فہد ابدالی
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تم ہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
آج کل کے دور میں اگر نوجوان آپس میں آپ جناب سے بات کریں تو ان کوبڑی حیران نظرو ں سے دیکھا جاتا ہے اور کئی دفعہ توان پہ مختلف فقرے تک کسے جاتے ہیں۔ اب بندہ آپ جناب سے گفتگو کا آغاز کرے تو لازماََ یہ پوچھا جائے گا کہ بھائی خیریت تو ہے کیا ناشتے میں اردو ادب کی کوئی کتاب کھا کر آئے ہویا رات کسی مشاعرے میں گزاری ہے ۔
پرانے وقتوں میں تو نام لے کر بات کرنا بہت معیوب سمجھا جاتا تھا ۔نوجوان زیادہ تر آپس میں بات کرتے ہوئے نام کے ساتھ بھائی ، بھائی جان وغیرہ ضرور لگاتے تھے لیکن اب تو گھروں میں بھی چھوٹے بہن بھائی اپنے بڑے بہن بھائیوں کا نام بڑے فخر سے لیتے ہیں اور والدین بھی ان کو نہیں ٹوکتے کہ تم سے بڑے ہیں ، بھیا ،آپی کہو، پھر بچے کیا کریں گے۔
اندازِ گفتگو کا ہماری تہذیب سے بڑا گہرا تعلق ہے، مگر ٹیکنالوجی کے اس دور میں آداب و شائستگی کی اہمیت بہت محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ عموماََ نوجوانوں کی جدید تعلیم بالخصوص انگریزی زبان پر توجہ دی جاتی ہے، ویسےتو بچے تہذیب اپنے گھر سے سیکھتے ہیں۔
اسکول ،کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر بھی اساتذہ بچوں اور نوجوانوں کے اندازِ گفتگو پر روک ٹوک کرتے تھے، اب ایسا نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ گھر سے لے کر تعلیمی اداروں تک بچوں کو انداز گفتگوکے بارے میں بتایا جائے۔ اس حوالے سے لیکچر اور سمینار وغیرہ کا انعقاد کیا جائے ، تاکہ اُن کی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ اندازِ گفتگو کی بھی احسن طریقے سے تربیت ہوسکے، جو یقیناََ نوجوانوں کو ایک مکمل انسان بننے مددگار ثابت ہوگی۔
متوجہ ہوں!
قارئین کرام آپ نے صفحہ ’’نوجوان‘‘ پڑھا آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضوعات پر لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کرکے شائع کریں گے۔
ہمارا پتا ہے:
انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،
اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