• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ سفر نامہ آج سے 26 سال قبل لکھا گیا تھا، لیکن آج بھی اُتنا ہی دل آویز ہے، جتنا اُس وقت تھا کہ روایات کے امین، ترک عوام نے گزشتہ 26 برسوں میں ترقّی تو خُوب کی، مگر ان کے رہن سہن ، رسوم و رواج اور اقدارو روایات میں قطعی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اکتوبر 2021ء میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے تُرکی جانا ہوا، تو 1995ء کا وہ سفر بہت یاد آیا۔ اسی لیے سوچا کہ کیوں نہ قارئین کے ساتھ بھی وہ ساری یادیں شیئر کی جائیں۔اِن شاء اللہ، آئندہ دِنوں میں تُرکی کے مہ وسال کی گردش اور تبدیلیوں کاسفر نامہ بھی پیش کروں گی۔

1995ء میں جب تُرکی کے صدر، رجب طیّب اردوان استنبول کے مئیر منتخب ہوئےاور میرے والدِ محترم، قاضی حُسین احمد نے بوسنیا کے حل کی تجاویز پیش کی تھیں، تو تہران اور استنبول میں بوسنیا کانفرنسز میں انہیں مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعوکیا گیا اور ہم بھی اُن کی ہم راہی میں نکل کھڑے ہوئےکہ کافی عرصے سے ایک شوق دل میں انگڑائیاں لے رہا تھاکہ اگر کبھی ممکن ہو، تو پاکستان سے باہر بھی مختلف ممالک میں رہنے والی اقوام کی تہذیب و ثقافت کا مشاہدہ کیا جائے اوران کے متعلق معلومات اکٹھی کر کے ذہن کا کینوس وسیع کیا جائے۔ 

اس شوق کی تکمیل میں ہماری سب سے پہلی منزل ایران کا دارلحکومت، تہران ٹھہری ۔ کراچی سے اپنے مُلک کی سلامتی کی دُعا کرتے اور دعائے سفر پڑھتے ہوئے جہاز میں سوار ہوئے کہ’’اے اللہ! اس سفر کو ہمارے لیے نیکی ، تقویٰ اور اپنی رضا میں زندگی گزارنے کے سبب میں اضافے کا باعث فرما ۔‘‘پی آئی اےکی مہمان نوازی کا لطف اُٹھاتے ہوئے، قریباًتین گھنٹے بعد تہران ائیرپورٹ پر اُترے ۔جہاں ایک عظیم تہذیب اور عظیم الشّان اسلامی انقلاب کے پاس داران ہمیں لینے آئے ہوئے تھے ۔ان کے استقبالیہ کمرے ایرانی آرائش کے بہترین نمونے تھے ۔ 

ائیرپورٹ کی حدود سے باہر نکلے، تو ایک خوش گوار اور دِلوں کو موہ لینے والا منظر دیکھا کہ پانچ ،چھے سال کی عُمر سے بڑی ہر لڑکی اور خاتون حجاب میں ملبوس زندگی کے ہر شعبے میں کام کے لیے جارہی ہے۔ یہ دیکھ کر ایک عجیب سا احساسِ تفاخر محسوس ہوا۔ کچھ ہی دیر بعد جب اپنی قیام گاہ پہنچے، تو ہمارے میزبانوں نےمہمان نوازی میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ تہران کے وزارتِ خارجہ کے دفتر میں کام کرنے والی نوجوان خانم انتظاری ہماری میزبان تھیں۔ ان سے ایرانی خواتین اور ان پر انقلاب کے اثرات کے بارے میں باتیں ہورہی تھیں، تو پوچھا کہ’’ خواتین کو یہ حجاب بوجھ تو محسوس نہیں ہوتا ؟‘‘

جس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’’ہر معاشرے میں اچھے اور بُرے عناصر پائے جاتے ہیں اور چوں کہ ہماری تہذیب شاہ کے زمانے میں مغربی اثرات سے بُری طرح پامال اور آلودہ کی گئی، اسی لیے کچھ لوگ ہیں ، جنہیں یہ حجاب بوجھ محسوس ہوتا ہے، مگر ایرانی خواتین کی عظیم اکثریت برضا و رغبت حجاب پہنتی ہے۔‘‘پھر ہمیں پتا چلا کہ شاہ کے زمانے میں، جو تہران،نائٹ کلبز اور شراب و جوئےکا مرکز تھا، اب الحمدُ للہ مکمل طور پر ان لعنتوں سے پاک ہو چُکا ہے ۔

