آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر کے جانب سے سندھ میں ڈاکو راج کے خاتمہ کے لیے کی جانے والی کوششیں رنگ لارہی ہیں اور اپر سندھ کے وہ علاقے جو بد امنی کے آگ میں جل رہے تھے اور رات تو کیا دن ڈھلے بھی اغواء عام بات تھی اب اغواء برائے تاوان کی وارداتیں کم سے کم ہوتی جارہی ہیں۔اس سلسلے میں آئی جی سندھ مشتاق مہر جی جانب سے جوحکمت عملی اپنائی گئی، اس کے نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں۔
اس سلسلے میں گزشتہ دنوں ایس ایس پی شکار پور تنویر حسین تنیو نے بتایا کہ آئی جی سندھ کی جانب سے انہیں ڈاکو راج کے خاتمہ کے لیے جو ٹاسک ملا، وہ میرے لیے چیلنگ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ نواب شاہ سے شکار پور تبادلہ کے بعد میں نے دیکھا کہ کچے کے علاقے کے علاوہ عام شاہراہیں بھی محفوظ نہ تھیں اور سر شام سفر کرنا محال اور ہر وقت لوگوں کو اغواء ہونے کے خدشات درپیش تھے ۔
انہوں کے کہا کہ میرے سامنے ڈاکوئوں کے گروہوں کی سرپرستی میں ایسے نام سامنے آتے تھے کہ یقین نہیں آتا تھا، لیکن اب ان کا کہنا تھا کہ صورتِ حال یہ ہے کہ لوگوں کی پورے ضلع میں آزادانہ آمد ورفت ہے اور ڈاکو جو کہ آزادی سے پھرتے تھے، اب پولیس سے چھپتے پھر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کا سہرا آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر کے سر ہے۔ تاہم ہم اب بھی چوکنا ہیں، کیوں کہ جرائم پیشہ لوگ اور مجرمانہ سوچ کے حامل افراد کی ہر وقت یہ کوشش ہوتی ہے کہ جرم کے لیے فضاء ہر وقت سازگار رہے، جب کہ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ جُرم کو روکنے اور مجرموں کی سرکوبی کے لیے ہر وقت تیار رہے ۔
ادھر اس بارے میں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ سندھ میں بدامنی کی آگ میں جلنے والے اضلاع میں امن و آتشی لانے والے سندھ پولیس کے سربراہ مشتاق احمد مہر نے نوجوان نسل کو ہیروئن اور چرس کے بعد سب سے زیادہ خطر ناک اور بھیانک نشہ گٹکا ، مین پوری،ماوا،Z-21،جس کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل، جس میں بچے اور بچیاں چاہے وہ اسکول کالج کی سطح کی ہوں یا دیگر طبقات سے ان کا تعلق ہو مبتلا اور کینسر کے مرض میں جکڑ کر موت کی وادی میں اتر رہی ہیں ،جب کہ اس سلسلے میں سول سوسائٹی کی جانب سے اس کے خلاف بھرپور آواز بھی اٹھائی گئی اور مطالبات کیے گئے کہ اس زہر کی فروخت پر فی الفور پابندی لگائی جائے اور مبینہ طورپر اس کی سرپرستی کرنے والے محکمہ پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کی گو شمالی کر کے اس انسانیت دشمن کاروبار کے خاتمہ کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں۔
عوام کی جانب سے ان مطالبات کے بعدآئی جی سندھ مشتاق احمد مہر کی جانب سے سندھ دھرتی کو اس برائی سے پاک کرنے کے لیے جو حکمت عملی اختیار کی گئی۔ اس کے بہترین نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس بارے میں ایس ایس پی ضلع شہید بینظیر آباد امیر سعود مگسی نے جنگ کو بتایا کہ آئی جی سندھ نے صوبہ کے تمام ڈویژن جن میں کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص،بینظیر آباد،لاڑکانہ، سکھر شامل ہے کے تمام اضلاع کے ایس ایس پی کو اپنے ضلع کے بہ جائے کسی دوسرے ضلع میں نشہ آورگٹکا ،مین پوری ، ماوا،Z-21،کی فروخت کو بند کرانے اور اس کاروبار میں ملوث افراد کو قانون کے شکنجے میں کسنے کے لیے چھاپہ مارکارروائیوں کا ٹاسک دیا گیا۔
ایس ایس پی امیر سعود مگسی نے بتایا کہ انہیں کراچی کے ایک ضلع کا ٹاسک ملا، جہاں وہ ڈیوٹی کر کے آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے اس ضلع میں بہت بڑی تعداد میں نہ صرف یہ مضر صحت نشہ آور زہرکی بہت بڑی تعداد پکڑی، بلکہ اس کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف درجنو ں ایف آئی آر درج کرواکر انہیں قانون کے حوالے کیا، جب کہ دوسری جانب آئی جی سندھ آفس سے جاری ہونے والے اعداد و شمارکے مطابق سندھ بھر سے منشیات ،گٹکا ،انڈین گٹکا،مضرِ صحت چھالیہ و دیگر نشہ آور اشیاء کی روک تھام میں ناکامی کا نوٹس لیتے ہوئے چھ ایس ایچ او کو معطل کر دیا گیا۔
جن میں ایس ایچ او تھانہ بولا خان کے انسپکٹر آدم ابڑو،ایس ایچ او حالہ انسپکٹر غلام سرور خاصخیلی ، ایس ایش او بلدیہ کیماڑی انسپکٹر محمد اشفاق ،ایس ایچ او ٹنڈو اللہ یار،انسپکٹر ساون خان،ایس ایچ اوتھانہ بی سیکشن شہید بینظیر آباد اقبال وسان اور ایس ایچ او تھانہ بلڑی شاہ کریم قمر دین شامل ہیں، کو معطل کردیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ سندھ میں اس طرح کے جرائم کے خلاف ا ب تک جو کوشش اور کاوش کی جاتی رہی ہیں، اس میں موجودہ آئی جی سندھ مشتاق مہرکی جانب سے کیے جانے والے اقدامات بہتر ثابت ہوسکتے ہیں۔
شرط یہ ہے کہ محکمہ پولیس کے ایمان داراور فرض شناس افراد آگے آئیں اور اس مشن کو جو کہ آئی جی مشتاق مہر نے شروع کیا ہے، جاری رکھیں تاکہ قوم کے نونہال انسانی زندگی کے لیے زہر ثابت ہونے والی اشیاء سے بچ سکیں۔