محمد نادر شاد
انداز گفتگو اور لب و لہجہ ہماری معاشرتی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ روز مرہ معمولات کا مشاہدہ کریں توصبح سے شام تک ہم مختلف مَقامات پر مختلف لوگوں سے بات چیت کرتے ہیں اورمختلف قسم کی گفتگو اور لب ولہجے سنتے ہیں ۔ کوئی انتہائی نرم اور شائستہ گفتگو کرتا تو کوئی تلخ لہجے میں کرخت گفتگو کرتا۔
یہ انداز نوجوانوں میں کچھ زیادہ ہی نظر آرہا ہے ۔اُن کی بات چیت کا انداز ہی الگ ہے، نہ بات میں وزن نہ لہجے میں ٹہراؤ، نہ موقعہ محل کا لحاظ۔ نوجوان ذرا اپنے اندازِ گفتگو پر غور کریں ، ایسے بات کریں کہ مخاطب سُن کر بے اختیار آپ کا گرویدہ ہوجائے اور آپ سے دوبارہ بھی ملاقات کا خواہش مند ہو۔لیکن اس کے برعکس اگر وہی بات کرخت لہجے ، اکھڑ پن، نامناسب انداز میں کریں گےتو سننے والے کے دماغ پر ہتھوڑا بن کر برسے گی اور سننے والے پر آپ کا تاثر غلط پڑے گا۔ یونان کے عظیم فلسفی نے ہزاروں سال قبل گفتگو کے تین اصول اپنے شاگردوں کو بتائے تھے، تمام شاگرد اس پر عمل کرتے تھے۔ وہ گفتگو سے قبل ہر بات کو تین کی کسوٹی پر پرکھتے تھے۔
1۔ کیا یہ بات سو فیصد درست ہے،2۔ کیا یہ بات اچھی ہے 3۔ کیا یہ بات سننے والے کے لئے مفید ہے۔اگر وہ بات کسوٹی پر پوری اترتی تھی، تو وہ کسی جھجھک کے بغیر کہہ دیتے تھے ، اگر وہ ایک بھی کسوٹی پر پوری نہ اترتی تو وہ خاموش رہتے۔
آج ہمارے معاشرے کو بھی ان تین کسوٹی کی بہت ضرورت ہے,جہاں منہ پھٹ ہونا اب گویا تہذیب کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ والدین اس کو اپنے بچوں کی خود اعتمادی کہہ کر بد تہذیب اور گستا خ بنا رہے ہیں، چغل خوری، تہمت بیانی اور گمراہ کن باتوں کا دور دورہ ہے اور ہر فرد دوسرے پرزبان کے تیر چلانے کی تاک میں بیٹھا ہوا ہے۔
کس سے،کس وقت اور کس انداز میں کیا گفتگو کرنی ہے؟ یہ گُر سیکھنے سے آتا ہے۔ انسان جب بولتا ہے تو کبھی کسی کے دل میں اُتر جاتا ہے اور کبھی لوگوں کے دل سے اُترجاتا ہے ،لہٰذا ’’پہلے تولو پھر بولو‘‘ پر عمل کرنا چاہئے۔
اندازِ گفتگو کو بہتر بنانے کے لئے ہمیں کچھ باتوں کو اپنانا پڑے گا اور کچھ سے بچنا ہو گا۔ انداز گفتگو اور لب و لہجہ ہی تو تعلقات اور باہمی رشتے کو مضبوط یا کمزور کرتا ہے، لڑائی جھگڑوں کا آغاز ہی تہذیب و اخلاق کا دامن چھوڑنے کے سبب ہوتا ہے غیر شائستہ اور تلخ لہجہ زندگی میں زیر گھول دیتا ہے۔
بچے بڑوں سے ہی سیکھتے ہیں، ج جس اندازاور لب و لہجے میں آپ اپنے بچوں سے بات کریں گے بچے بالکل اسی طرح بات کرنا سیکھیں گے۔
وہ وقت گزر گیا جب چھوٹے بڑوں کا حکم سر آنکھوں پر رکھتے تھے ۔ آج نسلِ نو کو پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ آزادی اور سہولیات حاصل ہیں۔ زیادہ تر والدین کم و پیش ہر معاملے میں اپنے بچوں کی رائے کو اولیت دیتے ہیں، اس کے باوجود نوجوان بزرگوں سے پوچھنا تو درکنار مشورہ لینا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ والدین سے ادب سے دھیمے لہجے میں بات کریں، بیوی ، بچوں اور دوستوں سے مناسب الفاظِ، محبت آمیز انداز میں بات کریں۔اس طرز گفتگو میں آپ کا کچھ خرچ نہیں ہوگا،بلکہ دوسروں کے دل میں اثر دکھائے گا اوراگر کوئی ناراضی ہو ئی تو وہ بھی ختم ہوجائے گی۔
اسی طرح استاد اور شاگرد کے درمیان عزت اور احترام کا رشتہ ہوتا ہے۔ استاد طالب کے لئے ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے ۔اکثر بچے استاد کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس جیسا ہی بننا چاہتے ہیں، اس لیے اُن کا ہر عمل قابل تقلید ہونا چاہیے اگر استاد، شاگردوں سے غیر شائستہ لہجے میں با ت کریں گے تو ان کے شاگرد وہی کچھ سیکھیں گے۔ شاید اسی لیے کہا جا تا ہے کہ ’’گڑ نہ دو گڑجیسی با ت کرو‘‘۔ اس سے نہ صرف نوجوانوں کی شخصیت پرْکشش بنتی ہے، بلکہ عزت واحترام میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔
ہمارے معاشرے میں اگر کسی کو قسمت سے یا سفارش سے کوئی بڑا عہدہ مل جائے تو اس کی گردن اکڑ جاتی ہے آنکھیں پیشانی پر آجاتی ہیں۔ دماغ ساتویں آسمان پر چلا جاتا ہے گفتگو سے نرمی اور شائستگی کا عنصر ختم ہو جاتا ہے، اور ان تمام تبدیلیوں کا اثر سب سے زیادہ اس کے ماتحت کام کرنے والوں پر پڑتا ہے،جو ا اپنی نوکری اور اپنی عزت بچانے کے لئے سر جھکائے رکھتے ہیں، ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں،یہ کوئی درست عمل نہیں، کیوں کہ دل میں کوئی اُن کو اچھا نہیں سمجھتا۔
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بات کرنے سے پہلے غور و فکر کریں اور الفاظ کے انتخاب و استعمال میں محتاط رہیں ، تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ دانشوروں کا کہنا ہے کہ پرندے جال میں دانےاور انسان اپنی زبان سے پھنس جاتے ہیں ۔ آپ کا کوئی بھی عمل قابل تقلید اور قابل فخر ہونا چاہیے نہ کہ شرمسار کر دینے والا۔
کہتے ہیں کہ سچ کڑوا ہوتا ہےلیکن بعض موقعوں پر سچ کڑوا نہیں ہوتا ہے بلکہ سچ بولنے کا انداز کڑوا ہوتاہے،کڑوی سے کڑوی بات بھی اگر سلیقے،تہذیب و شائستگی سے کی جائے تو یہ بھی کانوں میں شہد کھول دیتی ہے۔