بات چیت: طارق ابوالحسن
72 سالہ انجینئر گلبدین حکمت یار کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اُن کی زندگی جدوجہد سے عبارت ہے۔ پہلے روس اور پھر امریکا اور اُس کی اتحادی فوجوں کے خلاف جدوجہد کرتے رہے۔ دو مرتبہ افغانستان کے وزیرِ اعظم رہے۔ اُنھوں نے اپنے11 ساتھیوں کے ساتھ مِل کر کابل یونی ورسٹی میں طلبہ تنظیم قائم کرکے اقامتِ دین کی جدوجہد کا آغاز کیا اور پھر 1976 ء میں سیاسی تنظیم ’’ حزبِ اسلامی‘‘ تشکیل دی، جو افغانستان میں اسلامی نظام کے قیام کے لیے مصروفِ عمل ہے۔ اُن کے والد اور بھائیوں کو کمیونسٹ دورِ حکومت میں جیل میں قتل کیا گیا، مگر اس کے باوجود وہ اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔ افغانستان سے سوویت یونین کی پسپائی میں حزبِ اسلامی کا بنیادی کردار تھا۔ طالبان اپنے پہلے دورِ حکومت میں حزبِ اسلامی اور حکمت یار کے شدید مخالف رہے۔
اسی سبب وہ طویل عرصے تک بیرونِ مُلک رُوپوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ مگر افغانستان میں غیر مُلکی فوجوں کے خلاف حکمت یار اور طالبان نے مشترکہ جدوجہد پر اتفاق کیا اور بعض مواقع پر ایک دوسرے کا ساتھ بھی دیا۔ نیز، حکمت یار افغانستان میں سیاسی عمل کا حصّہ رہے اور سابق صدر، اشرف غنی کے خلاف صدارتی الیکشن میں حصّہ بھی لیا۔ تجزیہ کاروں کا اِس امر پر اتفاق ہے کہ مستقبل کے سیاسی منظرنامے اور افغانستان کے استحکام میں ان کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
جیو نیوز کے نمائندہ ٔخصوصی نے گزشتہ دنوں افغانستان کا دورہ کیا، جس کے دوران انجینئر گلبدین حکمت یار سے اُن کی رہائش گاہ پر ملاقات کی، جس میں افغانستان، خطّے اور عالمی امور پر تفصیلاً بات چیت ہوئی۔ اِس نشست کا احوال جنگ، سنڈے میگزین کے قارئین کی نذر ہے۔
س: آپ کی جماعت جمہوری مزاج رکھتی ہے، جب کہ طالبان جمہوریت کو نہیں مانتے، تو افغانستان میں جمہوریت پسند جماعتیں کس طرح کام کریں گی؟
ج: طالبان اور ہم اسلامی نظام کے حامی ہیں اور دونوں اسی کے لیے متحرّک ہیں۔البتہ، مختلف اسلامی احکام کی تشریحات اور تعبیرات پر دونوں کے درمیان اختلافِ رائے ہوسکتا ہے۔اگر طالبان بھی ملّتِ اسلامیہ کی اکثریت کی یہ رائے تسلیم کرلیں کہ حکومت کا انتخاب عوام کا حق ہے،یعنی انتخاب کا عمل قوم کی امنگوں کے مطابق ہو پھر اُسے چاہے، جو بھی نام دے دیا جائے، تو یہ ایک بہتر طرزِ عمل ہوگا۔
اگر دیکھا جائے، تو چاروں خلفائے راشدینؓ عوامی رائے ہی سے اقتدار میں آئے اور عوامی اجتماعات میں اُن کے ہاتھ پر بیعت کی گئی۔ ہمیں اِس سے قبل تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی، لہٰذا ہم اسی طریقے کی پیروی چاہتے ہیں۔ ہم نے قرآن و حدیث،صحابۂ کرامؓ کے طریقے اور فقہ کا مطالعہ کیا ہے، ان سب میں اسی بات پر زور دیا گیا ہے کہ حکم رانوں کے انتخاب کا حق عوام کے پاس ہے۔ہم اُمید رکھتے ہیں کہ اِس معاملے پر طالبان اور ہمارے درمیان کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
س: کیا افغانستان میں ایک سے زاید سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کی اجازت دی جائے گی؟
ج: کیوں نہیں۔ اسلام میں بہت سے فقہی گروہ ہیں اور ہر ایک کی اپنی بنیاد، نظریات ہیں اور ہم ان سب کو تسلیم بھی کرتے ہیں کہ وہ اسلام پر یقین رکھتے ہیں۔ دراصل یہ فقہی اختلافات باقاعدہ سیاسی بنیاد رکھتے ہیں، تو جب ہم اُنھیں تسلیم کرتے ہیں، تو اُن کی سیاست کو بھی تسلیم کرنا ہوگا۔ مَیں کہتا ہوں کہ اسلام تو خود ایک سیاسی دین ہے۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا کوئی مذہب غیرسیاسی نہیں تھا۔
