کامیابی کے لیے دو چیزوں سے محبت لازم ہے ایک منزل سے اور دوسرا منزل پر لے جانے والے رہبر و رہنما یعنی استاد ۔ دنیا کے تمام کاریگروں کے ہنر کو سلام، مگر وہ کاریگر عظیم ہے جو، مزید ایسے کاریگر پیدا کرے جو فن اور ہنر کو زندہ رکھیں ۔ ایسے کاریگر کو استاد کہتے ہیں۔ استاد بنیاد میں لگا پتھر ہوتا ہے،جس پر عمارت کھڑی ہوتی ہے ۔ ہم گنبد دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں، مگر بنیاد کا پتھر ہمیں نظر نہیں آتا ۔ منزل اور منزل پر لے جانے والے سے محبت جتنی خالص ہو گی کامیابی اتنی ہی کامل ہو گی ۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا،” جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا میں اسے اُستادکا درجہ دیتاہوں‘‘۔
ایک دفعہ ہارون الرشید نے ایک نابینا عالم کی دعوت کی اور خود ان کے ہاتھ دھلانے لگے۔اس دوران عالم سے پوچھا،آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے ہاتھوں پر پانی کون ڈال رہا ہے۔عالم نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر ہارون الرشید نے جواب دیا کہ میں نے یہ خدمت خود انجام دی ہے لیکن یہ سُن کر عالم دین نے کسی ممنونیت کا اظہار نہیں کیا، انہوں نے جواب دیا کہ ’’ہاں آپ نے علم کے احترام میں ایسا کیا ہے۔‘‘ ہارون الرشید نے جواب دیا،’’ بے شک یہی بات ہے‘‘۔
ہارون الرشید نے اپنے بیٹے مامون کو علم و ادب سکھانےکے لئے امام اصمعی کے سپردکیا۔ ایک دن وہ اتفاقاً ان کے پاس گئےتودیکھا کہ وہ اپنے پائوں دھو رہے ہیں اور شہزادہ پائوں پر پانی ڈال رہا ہے۔ہارون الرشید نے برہمی سے کہا،’’میں نے تواسے آپ کے پاس اس لیے بھیجا تھا کہ، آپ اسےآداب سکھائیں گے۔آپ نے شہزادے کو یہ حکم کیوں نہیں دیا کہ ایک ہاتھ سے پانی ڈالے اور دوسرے ہاتھ سے آپ کے پائوں دھوئے۔‘‘
استاد ایک انمول تحفہ ہوتے ہیں، جن کے بغیر انسان کی شخصیت ادھوری ہو تی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضور ؐ کو بحیثیت معلم بیان کیا اور خود نبی کریم ؐنے بھی ارشاد فرمایا کہ ” مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘
اُستاد کی عظمت و اہمیت اور معاشرے میں اس کے کردار پر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کہتے ہیں کہ ،’’اُستاد دراصل قوم کے محافظ ہیں، کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا ان ہی کے سپرد ہے‘‘۔ایک اُستاد چیزوں کے بارے میں صرف بتاتا ہے،جبکہ ایک اچھا استاد اس کی وضاحت کرتا ہے اور بہترین اُستاد عملی طور پر کرکے دکھاتا ہے۔
آج کے اساتذہ کرام کی اکثریت کو پرکھا جائے تو ہمیں مادیت پرستی کا غلبہ واضح نظر آئے گا۔ بلاشبہ دور جدید میں مادیت پرستی ہر معاشرے اور شعبہ میں گھر کر چکی ہے، لیکن کچھ شعبہ اور ان کے ذمہ داران کے لئے مادہ پرستی جیسی اصطلاح کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔ استاد معاشرہ کا وہ حصہ ہے جہاں اخلاقی اقدار کو بام عروج نصیب ہوتا ہے۔ آج ایک پولیس مین کے آنے سے پورا محلہ کانپ اٹھتا ہے۔مجسٹریٹ کا رعب و دبدبہ کپکپی طاری کر دیتا ہے۔لیکن اساتذہ جن کی محنت ،کوشش اور شفقت سے ان کے شاگرد بالا عہدوں پر فائز ہیں اْن کی قدر شاگردکرنے سے قاصرہیں۔ (ڈاکٹرمحمد اعظم رضا تبسم* کی کتاب ’’کامیاب زندگی کے راز‘‘سے نتخاب)
متوجہ ہوں!
قارئین کرام آپ نے صفحہ ’’نوجوان‘‘ پڑھا آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضوعات پر لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کرکے شائع کریں گے۔
ہمارا پتا ہے:
انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،
اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