصول کے لئے پاکیزہ و حلال طریقوں کا حکم دیا اور حرام سے بچنے کی تلقین فرمائی۔
ہر جاندار کو اللہ تعالیٰ ان کے درجوں کے مطابق روزی بہم پہنچا رہا ہے۔ صبح دم پرندے اور جانور اپنے گھونسلوں اور بلوں سے بستیوں اور جنگلوں کی طرف نکلتے ہیں اور دن بھر ادھر ادھر اپنی روزی تلاش کر کے شام کو پیٹ بھر کر واپس ہوتے ہیں۔ چنانچہ سرورِ کائنات علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کاارشاد گرامی ہے:ترجمہ! اگر تم اللہ پر کماحقہ توکل (اعتماد) کر لو تو جس طرح وہ پرندوں کو روزی دیتا ہے ،اسی طرح تمہیں بھی روزی دے گا کہ وہ صبح بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس ہوتے ہیں۔(ترمذی)
البتہ یہ رب تعالیٰ کانظام ہے کہ وہ کسی کو کشادگی تو کسی کو تنگی عطا فرماتا ہے، تاکہ معاشرے میں اعتدال قائم رہے اور انسان ایک دوسرے سے مربوط رہیں۔ اگر سب ہی مالدار ہوں تو پھر مختلف خدمات کے انسائی وسائل ناپید ہو جائیں ،اسی طرح اگر سب ہی تنگ دست ہوں تو ذرائع روزگار مفقود ہو جائیں۔ دنیا کا سسٹم اسی طرح چلتا رہتا ہے کہ کسی کو متمول تو کسی کو زیردست رکھا گیا ہے، تاکہ ایک دوسرے کی ضروریات بھی پور ی ہوتی رہیں اور کوئی کسی سے لاتعلق بھی نہ رہے کہ کسی کی نظر میں دوسرے کی اہمیت ہی نہ رہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس تقسیم کو یوں بیان فرمایا ہے:ترجمہ! ہم نے لوگوں کی روزیوں کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کر دیا ہے ۔ کسی کو درجے میں اونچا کر دیا ہے کسی کو ا س سے کم۔( سورۃ الزخرف )ایک مقام پر اس طرح بیان فرمایا:ترجمہ! اللہ تعالیٰ جس کی روزی کو کشادہ کرنا چاہتاہے کشادہ کر دیتاہے اور جس کی روزی کم کرنا چاہتا ہے کم کر دیتا ہے۔(سورۃ الرعد)
معلوم ہوا کہ روزی کی تنگی و کشادگی میں اللہ تعالیٰ کی حکمت پوشیدہ ہے اس طرح دونوں کی آزمائش ہو جاتی ہے کہ وہ کتنے شکر گزار اور ثابت قدم رہتے ہیں۔ اس لئے ہر شخص کو اپنی حالت اور ہمت کے مطابق روزی تلاش کرنے میں جدوجہد کرنا ضروری ہے۔ قرآن مجید میں محنت و جدوجہد کی ترغیب اس طرح دلائی گئی ہے۔ ترجمہ! انسان کو جو کچھ ملتا ہے، وہ اس کی سعی و کوشش سے ملتاہے ۔(سورۃ النجم ) اسی طرح دوسرے مقام پر یوں فرمایا :ترجمہ! وہ اللہ جس نے تمہارے لئے زمین کو مسخر کر دیا کہ تم اس کے راستوں میں چلو اور اس کی دی ہوئی روزی میں سے کھائو اور اسی کے پاس مرنے کے بعد زندہ ہو کر جانا ہے ۔(سورۃ الملک )
معلوم ہوا کہ مقدر کی روزی حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنا ضروری ہے اور اس کے حصول میں حلال وپاکیزہ ذرائع اختیارکرنا فرض ہے۔ کسب حلال میں بڑی برکت ہے اور اس میں دین و دنیا کی سعادت پوشیدہ ہے۔حلال کمائی کرنے والا لوگوں کی نظروں میں بھی محبوب ہوتا ہے اور اللہ کے ہاں بلندی درجات کا حامل گردانا جاتا ہے اور وہ اسے اپنا محبوب بنا لیتاہے اور وہ جو عبادت کرتا اسے قبول فرما لیتا ہے جبکہ حرام کھانے والے کی کوئی عبادت قبول نہیں کی جاتی۔ رسول اکرم ﷺنے فرمایا:ترجمہ! یعنی حلال روزی کا طلب کرنا ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ کے فرض کے بعد۔ (بیہقی)
یعنی اللہ تعالیٰ کے دیگر فرائض مثلاً نماز روزہ حج زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد کسب حلال کی بھی جستجو کرنا بہت ضروری ہے۔ اس لئے کہ تمام عبادات کی قبولیت کا دارومدار اسی پر ہے۔ سرورِ کائنات علیہ الصلوٰۃوالسلام کا فرمان عالیشان ہے: ترجمہ! یقیناً اللہ پاک ہے اور پاک ہی کو قبول فرماتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جو نبیوں اور رسولوں کو حکم دیا ہے وہی عام مسلمانوں کو بھی حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا۔ اے رسولو! تم پاکیزہ چیزوں کو کھائواور اچھے کام کرو اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے ایمان والو !ان پاک چیزوں میں سے کھائو جو ہم نے تمہیں دی ہیں۔ پھر رسول اللہﷺ نے اس آدمی کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ( یعنی حج) پراگندہ حال‘ گرد آلود اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف کئے ہوئے کہتا ہے کہ اے میرے رب (یعنی کہ گڑگڑاکر دعا مانگتا ہے کہ اے میرے رب تو ایسا کر یہ دے دے وہ دے دے) حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے پینا حرام ہے اور اس کا پہننا حرام ہے اورحرام مال ہی سے اس کی پرورش ہوئی ہے تو اس کی دعا کس طرح قبول ہو۔(صحیح مسلم)