س: طالبان کی سابقہ حکومت کا اندازِ سیاست بہت زیادہ متنازع رہا، کیا نئی حکومت میں یہ انداز تبدیل ہوگا اور اگر تبدیل نہیں ہوا، تو کیا افغانستان خانہ جنگی سے محفوظ اور متحد رہ سکے گا؟
ج: اِن شاء اللہ تعالیٰ افغانستان خانہ جنگی، تقسیم اور سازشوں سے محفوظ رہے گا۔ اب کے بار پرانے حالات نہیں ہوں گے۔ گزشتہ بیس برس سے افغانستان کو اچھی حکومت نہیں ملی۔ مُلک میں جنگ، قحط اور بھوک تھی۔افغان قوم اب یہ سب نہیں چاہتی۔ مجھے یقین ہے کہ طالبان نے طویل عرصے کے دَوران بہت کچھ سیکھا ہوگا۔ ان میں مثبت تبدیلیاں ظاہر ہو ہو رہی ہیں۔ہماری خواہش کہ طالبان ماضی سے ہٹ کر نئی پالیسیز بنائیں تاکہ مُلک خانہ جنگی اور افغان قوم تقسیم سے بچ سکے۔
س: طالبان نے موجودہ سیٹ اَپ کو عبوری قرار دیا ہے۔ آپ مستقبل میں طالبان کی کیسی حکومت دیکھ رہے ہیں، کیا وہ وسیع البنیاد ہوگی؟
ج: پچھلی حکومت گرنے کے بعد ایک خلا سامنے آیا۔ اشرافیہ کے فرار ہونے کے بعد اداروں میں خلا پیدا ہوا۔ اگر حکومتی نمائندے فرار نہ ہوتے، تو ایسے حالات پیدا نہ ہوتے۔طالبان خلا بَھرنے پر مجبور تھے، اسی کی لیے اُنہوں عارضی حکومت قائم کی، تاہم میری خواہش ہے کہ آنے والی حکومت بااختیار ہو اور اسے نئے اساسی قانون تک موجود رہنا چاہیے۔ایسی نئی حکومت ضروری ہے، جسے افغان عوام کی اکثریت کی تائید حاصل ہو۔
س: حزبِ اسلامی طالبان کی حمایت کررہی ہے، ایسا کیوں ہے؟
ج: اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے بڑے اہداف طے کیے ہیں۔ جنگ کا خاتمہ اوّلین ترجیح تھی۔ غیر مُلکی فوجوں کا انخلا، آزادی، استقلال اور خود مختاری ہمارے اہداف تھے۔ ہم بیرونی حمایت یافتہ ،کم زور حکومت کا خاتمہ چاہتے تھے، ایک ایسی حکومت، جس کا بانی اور حامی امریکا خود یہ تسلیم کرتا تھا کہ دنیا میں کم زور ترین حکومت افغانستان کی ہے، تاہم اب اس حکومت اور جنگ کا خاتمہ ہوچُکا ہے۔جنگ میں روانہ تین سو افغانی مارے جاتے تھے، کچھ ناپاک چہرے جنگ کے حامی تھے، جنہیں سوویت یونین کے حملے سے لے گزشتہ 20سال تک اختیارات دے کر عوام پر مسلّط کیا گیا۔ ان افراد کو بڑے اعزازات اور میڈلز سے نوازا گیا ۔
کسی کو قومی جنرل کا لقب دیا گیا، تو کسی کو صدی کا سب سے بڑا مفکّر ٹھہرایا گیا، لیکن وہ سب ختم ہوگئے۔ یہاں اقتدار کے مستقل جزائر بنے ہوئے تھے، جیسا کہ پنج شیر کو اسلحے کا ایک بڑا ڈپو بنایا گیا۔ سوویت یونین سے بچا ہوا اسلحہ اور امریکی جنگ کے دَوران بھی لاتعداد میزائلز اور گولا بارود وہاں منتقل کیا گیا۔
بیرونی آلہ کار، کرپٹ عناصر سے مِل کر افغانستان کا نظام تہہ و بالا کر رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بہتر نظام کے لیے طالبان کی حمایت کر رہے ہیں۔ اگر طالبان کابینہ کا گزشتہ حکومتوں سے موازنہ کریں، تو یہ نسبتاً بہترین کابینہ ہے۔ ہم طالبان کی غیرمشروط حمایت کرتے ہیں اور یہ حمایت شراکتِ اقتدار کے لیے نہیں ہے۔
س: امریکا، افغانستان سے نکل تو گیا ہے،لیکن کیا اُس نے افغانستان کی جان بھی چھوڑی ہے یا اب بھی مسئلہ بنا ہوا ہے؟
ج: امریکا اب بھی افغانستان کے لیے ایک مسئلہ ہے۔وہ یہاں سے نکل تو گیا، لیکن افغانستان سے ہاتھ اُٹھانے کو تیار نہیں۔ امریکا کو یہاں ذلّت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے وہ اپنی حیثیت جبراً بحال کروانا چاہتا ہے اور انتقام کے لیے کوشاں ہے۔امریکا، افغانستان پر دوسری جنگ مسلّط کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔امریکا کہتا ہے کہ اُسے افغانستان پر حملے کے لیے طالبان سمیت کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ امریکی وزیرِ دفاع نے کہا کہ وہ افغانستان کے پڑوس میں فوجی اڈّے بنانا چاہتے ہیں۔