ابھی ہم باتوں میں مصروف تھے کہ ایران ٹائمز کے ایڈیٹر بھی آگئے، جن سے ہماری ملاقات پہلے ہی سے طے تھی۔ اُنہیں پاکستان سے متعلق بہت تشویش تھی کہ’’ جب وہاں فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں ، توہم بہت دل گرفتہ ہو جاتے ہیں ، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ ہم نےانہیں تسلّی دی کہ ’’اِنشاء اللہ پاکستانی عوام، دشمن کی سازشوں کا شکار ہو ںگے اورنہ ہی ایران کے ساتھ برسوں سے قائم برادرانہ تعلقات کسی صُورت مجروح ہوں گے۔‘‘ 

انہوں نے مسلمانوں پر ذرایع ابلاغ کے اثرات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’میڈیا پوری طرح ہنودو یہود کے قبضے میں ہے اور یہ انتہائی تشویش کی بات ہے کہ ایران میں لوگ دوسروں کے بارے میں اتنا علم نہیں رکھتے، مگر زی ٹی وی اوراسٹار پلس کی بدولت انہیں بھارتی اداکاروں کی پوری معلومات رہتی ہے۔

یہ ہمارے لیےلمحۂ فکریہ ہے،جس پر مسلمانوں، بالخصوص پاکستان کو کچھ سوچنا چاہیے۔‘‘ پھر ہم نے اُن کے دفتر کے سارے شعبے دیکھے اور بڑی خوشی ہوئی کہ با حجاب خواتین زندگی کے ہر میدان میں انتہائی فعال ہیں ، بلکہ وہاں ایک مرد رکن نے ازراہِ مذاق کہا کہ’’ اسلام کی وجہ سے آپ خواتین ہی کا راج ہےکہ ہم تو ہر جگہ دوسرے درجے میں آتے ہیں‘‘ اور واقعی یہ حقیقت بھی ہے کہ اسلام نے عورت کو اتنا بلند مرتبہ اورعزّت و احترام دیا ہےکہ مسلمان گھرانوں میں زیادہ تر اُن ہی کا راج نظر آتا ہے ۔

اس کے بعد تہران کے دو قابلِ ذکر مقامات ، امام خمینی ؒ کا مزار اور شہدائے انقلاب کا قبرستان ’’ بہشتِ زہرا‘‘ دیکھے، جہاں جا کر یہی دُعا مانگی کہ’’یا اللہ! جس انقلاب کے لیے ان تمام لوگوں نے سر دھڑ کی بازی لگا ئی، اُسے صحیح رُخ پر رکھنےاور اس مشن کی تکمیل کے لیے ایرانی عوام کی حفاظت فرمانا اور ان کا حامی و ناصر رہنا ۔آمین‘‘وہاں سے فارغ ہو کرخریداری کے لیے بازار کا رُخ کیاکہ شاپنگ کے بغیر تو ایک عورت کا کسی بھی نئی جگہ کا دَورہ مکمل ہی نہیں ہو سکتا۔

بازار میں ہم نے دیکھا کہ جو چیز سب سے زیادہ فروخت ہو رہی ہے اور جس سے بازار بھرے پڑے ہیں ،وہ ایرانی خواتین کے کوٹ اور اسکارف ہی تھے ۔ قریباً ساری ہی دُکانیں نِت نئے انداز کےلانگ کوٹس اور رنگ برنگے اسکارفس سے بھری پڑی تھیں۔ ویسے ایک بات ہے کہ ایرانی اشیاء تہران کی نسبت کوئٹہ میں سستی ملتی ہیں، اس لیے اگر کسی نے ایرانی مال کی شاپنگ کرنی ہو ، تو کوئٹہ کے بازاروں کا رُخ کریں۔

تہران شہر بہت زیادہ پلاننگ کے ساتھ آباد کیاگیا ہے ۔جہاز سے جب شہر کا منظر دیکھا ، توپورا شہر بلاکس کی صُورت دکھائی دیا۔ گوکہ عمارتوں کی ظاہری خُوب صُورتی پر توجّہ نہیں دی گئی ، مگرگھروں کی آرائش دیکھ کر ایرانی عورتوں کی حسِ آرائش کی داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ ایک حیرت انگیز چیز یہ دیکھنے میں آئی کہ سارے گھروں کی چھتوں پر ائیر کولرز رکھے ہوئے تھے۔ یعنی ہمارے ہاں،جو ائیر کولرز کھڑکیوں اور کمروں کے اندر لگائے جاتے ہیں، وہ یہاں چھتوں پر رکھ کر پائپ کے ذریعے ٹھنڈی ہوا کمروں تک پہنچائی جاتی ہے ۔ صفائی کا یہ عالم کہ چھتیں تک دُھلی ، اُجلی نظر آتی ہیں، کوڑے کرکٹ کا تو کہیں نام و نشان تک دکھائی نہیں دیا۔ 

