غربت مہنگائی اور بے روزگاری نے جہاں دیگر جرائم میں اضافہ کیا ہے، وہیں معاشرے میں ضروریات زندگی کو پُورا کرنے کے لیے ادھار نہ ملنے پر سُود پر قرض لینے والوں کی زندگی اجیرن، جب کہ اسی سُود خوری کی لعنت نے معاشرتی مسائل کھڑے کردیے ہیں ۔ ایک زمانہ تھا کہ محلے میں اگر کوئی سود خور معروف ہوجاتا تھا تو پورا محلہ اس کا معاشرتی بائیکاٹ کرکے اسے، نکو، ،بنادیتے تھے، نہ تو کوئی اس کو شادی بیاہ میں بلاتا بلکہ موت میت میں بھی اس کی شرکت کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔
سُود خوری کے بارے میں حُکم ہے کہ سود لینے دینے والا جہنمی حتی کہ اس کی دستاویز لکھنے والا بھی اسی زمرہ میں آتا ہے، چوں کہ اسلامی شریعت اور قرآن و حدیث میں اس کی سختی سے ممانعت ہے اور یہی وجہ ہے کہ انگریز سرکار نے اس سلسلے میں یہ قانون بنایا تھا کہ ایک تو سُودی کاروبار کرنے والوں کو رجسٹرڈ کرکے انہیں لائسنس جاری کیے اور سالانہ فیس مقرر کرکے سرکاری ریونیو میں اضافہ کیا۔
دوسری جانب چوں کہ اس کاروبار کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا، اس لیے مسلمانوں کو نہ تو اس کاروبار کی اجازت تھی اور نہ ہی انہیں لائسنس جاری کیا جاتا تھا۔ تاہم اب جب سے مائکرو فنانس کے نام سے سیاسی اثر رسوخ رکھنے والوں کو بینک کھولنے کی اجازت ملی، تو غیر مسلم کی شرط بھی اڑادی گئی اور جھاڑیوں کی طرح گلی گلی محلہ محلہ مائکرو فنانس بینک وجود میں آگئے اور اس کے ذریعہ لوگوں کو بُری طرح سود کے جال میں جکڑ لیا گیا، بلکہ بات صرف مائکرو فنانس بینکوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ این جی اوز نے بھی اس میدان میں اپنے کمالات دکھائے اور تئیس فی صد سود پر اربوں روپیہ قرض دے کر پورے معاشرے کو سود کی لعنت میں مبتلا کردیا اور سُود کی ایک قسم یہ بھی دیہی علاقوں میں معروف ہے کہ کھڑی فصل نصف دام میں جس کو کچی بول کہا جاتا ہے اور اس طرح کپاس گنا گندم سرسوں اور دیگر فصلیں قرض دینے والے کے حوالے کردی جاتی ہیں اور اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ فصل اترنے کے بعد سودی قرض اتار کر فصل پر لگایا گیا سرمایہ بھی نہیں اتر پاتا اور آباد کار کو گھر چلانے اور دوسری فصل لگانے کے لیے پھر سودی قرض کا سانپ اپنے گلے میں ڈالنا پڑتا ہے۔
اس کے علاوہ اب سود خوری کی ایک نئی قسم کاروں اور موٹر سائیکلوں پر قرض دینے کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ اس میں واقفان حال کے مطابق کار اور موٹر سائیکل شوروم والے بالفرض کسی ضرورت مند کو بیس لاکھ روپیہ مالیت کی کار دے رہے ہیں تو اس کا ایگریمنٹ اس طرح کرتے ہیں کہ اس کار کے خریدار کو گاڑی کی بجائے نقد رقم دے کر اس سے بیس لاکھ مالیت کی کار چھ ماہ کی ادھار پر پچیس فی صد نفع کے ساتھ سوا چھبیس لاکھ کی لکھوا کر اس سے ایگریمنٹ کے علاوہ دستخط شدہ بلینک چیک بھی لے لیے جاتے ہیں، تاکہ عدم ادائیگی کی صورت میں اس کے خلاف ایف آئی آر درج کراکر پولیس کی مدد سے رقم کی وصولی کی جاسکے۔
جب کہ اس طرح کے قرض میں جکڑے ایک سفید پوش شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر جنگ کو بتایا کہ اس نے کار کا ایگریمنٹ کرکے نقد رقم لی تھی اور چھ ماہ میں نہ دے سکا تو شوروم مالکان نے چھ ماہ بعد دوسری کار کا ایگریمنٹ اس طرح دوسال میں چار ایگریمنٹ کرکے کاغذات میں مجھے چار کاریں دے دیں اور بیس لاکھ کے عیوض مجھے ایک کروڑ روپیہ کا مقروض کردیا اور چیک پاس نہ ہونے پر میرے خلاف ایف آئی آر درج کراکر مجھے پولیس کے ذریعہ گرفتاری کی دھمکیاں دے کر اپنی جمع پونجی بیچنے پر مجبور کردیا۔
