• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یورپی معاشرے میں قوم پرستی،حب الوطنی اور فرقہ وارانہ عوامل نے سماج میں فخرو احساس سے مزین برتری کے جذبات ابھارے جنہوں نے سب سے پہلے سترویں صدی میں تیس سالہ فرقہ وارانہ فسادات اور پھر پہلی و دوسری جنگوں نے پورے یورپ میں تباہ کاریوں کو جنم دیا۔ایک قوم کے ہیرو دوسری قوم کے لئے وِلنبن گئے لیکن اس معاشرے نے رفتہ رفتہ مشترکہ تاریخ کے زریعے نفرت اور تعصب کو دور کیا۔عہدِ وسطیٰ میں جب تک چرچ کا غلبہ رہا سماجی تبدیلی عقائد کے زیراثر ہی رہی مگر تحریک نشاۃ ثانیہ اور اصلاحی تحریک مذہب کے بعد سماج، فکری بنیادوں اور انفرادی آزادی کی اہمیت سے روشناس ہوا۔دنیا بھر میں مورخ ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ ماضی اور حال کے درمیان ایک مکالمہ کرکے سماج کی تشکیل کی جائے لیکن اس کے برعکس ہندوستان میں مذہبی خیالات کی وجہ سے تاریخ کے اس عمل پر ذرا برابر توجہ نہیں دی گئی اور دنیاوی معاملات کی بجائے روحانی ترقی کوزیادہ اہمیت حاصل کرگئی۔برہمنوں کا یہ نظریہ تھا کہ دنیا بہت قدیم اور زوال پذیر ہے،مافوق الفطرت قوتیں انسان کی تقدیر بدلتی ہیں ۔ یوں نظریات نے تاریخی فکر اور سماجی تبدیلی کے عنصر کو ابھرنے نہ دیا ۔پاکستان میں بھی ضیاالحق نے آمریت کے استحکام کے لئے مذہبی نظریات کو استعمال کیا جس سے جمہوری اداروں اور روایات کا قلع قمع ہوا۔پاکستان کی74 سالہ تاریخ میں حکمران طبقوں نے ان اوصاف اور قدروں کو کبھی عقائد اور کبھی حب الوطنی کی یلغار کے تئیں دائمی بنانے کی کوشش کی، جواُن کے مفاد میں ہوتے تھے۔

دانشوروں کا خیال ہے کہ پاکستان جیسا سماج آگے بڑھنے کی بجائے ایک دائرے میں ہی گردش کر رہا ہے جس کا منظر پچھلے پندرہ دنوں میں پنجاب کے بڑے شہروں لاہور،گوجرانوالہ ،گجرات اوروزیرآباد میں دیکھنے کو ملاجہاں سڑکیں ،تعلیمی ادارے اور بازار بند رہنے کی وجہ سے زندگی معطل ہو گئی۔اقتصادی طور پر سماج کو تقریبا ایک ارب سے زائد کا نقصان ہوا۔پولیس اور دھرنا دینے والوں میں جھڑپیں ہوتی رہیں جس پر وزیراطلاعات اور وزیر داخلہ نے دھرنا دینے والوں کوحسبِ روایت دہشت گرد اور بھارت نواز قرار دیا ۔پھر اچانک مفتی منیب الرحمن اور مولانا بشیر فاروقی میدان میں آئے اور حکومت کی بجائے کہیں اور مذاکرات کرتے ہوئے ایک دس نکاتی معاہد ہ تشکیل دیا جس کے نکات کو خفیہ رکھا گیا۔ایک طرف عمران خان دھرنا دینے والوں کے خلاف سختی سے نمٹنا چاہتے تھے تو دوسری طرف بقول مفتی منیب الرحمٰن کہ مجھے فون کرکے اس معاملے کو حل کرنے کے لئے گزارش کی گئی اورچونکہ سیاستدان تو معاملات خراب کرکے پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں اورمعاملات کی خرابی کی تمام ترذمہ داری قومی سلامتی کے اداروں پر پڑتی ہے اس لئے ان مسائل کا حل افہام و تفہیم کے ذریعے ہی نکالا گیا۔سینئر صحافی نجم سیٹھی کے بقول اس تمام مذاکراتی عمل کا وزیراعظم کو علم ہی نہیں تھا کیونکہ وہ کابینہ کے وزرا کو بتا چکے تھے کہ تحریک انصاف کی حکومت دھرنا دینے والوں کے ساتھ سختی سے نبٹے گی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں آئین کی بالادستی اور سویلین سپرمیسی کے اہداف حاصل کرنے میں بہت وقت لگے گا۔ وزیر اعظم عمران خان کو کم ازکم اپنی پارٹی کے ان اراکین کے خلاف سختی سے ایکشن لینا چاہئے جو دھرنا دینے والوں کے ساتھ انتخابی اتحاد کا عندیہ دے رہے ہیں۔ ان فسادات میں جو دس پولیس اہلکار مارے گئے ان کے گھروں کے مناظر دیکھ کر آنکھوں کو آنسوئوں سے تر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتالیکن ان سب کے خلاف بھی تحریک انصاف کی حکومت نے مقدمات واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے اگر یہ سب کچھ یونہی جاری رہا تو اس سے سماج میں تشدد، نفرت اور تعصب کو تقویت ملے گی جس کی پوری ذمہ داری تحریک انصاف کی حکومت پر آئے گی۔یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان فیض آباد دھرنے کے شرکاء کے مطالبات کی ہمیشہ حمایت کرتے رہے ہیں جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نہ صرف اس دھرنے کو غیر قانونی قرار دیا تھا بلکہ سپریم کورٹ کے ججوں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک ایسا تاریخی فیصلہ بھی صادر کیا تھا جس میں ایسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے حکومت کو دورس تجاویز دی گئی تھیںمگر حکومت نے کبھی ان فیصلوں پر کان نہیں دھرا۔ یہی وجہ ہے کہ آج عمران خان کے وزرا کنفیوژ اور بے بس نظر آرہے ہیں لیکن مقتدرہ اپنی تنظیم اور نظم و ضبط کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس صورتحال سے بہتر طور پر پیش آئی بلکہ سیاسی حکومت کی بے بسی کو بھی عوام پر پوری طرح عیاں کردیا۔

آج ہندوستان اور پاکستان میں سماجی تنزلی اور اکیسویں صدی کی روایات کے ساتھ نہ چلنے کی اصل وجہ فرقہ واریت،بنیادپرستی اور تعصب ہے جسے حکمران اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لئے استعمال کرتے ہیں جبکہ یورپین سوسائٹی اس کے برعکس اپنے عوام کے ساتھ فلاحی ریاست کے عوامل کو اجاگر کرکے ترقی اور کامرانی کو چھو رہی ہے۔آج وقت کی اہم ضرورت ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے حکمران دانشوروں سے مل کر ایسی بحث کا آغاز کریں کہ حقائق اپنی جگہ رہیں لیکن شعور کی بدولت ایسی تاریخ تشکیل دی جائے جو حکمرانوں ،آمروں اور مذہبی گروہوں کے چھپے مفادات کو عوام کے سامنے لائے تاکہ یورپ کی طرح ہمارے ہاں بھی سیاست،مسلک ،قوم پرستی ،انصاف کے اداروں اور قومی سلامتی کے ڈپارٹمنٹ کسی بھی قیمت پر سماجی مفادات سے بالاتر نہ ہوپائیں۔

تازہ ترین