پتا ہی نہیں چل رہا تھا کہ یہ لوگ صفائی کر کے کوڑاآخر پھینکتے کہاں ہیں۔ ہمارے کمروں کی صفائی کے لیے آنے والی خاتون بھی با حجاب اور انتہائی مہذّب تھیں۔ یہ سب دیکھ کر دل بہت مچلا کہ’’ اے کاش! پاکستان میں بھی ایسا ہی ہو ۔‘‘ تہران میں قیام کے دوران ایرانی بہن ،بھائیوں نے مہمان نوازی کی جو روایت قائم کی ،وہ آج بھی تازہ ہے۔ خیر، شب کی آخری ساعتوں میں ہم ٹرکش ایئر لائن کے ذریعے تہران سے استنبول کے لیے جہاز پر سوار ہوئے، تودل بہت سی خوش گوار یادوں سےلب ریز تھا،مگر جہاز میں سوار ہوتے ہی ایک انتہائی دل خراش منظر دیکھا کہ جن خواتین نے مجبوری کے تحت ایرانی سر زمین پر حجاب اوڑھے ہوئےتھے۔

انہوں نے اندر آتے ہی رومال اور اسکارفس اُتارنے شروع کر دئیے۔ ہم سفر نے کہا کہ’’ ابھی تو آپ دیکھیں کہ کیا کیا اُترے گا‘‘ اور وہی ہواکہ جو ںجوں وقت گزرتا گیا،جامے ایک ایک کر کےاُترتے اُترتے برائے نام ہی رہ گئے اورہم عورت کی اس تذلیل پر شرمندہ ہو کر اپنے آپ سے بھی نظریں چرانے لگے۔ بہرحال، استنبول ائیرپورٹ پراُترے ،تو اُس خواب کی تعبیر پا لی ،جو بچپن سے سوتے جاگتے دیکھا کرتے تھے کہ ملّتِ اسلامیہ کی عظمت کا نشان اور ہمارے آبائو اجداد کا مسکن ( ہم ترک کے سلجقہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں)ہماری نظروں کے سامنے تھا۔ یہ وہ سر زمین تھی، جو آٹھ سو سال تک اسلامی سلطنت کا مرکز رہی ،جس کی عظمت و جلال اور شکوہ و ہیبت نے دنیا پر اپنا دَبدبہ قائم کررکھا تھا۔ یہاں پہنچ کر دو قسم کی انتہائیں دیکھیں ،ایک طرف تو مغربی معاشرے میں سرتا پا غرق لوگ اوردوسری جانب اسلامی روایت اور اپنی عظمت کے امین لوگ۔

تُرکی میں پہلے ہی دن شراب کی بوتلوں سے بھری سوزوکیاں ، ٹرکس اور ان کے ٹی وی چینلز دیکھ کر بہت ہی مایوسی اور افسوس ہواکہ یہ کیسا مسلمان مُلک ہے ۔ ملّتِ اسلامیہ کا المیہ یہی ہے کہ یہاں اسلام سے محبت کرنے والے عوام کی اکثریت کے باوجود، اقتدار مغربی پٹھوؤں کے ہاتھ ہوتا ہے ، جو اپنے اپنے مُلک کو سیکولر ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زورلگا دیتے ہیں ۔ لیکن وہاں پر ترکی کی تحریکِ اسلامی کی میزبان خواتین نے ہمیں بہت اطمینان دلایا کہ ’’اِن شاء اللہ تعالیٰ ترکی جلد اُمتِ مسلمہ کی عظمت کا نشان بن کر اُبھرے گاکہ ابھی حال ہی میں تُرکی کے اہم شہروں کے بلدیاتی انتخابات میں اسلام پسند ہی جیتے ہیں ۔‘‘اور اس کا ثبوت انہوں نے ہمیں بوسنیا کے مسئلے پر منعقدہ ایک جلسے میں شرکت کا موقع دے کر پیش کیا ۔ 