اس سلسلے میں گزشتہ دنوں قاضی احمد کے ایک زمیندار کے خلاف قرض دینے والے نے عدم ادائیگی پر پرچہ کراکر اس کو اشتہاری بننے پر مجبور کردیا، جب کہ حالیہ دنوں قاضی احمد شہر میں ہی سود کی رقم واپس نہ کرنے پر سود خوروں کے دباؤ کو برداشت نہ کرنے پر پرائمری استاد کی خودکشی کا افسوس ناک واقعہ بھی پیش آیا تھا، جب کہ ایک سرکاری ملازم کی رقم واپس نہ کرسکنے پر سود خوروں کے تشدد کی وجہ سے ہلاکت اور اس کے اہل خانہ کے مظاہرے بھی کو ئی پرانی بات نہیں ہے۔
اس سلسلےمیں ضلع شہید بے نظیر آباد میں پولیس یا عدالت کے حُکم پر درج ایف آئی آر کی بڑی تعداد اور ملزمان کی گرفتاری اور رقوم کی وصولی کے مطالبات اور بااثر افراد کی جانب سے بڑھتے ہوئے دباؤ نے پولیس کے لیے بھی مسائل میں اضافہ کردیا۔
اس بارے میں سینئر سپریٹنڈنٹ آف پولیس کیپٹن ریٹائرڈ امیر سعود مگسی نے بتایا کہ سُود خوری کی لعنت نے جہاں لوگوں کو مسائل سے دوچار کیا ہے، وہیں پولیس کی درد سری میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کی بنیادی ذمے داری معاشرے میں جرائم کا خاتمہ اور امن وامان کا قیام ہے، لیکن ان کا کہنا تھا، تھانے سے لےکر ایس پی آفس تک پولیس کے تمام دفاتر آفس کھلنے سے بند ہونے تک سودی لین دین کے تنازع کو سلجھانے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔
اس بارے ان کا کہنا تھا کہ ہر سود پر رقم دینے والے کی یہ خواہش رہتی ہے کہ پولیس اس کی ذاتی فورس کا کردار ادا کرکے رقم واپس دلائے یا اس کو سود دہندہ کی جانب سے درج ایف آئی آر کی بناء پر گرفتار کرکے معاشرے میں نشان عبرت بنائے ایس ایس پی امیر سعود مگسی نے بتایا کہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہم نے سُود کے خاتمہ اور غیر قانونی سود خوری کے خلاف مہم کا آغاز کیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا کہنا تھا کہ پہلے قدم کے طور پورے ضلع میں سود خوری کے خلاف قرآن کی آیات پر مبنی بینرز آویزاں کرانے کے علاوہ علماء اکرام کو جمعہ کے خطبات میں سودی لین دین کے خلاف قرآن کے احکامات اور اس کے مضمرات کو اجاگر کرنے، جب کہ سود کو معاف کرکے اصل رقم وصول کرنے پر بشارات پر روشنی ڈالنے کی درخواست کی ہے۔
ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا تھا کہ ضلع کے تمام تھانوں کے ایس ایچ اوز کو غیر قانونی طور پر بلالائسنس سودی کاروبار کرنے والوں کی فہرستیں بھی جو کہ مخفی طور پر بنائی گئیں ہیں، فراہم کردی گئیں ہیں، جب کہ پولیس افسران کے اجلاس انہیں سود خوروں کے خلاف کارروائی کے ٹاسک دیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کارروائی سے امید ہے کہ سود خوری کے رجحان میں کمی واقع ہوگی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کے تمام ذمے دار افراد حلقے چاہے ان کا کسی بھئ طبقے سے تعلق ہو، آگے آئیں اور اس خیر کے کام میں پولیس کا ساتھ دیں تاکہ سود خوری جیسی برائی، جس کو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ قرار دیا گیا ہے کا خاتمہ ہوسکے۔ ادھر اس بارے میں رابطہ کرنے پر ممتاز عالم دین مفتی عقیل احمد قریشی نے کہا کہ سود کے خلاف پولیس کی مہم ایک مستحسن اقدام ہے اور علماء اکرام بھی اس خیر کے کام میں پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ اور اس مہم کی کام یابی کے لیے دعاگو ہیں۔