معلوم ہوا دعائوں اور عبادتوں کی مقبولیت بھی کسب حلال سے مشروط ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ دعا کے دوبازو ہیں ایک اکل حلال دوسرے صدق مقال یعنی پاکیزہ و حلال روزی اور سچ بولنا۔ یقیناً جو حلال کمائی کھاتا ہے وہ انبیاء و رسل کے طریقے اور سنت پر چلتا ہے اور لوگوں کو اپنی ایذا رسانی سے بچاتا ہے وہ جنتی آدمی ہے۔ رحمۃ للعالمین ﷺکا پاکیزہ ارشاد ہے:ترجمہ! جس نے پاکیزہ کمائی کھائی اور سنت کے مطابق کام کیا اور لوگوں کو اپنی ایذا رسانی سے امن میں رکھا وہ جنت میں داخل ہو گا۔( ترمذی‘ ترغیب)
کسب حلال بندے کو مستجاب الدعوات بنا دیتاہے۔ سیدنا ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکے سامنے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی گئی۔ ترجمہ! اے لوگو تم زمین کی پیداوار میں سے حلال اور پاکیزہ کھائو تو سعد بن ابی وقاص ؓ نے کھڑے ہو کر عرض کیا۔ یارسول اللہ ﷺآپ اللہ تعالیٰ سے میرے لئے دعا فرما دیجئے کہ وہ مجھے مستجاب الدعوات بنا دے یعنی میری دعا قبول فرمالیا کرے۔ آ پ ﷺ نے فرمایا۔ اے سعد حلال کمائی کھائو تم مستجاب الدعوات ہو جائو گے یعنی تمہاری دعا قبول ہوگی۔ اللہ کی قسم جب بندہ حرام کا لقمہ پیٹ میں ڈالتا ہے تو چالیس روز تک اس کا عمل قبول نہیں کیا جاتا اور جس بندےکا گوشت حرام سے پلا ہو اہو تو جہنم کی آگ اس کے بہت لائق ہے۔ (الترغیب والترہیب)
حلال کمائی کمانا اور اس میں سے انفاق فی سبیل اللہ کرنا اللہ کو محبوب ہے جبکہ حرام کمائی کرنا اور اس میں صدقہ خیرات یا کوئی نیک کام کرنا اللہ کو ہر گز منظور نہیں بلکہ وہ سب کا سب ضائع و برباد ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے غضب کا باعث ہے۔
امام سفیان ثوریؒ نے کیا خوب فرمایا ہے:ترجمہ! جو شخص اللہ کی اطاعت میں حرام مال خرچ کرے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے ناپاک کپڑے کو پیشاب سے پاک کرے ۔(احیاء العلوم)یعنی جس طرح یہ بات ظاہر ہے کہ ناپاک کپڑے کو پاک پانی ہی پاک کر سکتا ہے بعینہ گناہوں کو بھی صرف حلال صدقہ خیرات پاک کر سکتا ہے۔
سرکارِ دوعالمﷺ نے فرمایا:ترجمہ! بندہ اس وقت تک پرہیز گاری کے درجے تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ ناجائز چیزوں سے بچنے کے لئے بعض چیزوں کو بھی نہ چھوڑدے۔ (ترمذی)
کسب حلال کے حصول کے لئے تجارت ،زراعت صنعت و حرفت وغیرہ پسندیدہ شعبہ جات ہیں۔ تمام انبیائےکرامؑ اورصلحائے امت ان ہی شعبوں سے وابستہ رہے ہیں، بلکہ تجارت کو بہت پسند کیا گیا ہے ۔صحابہ کرام ؓ کی اکثریت تجارت سے وابستہ تھی۔ اسی تجارت کی بدولت مختلف ممالک میں صحابہ کرام ؓ پہنچے اور اسلام کی تبلیغ کی۔ غرضیکہ تجارت انبیائے کرامؑ اور صحابہ کرام ؓ کا مشغلہ رہا ہے اور آج بھی اگر دیکھاجائے تو وہی قومیں دنیا پر حاوی ہیں جو تجارتی واقتصادی میدان میں ترقی یافتہ کہلاتی ہیں۔
اہل اسلام بھی بحیثیت انفرادی و اجتماعی خوشحالی سے اسی صورت ہمکنار ہو سکتے ہیں کہ جب کسب حلال کے لئے تجارت، زراعت، صنعت و حرفت کے میدنوں میں جوہر قابل آزمائیں۔ نبی مکرم ﷺکا ارشاد ہے:ترجمہ! تم تجارت کو لازم پکڑو کیونکہ اس میں تمہاری روزی کے نو حصے ہیں۔ سچا امانتدار تاجر قیامت کے دن نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔(صحیح بخاری)
افسوس آج مسلمان اپنے آبائی پیشہ تجارت کوچھوڑ بیٹھے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی حکومت سلطنت عزت دولت اورزراعت غر ض سب کچھ جاتا رہا اور محنت و جفا کشی ختم ہوگئی ،جس کی وجہ سے آج ہم باوجود ایک ارب سے زیادہ آبادی اور56 سے زیادہ ممالک ہونے کے دوسروں کے دست نگر اور مفلوک الحالی کا شکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح معنوں میں کسب حلال کی توفیق مرحمت فرمائے اور امت مسلمہ کو اقوام عالم میں ممتاز مقام عطا فرمائے۔ (آمین )