• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس سوال پرغور کرنا اور اس کا تجزیہ کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ پہلے پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں اور خاص طور پر چُنے ہوئے مواقع پر آنجہانی بال ٹھاکرے جو کردار ادا کرتے تھے وہ اب حکمران کانگریس نے سنبھال لیا ہے۔ نئی دہلی میں پاکستانی سفارت خانے پر دھاوا اس کردار کی ایک مثال جبکہ پاکستانی بارڈر سے کچھ ہی کلو میٹر دور امرتسر کے علاقے میں دوستی بس سروس کا گھیراؤ اس کا دوسرا ثبوت ہے۔ اس وقت بھارت کے مختلف علاقوں میں کانگریس کی جانب سے ان مظاہروں کی سرکاری سرپرستی اور مظاہرین کے ساتھ پولیس کا انتہائی دوستانہ برتاؤ کئی سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ کیا کانگریس کی لیڈر شپ الیکشن مہم کو ”کک آف“ کرنے کے لئے ہندو اکثریت کے جذبات سے کھیل رہی ہے…؟ واقعات اس سطحی تجزیئے کی تائید نہیں کرتے۔ بھارتی میڈیا ظاہر ہے کانگریس سمیت کسی ایک جماعت کی کھلی اور اجتماعی سرپرستی نہیں کر سکتا۔ ہاں البتہ اسے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا اشارہ اور تائید ہو تو وہ یک زبان ہو جاتا ہے۔ آج کل ایسا ہی ہو رہا ہے۔ بھارتی میڈیا میں ممبئی حملہ طرز کے وقوعہ کے ”امکانات“ پر خوب خیال آرائی کی جا رہی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر کئی ماہ سے جاری بھارتی وارداتی کارروائیاں وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کے ارادوں کو سمجھنے کے لئے ناکافی نہیں ہیں۔ اب ان دست درازیوں کی رفتار میں اضافہ دُنیا بھر کو حیران کر دینے کے لئے کافی ہے اور اس حیرانی کا ثبوت مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں مغربی سفارت کاروں کی تیز رفتار سرگرمیوں سے ملتا ہے۔ بھارتی رائے عامہ کو متاثر کرنے والی کچھ آوازیں اور حلقے کہتے ہیں کہ اس دفعہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے چلے جانے کے بعد ہم افغانستان کو پاکستان کا ”بیک یارڈ“ یعنی مکان کا پچھواڑہ نہیں بننے دیں گے۔ اگر امریکی صدر اوباما کے اس بیان کو بھی سامنے رکھا جائے جس میں امریکی صدر نے مارچ 2014ء کے بعد افغانستان میں عسکری طور پر ”صفر موجودگی“ کا ارادہ ظاہر کیا تھا تو پھر بھارتی میڈیا کے پاکستان کے خلاف موجودہ پاگل پن کے چھپے عزائم کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔مجھے ذاتی طور پر نہ تو بھارت کے ساتھ باعزت مذاکرات پر کوئی اعتراض ہے، نہ برابری کی سطح پر تعلقات پر اور نہ ہی بھارت کے ساتھ مساوات پر مبنی کاروبار کے حوالے سے کوئی مسئلہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بھارت سے اچھے تعلقات پاکستانی حکمرانوں کی خواہش یا خوشامد کے بدلے بھیک میں مانگے جا سکتے ہیں؟ میں ریاستی سطح پر اس طرزِ عمل کا ناقد بھی ہوں اور مخالف بھی۔ تصادم کے حوالے سے میرے خیالات میں کبھی ابہام نہیں رہا۔
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی؟
پاکستانی قوم کی ساری پُرامن تمناؤں کے ساتھ ساتھ پاک بھارت تعلقات کی تاریخ کو بھولنا ہمارے لئے اجتماعی خودکشی جیسا ہو گا۔ بھارت نے 1948ء میں ہی اپنی طرف سے غزوہٴ ہند کا آغاز کر دیا تھا۔ جس کی دوسری قسط رن آف کچھ کے بعد چونڈہ ،بیدیاں اور چٹاگانگ کے محاذوں پر لڑی گئی۔ اس کے محض چھ سال بعد 1971ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے ذریعے بھارت نے عسکری مہمات کا معرکہ مکمل کر لیا لیکن ہندوستان کے اندر ”اکھنڈ بھارت“ کا خواب دیکھنے والوں نے پاکستان پر نہ ختم ہونے والے آبی جارحیت کے حملے شروع کر دیئے۔ ان مسلسل حملوں کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ پنجاب کے تاریخی دریا ستلج اور بیاس سوکھ چکے ہیں جبکہ راوی آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ جہلم کو سرنگوں کے ذریعے نالے میں تبدیل کرنے کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ کشن گنگا اور بگلیہار کے بعد ریتل ڈیم چناب کو بے آب کرنے کے لئے آبی جارحیت کے سلسلے کا حتمی اور آخری وارہے۔
