• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

سائنسدانوں نے دنیا بھر سے جمع کی گئی قوس قزح کی تصاویر کا عالمی ڈیٹا بیس بنایا ہے۔

اس ڈیٹا بیس، آب و ہوا اور موسمی حالات کی بنیاد پر انہوں نے قوس قزح کی پیش گوئی کرنے کے لیے کمپیوٹر ماڈل کو تربیت دی۔

حالیہ سائنسی تحقیق کے مطابق، قوس قزح جو طویل عرصے سے امید اور خوبصورتی کی علامت کے طور پر دیکھی جاتی ہے، مستقبل میں موسمیاتی تبدیلیوں کی بدولت زیادہ عام ہو سکتی ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے سبب دنیا بھر میں بارشوں کا پیٹرن اور بادلوں کا احاطہ تبدیل ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے اس میں تبدیلی کا امکان ہے کہ قوس قزح کب اور کہاں نظر آئے گی۔

خیال رہے کہ قوس قزح اس وقت بنتی ہے جب سورج کی روشنی فضا میں بارش کے قطروں سے گزرتی ہے، لہٰذا بارش میں کوئی تبدیلی ان کی تعدد کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اس کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے سائنسدانوں نے دنیا بھر کے لوگوں کی جانب سے جمع کروائی گئی قوس قزح کی تصاویر کا عالمی ڈیٹا بیس بنایا۔ اس کے بعد انہوں نے آب و ہوا اور موسمی حالات کی بنیاد پر قوس قزح کے واقعات کی پیش گوئی کرنے کے لیے کمپیوٹر ماڈل تربیت دیا۔ ماڈل کا تجربہ موجودہ آب و ہوا کے اعداد و شمار اور مستقبل کے تین ممکنہ آب و ہوا کے منظرناموں کے خلاف کیا گیا۔

گلوبل انوائرنمنٹل چینج میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے نتائج حیران کن تھے۔ قوس قزح دیکھنے کے لیے صحیح حالات کا جائزہ لیاجائے تو آج کرہ ارض پر اوسط زمینی محل وقوع ہر سال تقریباً 117 دن ہے۔ تاہم 2100ء تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی سطح کے لحاظ سے یہ تعداد اوسطاً 4 سے 5 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ قوس قزح کی تعداد میں یہ اضافہ دنیا بھر میں یکساں طور پر تقسیم نہیں ہوگا۔ امکان ہے کہ دنیا کے تقریباً 21 سے 34 فیصد زمینی حصے میں قوس قزح نہ دکھائی دے جبکہ 66 سے 79 فیصد علاقوں میں پہلے کی نسبت زیادہ قوس قح دکھائی دیں۔

سب سے زیادہ اضافہ سرد اور پہاڑی علاقوں میں متوقع ہے، جیسے کہ آرکٹک اور ہمالیہ، جہاں کم لوگ رہتے ہیں۔ دریں اثنا، کچھ آبادی والے علاقوں ایسے بھی ہیں جہاں قوس قزح کم نظر آ سکتی ہے۔

خاص رپورٹ سے مزید