جلسہ کیا تھا، ایک لاکھ سے زائد پُرجوش تُرک نوجوان نسل کے جذبات کے اظہار کی ایک ادا تھی، جو مدّتوں احساسات کے اُفق پر چھائی رہے گی ۔استنبول کے ایک وسیع و عریض پارک میں لوگ، دنیا بھر سے آئے تحریکِ اسلامی کے قائدین کے استقبال کوموجود تھے۔ یہاں ایک بات کی بڑی خوشی ہوئی کہ دعوتی اور عوامی پروگرامزکو ’’ترک تحریکِ اسلامی ‘‘ ایک فیملی افیئرکے طور پر رکھتی ہے ، جہاں ماں باپ ، بہن بھائی ، بچّے،رشتے دارسب شریک ہوتے ہیں ۔ 

لاتعداد مَردوں کو، ایک بچّہ کاندھے پہ اُٹھائے، ایک کا ہاتھ تھامےاور بچّے کی پرام دھکیلتی بیوی کوجلسہ گاہ میں ساتھ لاتے دیکھا۔ ایک ایک عورت کے ساتھ دو دو ،تین تین بچّے تھے۔تُرک بہن نے بتایا کہ ’’اس طرح ہم اپنے تمام خاندان کو اسلام کے آفاقی پیغام سے رُوشناس کرواتے ہیں اور ہم اپنے خاندانوں میں اجنبی نہیں ہوتے، سب ایک دوسرے کی معاونت کر رہے ہوتے ہیں ۔‘‘اس نے مزید بتایا کہ ہمارے مرد یہاں کے شراب خانوں اور نائٹ کلبزتک جا کر لوگوں کو قرآن سناتے ہیں ۔ 

اسکرٹس میں ملبوس ننگی ٹانگوں والی خواتین جب قرآن کے مزاج سے آشنا ہوتی ہیں ، تو پھر ان سے زیادہ پاکیزہ عورت کوئی نظر نہیں آتی ۔ یہ ہماری باتیں بڑے غور سے سُنتی اور سمجھ کر ہمارے ساتھ شریک ہوتی ہیں۔‘‘جلسہ گاہ میں نوجوانوں کے پُر جوش نعرے روح میں تلاطم برپا کر رہے تھے۔ ہمیں تُرکی زبان توسمجھ تو نہیں آرہی تھی، مگر جذبات کی کوئی زبان نہیں ہوتی۔دنیا بھر کے قائدین ِکرام اپنی اپنی زبانوں میں تُرکی کی عظمتِ رفتہ کی داستان سُنا کر تُرکوں کی نسلِ نو کے جذبات کے سمندر میں طوفان برپا کر رہے تھے۔

آغا جان نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ ’’برّصغیر میں خلافتِ عثمانیہ کے ختم ہونے پر صفِ ماتم بچھ گئی تھی، مگر علّامہ اقبال نے ہمیں اُس وقت یہ خوش خبری دی تھی کہ؎ اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے…کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا۔ اور آج الحمدُللہ، وہ سحر نمودار ہوتی نظر آرہی ہے۔ ‘‘اس پر جلسہ گاہ کی ہر سمت سے ایک ہی آواز سنائی دی کہ ’’استنبول اسلام کا تھا، اسلام کا ہے اور اِن شاء اللہ اسلام ہی کا رہے گا۔‘‘ اسی طرح ایک رہنما نے کہا کہ ’’استنبول کی بیٹی کی عزّت و عِصمت اور حیا ختم کرنے کے لیے ساری دنیا نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا، لیکن اس نے حجاب کا دامن مضبوطی سے تھام کر یہ ثابت کیا کہ وہ اس قوم سے تعلق رکھتی ہے، جس نے یورپ اور ایشیاکے بہت بڑے حصّے پر حکومت کی ہے۔ 

جس نے صلیبی حملہ آوروں کا زور توڑا ہے، وہ عثمانیوں اور سلجوقیوں کی نشانی ہے۔‘‘یہ سُنتے ہی پورے جلسہ گاہ سے حجاب میں ملبوس خواتین کا ٹھاٹیں مارتا سمندر کھڑا ہو گیا اور اس رہنما کو جواب دیا کہ’’ ہم اس بات کی تائید کرتی ہیں۔‘‘اسی طرح رات گئے تک مختلف رہنماؤں کی تقریریں ہوتی (جاری ہے)

تازہ ترین