ہمارے ہاں ایک اور خوفناک غلطی بھی ہوئی اور وہ یہ کہ افغانستان پر حملے میں یار لوگوں نے نیٹو افواج کی شمولیت پر سارا فوکس مرکوز رکھا مگر یہ ظالمانہ غفلت اور ستم ظریفی پر مبنی رویہ تھا جس کی وجہ سے کسی نے افغانستان کی سرزمین پر امریکہ اور بھارت کی”پارٹنر شپ“ نما گٹھ جوڑ پر توجہ ہی نہیں دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگر 2014ء میں کچھ امریکی افواج یا سارے امریکی افغانستان کو چھوڑ جائیں تب بھی امریکہ اس برادر پڑوسی ملک کی چھاتی پر بھارت کے ذریعے بھاری پتھر کی صورت میں پڑا رہے گا۔
حامد کرزئی کے زمانے میں افغانستان کے اندر سے دریائے کابل کا پانی روکنے کی منصوبہ بندی بھارت کے انہی ذہنوں میں تیار ہوئی جنہوں نے پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کا نظریہ دریافت کیا تھا۔ بھارت آخر کیا چاہتا ہے؟ اس کو سمجھنے کیلئے راکٹ سائنس کی نہیں بلکہ کامن سینس کے استعمال کی ضرورت ہے۔ ایسا کامن سینس جس کی بنیاد بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے ٹریک ریکارڈ پر مبنی ہو۔ یہ ٹریک ریکارڈ سمجھوتہ ایکسپریس کے ریلوے ٹریک پر سے ڈھونڈا جائے یا ممبئی کے تاج ہوٹل کی راکھ سے تلاش کیا جائے اور یا پھر اسے بھارتی پارلیمان پر مسلح حملے سمیت افضل گورو کی بلا جواز پھانسی کے تناظر میں دیکھا جائے۔ ہر جگہ بھارت کے سرکاری گواہ چیختے نظر آتے ہیں کہ دہشت گردی کے وہ واقعات جن کے ذریعے پاکستان کو دہشت گرد معاشرہ اور بدمعاش ملک ثابت کرنے کی عالمی مہم چلائی گئی دہشت و وحشت کی ان وارداتوں کے کلاکار، ڈیزائنر، پترکار، ہدایت کار اور فنکار سب بھارتی اہلکار تھے۔ آزاد کشمیر کی حکومت اور لیڈروں کو پروٹوکول اور نجی لندن یاترا سے کبھی فرصت ملے تو وہ اپنا گریبان میں جھانکیں اور سوچیں کہ ان کی شاہانہ زندگی پر خرچ ہونے والے اربوں روپے کا حاصل کیا ہے؟ اور کیا بھارت کے اندر سے پاکستان پر ہونے والی اس سہ رخی جارحیت کے جواب میں اُنہیں برطانیہ اور مغرب میں اپنے اثرورسوخ کو آواز دینی چاہئے یا نہیں؟ کشمیری خوش ہیں کہ وہ پاکستان میں بھی صاحبِ اقتدار ہو گئے ہیں لیکن بھارت کے مقابلے میں پاکستانی لیڈروں کے مِن مِناتے ہوئے بیان اور التجائیہ کلمات کس کا مورال بڑھا رہے ہیں؟ چنگ چی رکشے کی طرح چلنے والی ہماری وزارتِ خارجہ کی ایڈہاک لیڈر شپ کہاں ہے؟ چاہئے تو یہ تھا ،بھارت کو کوئی کہتا کہ ہم اچھے پڑوسی ہیں مگر کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔ ہزار سال تک بھی ہم شہ رگ کسی کے ہاتھ میں نہیں دیں گے مگر بھارتی گٹکا، چھالیہ، آلو اور ٹھنڈا دھنیا ،اس قدر صاحبِ تاثیر ہے کہ اس کے مقابلے میں کھیوڑہ کا نمک کیا بیچتا ہے؟ بھارت کیا چاہتا ہے میں نے آپ کو کھل کر بتا دیا ہے۔ پاکستان کیا چاہتا ہے یہ ہمیں کون بتائے گا، اور کب بتائے گا؟
کشمیر کے ایک بہادر فرزند شورش کاشمیری نے ایک اور عظیم فرزند علامہ اقبال کے مزار پر کھڑے ہو کر ”اقبال نے کہا“ کے عنوان سے ایک قومی نوحہ یوں بھی کہہ رکھا ہے:
کب تک اُٹھیں گے عرصہ گیتی سے شہریار؟
کب تک رہے گی جرأتِ اظہار تشنہ کام؟
اس سوچ میں پڑا تھا کہ اقبال نے کہا
ہے مجھ پہ واشگاف ترے شوق کا مقام
یہ سب مآل ِ گردش لیل و نہار ہے
اس قوم کو بنا کے خدا شرمسار ہے
تازہ ترین