• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلامی معاشرے میں امن سلامتی اور اخوت و اجتماعیت کی اہمیت

ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری

ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ مسلمان تو سب آپس میں بھائی بھائی ہیں سو دو بھائیوں کے درمیان صلح کرادیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو، تاکہ تم پر رحمت کی جائے‘‘ ۔(سورۃا لحجرات)

اس آیت میں پروردگار عالم نے ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے باہمی تعلق اور رشتہ بیان فرما یااور دونوں کے درمیان اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں صلح کرانے کی تلقین فرمائی اور باہمی تعلقات کو نبھانے میں اللہ سے ڈرتے رہنے کا حکم دیا اور دو مسلمانوں کی آپس میں صلح کروانے اور تعلقات کو نبھانے میں خوف خدا سے کام لینے کو موجب رحمت قرار دیا۔

درحقیقت دین اسلام ایک بہت پیارا دین ہے ، اس کے مادہ میں ہی امن و سلامتی اور صلح و صفائی کا معنی موجود ہے۔ سین، لام اور میم پر مشتمل سَلْم، لفظِ اسلام کا مادہ ہے بمعنی صلح و صفائی اوراَمن و سلامتی، اسی سے لفظ مُسلِم ہے، بمعنیٰ امن و سلامتی کا پیکر۔

چنانچہ اس دین نے اپنی آمد کے بعدایک دوسرے کے خون کے پیاسے کو آپس میں بھائی بھائی بنادیا ،صدیوں پرانی دشمنیوں کو گہری دوستی میں تبدیل فرما دیا ، سورۂ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور باہم نااتفاقی مت کرو اور تم پر جو اللہ کا انعام ہے، اسے یاد کرو، جب کہ تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے ،پس اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، سو تم اللہ کے فضل سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے‘‘۔مومنوں کے باہمی تعلق کو خود حضور اقدسﷺ نے اپنے ارشادات کے ذریعے مزید واضح انداز سے بیان فرمایا ہے۔

مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ مومن سراپا محبت والفت ہے۔ اس شخص میں کوئی خیر نہیں جو نہ کسی سے الفت رکھتا ہے اور نہ کوئی اُس سے انسیت رکھتا ہے‘‘۔

صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت انس ؓسے روایت کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں بن سکتا، جب تک کہ اپنے بھائی مسلمان کے لئے وہی نہ چاہے جو اپنے لئے چاہتا ہے‘‘۔

سنن ابو داؤد میں رسول اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے ’’ ایک مومن دوسرے مومن کاآئینہ ہے اورایک مومن دوسرے مومن بھائی کابھائی ہے۔ اس کے ضررکواس سے دفع کرتاہے اوراس کے پیچھے اس کی پاسبانی اورنگرانی کرتا ہے‘‘۔

صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے پانچ حقوق ہیں:۱۔ سلام کا جواب دینا ،۲۔ مریض اور بیمار کی عیادت کرنا، ۳۔ جنازہ کے ساتھ چلنا،۴۔ دعوت قبول کرنا ،۵۔ چھینکنے والے کے "الحمد للہ" کہنے پر اسے"یَرحَمُکَ اللہ" کہنا۔

حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے صحیح مسلم میں ایک روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:’’سارے مسلمان (ایک اللہ، ایک رسول اور ایک دین کو ماننے کی وجہ سے) ایک شخص (کے اعضاء و بدن) کے مانند ہیں کہ اگر اس کی آنکھ دکھتی ہے تو اس کا سارا جسم بے چین ہوجاتا ہے اور اگر اس کا سر درد کرتا ہے تو پورا بدن تکلیف محسوس کرتا ہے۔ (اس طرح ایک مسلمان کی تکلیف سارے مسلمانوں کو محسوس کرنا چاہیے)‘‘۔

جبکہ متفق علیہ حدیث میں مسلمان کی تعریف کے حوالے سے عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’مسلمان تو وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کی تکلیف) سے دوسرا مسلمان سلامت و محفوظ رہے‘‘(اس طرح ایک مسلمان کی تکلیف سارے مسلمانوں کو محسوس کرنی چاہیے)‘‘۔

لیکن آج ہم دین اسلام کی ان بہترین تعلیمات اور حضور اقدسﷺ کے پیارے ارشادات کے باوجود کیا کررہے ہیں؟ کس طرف جارہے ہیں؟آج نہ تو کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کی اذیت و تکلیف سے محفوظ ہے ،اور نہ ہی اس کا مال اور جان و آبرو محفوظ ہے ۔درحقیقت آج مسلمان ، مسلمان ہی نہیں رہا ، کیونکہ ہماری پہچان تو صرف مسلمان تھی ، لیکن ہم مذہبی اور سیاسی بنیادوں پر تفرقہ بازی کا شکار ہوگئے، ہم گروہ در گروہ بٹتے چلے گئے ،اور صرف ذاتی نظریات کے اختلاف کی بناء پر ایک دوسرے کے قتل کو جائز سمجھ لیا، قومیت اور عصبیت کی آڑ میں تمام انسانی معاشرتی قدروں کی دھجیاں اڑادیں، مسلمان ہونے پر فخر کرنے کے بجائے برادری کی حمایت اور نسل پرستی کو فخر و تفاخر کا باعث ٹہرادیا اور اس میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ نبی پاک ﷺکے اس ارشاد کو بھی فراموش کردیا، جسے سنن ابو داؤد میں حضرت جبیر بن مطعمؓ سے روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو لوگوں کو عصبیت کی طرف بلائے اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں ہے جو عصبیت کی خاطر جنگ و جدال کرے اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں ہے جو عصبیت کی خاطر لڑتا ہوا مارا جائے۔‘‘

بہرحال ہم سب کو اللہ کی رسی کو مل کر مضبوطی سے تھامنا ہوگا ،آپس کے بے جا اختلافات کو بھلانا ہوگا، بغض و عناد، کینہ وحسد اور نفرت وعداوت کے جذبات سے اپنے دل و دماغ کوپاک کرنا ہوگا۔ آخر کار قرآن کو حَکم بنانا ہوگا، نبی اکرمﷺ کے پاک ارشادات کو سینے سے لگانا ہوگا ،ورنہ دشمن کے ختم کرنے سے پہلے ہم خود لڑ مر کر اور کٹ مر کر ختم ہو جائیں گے ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ہماری حالتوں پر رحم فرمائے اور سوئی ہوئی قوم کو بیدار فرمائے اور انہیں ہوش کے ناخن لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

تازہ ترین