وہ پاکستان سے فوجی اڈّوں کی درخواست بھی کر چُکا ہے، لیکن پاکستان اس کے لیے تیار نہیں۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ امریکا نے افغانستان سے ہاتھ نہیں اُٹھایا۔ وہ چاہتا ہے کہ افغانستان کے اطراف یعنی وسط ایشیائی ممالک میں بیٹھ کر یہاں دخل اندازی کرے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکا، افغانستان کو ایک اسٹریٹیجک مہم کی نظر سے دیکھتا ہے۔وہ افغانستان میں مستقل قبضے کے لیے آیا تھا اور اُس سے فائدہ اٹھا کر پورے ایشیا پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ وہ یہاں سے چین اور روس کے خلاف بھی بہت کچھ کرنا چاہتا تھا۔
س: طالبان کو حکومت میں آئے کئی ماہ ہوچُکے، لہٰذا اب اُن کی کارکردگی سے متعلق سوالات پوچھے جا رہے ہیں، تو کیا اِس طرح کے سوالات منصفانہ ہیں؟
ج: یہ منصفانہ نہیں۔ہم طالبان کو وقت دیں گے اور قوم کو بھی یہی کہا ہے۔ہماری پہلی ترجیح افعانستان میں امن ہے تاکہ طالبان حکومت کے لیے مسئلے کھڑے نہ ہوں۔ امریکا تباہ حال افغانستان چھوڑ کر گیا ہے۔ 10 لاکھ سے زاید افغانی مارے گئے، 60 لاکھ بیرونِ ممالک پناہ گزین ہیں۔30 لاکھ افغانی اپنے ہی مُلک میں بے گھر ہیں، بچّے یتیم اور خواتین بیوہ ہوگئیں۔
امریکا نے افغانستان میں ایسا اقتصادی نظام متعارف کروایا، جس میں آدھی آبادی کو تن خواہیں دی گئیں، لیکن اُن کے لیے کوئی صنعت نہیں لگائی گئی۔ عوام کو تن خواہوں کا عادی بنایا، لیکن اُن کے لیے فیکٹریز لگائیں اور نہ روزگار کے مواقع پیدا کیے۔ اب بینکس خالی ہیں۔جنہوں نے افغانستان کو لُوٹا، امریکا نے اُن کو پناہ دی۔ وہ بے حساب ڈالرز اپنے ساتھ لے گئے ہیں، جو امریکی بینکس میں پڑے ہیں۔سو، طالبان سے چند ماہ کے اندر ان مسائل کے حل کی توقّع غیر مناسب ہے۔
س: چمن اور طور خم سرحد بار بار بند ہوجاتی ہے، اِس ضمن میں پاکستان کی طرف سے کیا اقدامات ہونے چاہئیں تاکہ افغان قوم کے مسائل کم ہوسکیں؟
ج: مَیں نے وزیرِ اعظم، عمران خان اور پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر سے بارڈر کے مسئلے پر بات کی ہے۔ مَیں نے اُن سے پوچھا کہ آپ تو دونوں ممالک کے درمیان یورپی طرز کا سرحدی نظام قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ آمدورفت آسان ہو،مگر اب روزانہ ہزاروں شہری سفارت خانے جاتے ہیں اور ویزے کے باوجود اُنھیں سرحد پار نہیں جانے دیا جاتا، کبھی طور خم اور کبھی اسپن بولدک پر رَش لگا ہوتا ہے۔
مَیں اِس مسئلے کے حل کے لیے پُرامید ہوں۔ طالبان نے افغان قوم اور پاکستانی حکومت کو سرحدوں پر نرمی لانے کی یقین دہانی کروائی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ تمام اسلامی ممالک ایک دوسرے کے لیے سرحدی قوانین میں یورپی ممالک کی طرح نرمی لائیں۔یورپ میں ایک ہی کرنسی چلتی ہے اور اسلامی ممالک کو بھی اس طرح کا نظام متعارف کروانا چاہیے۔عمران خان سے بہت اُمید ہے اور اُنہوں نے مسئلہ حل کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔
س: کہیں ایسا تو نہیں کہ افغانستان، امریکا کے تسلّط سے نکلنے کے بعد علاقائی طاقتوں، چین اور روس کے تسلّط میں جا رہا ہے؟
ج: مجھے اُمید کہ دنیا کا کوئی بھی مُلک افغانستان میں امریکا اور روس جیسی غلطیاں نہیں دُہرائے گا۔ امریکا نے یہاں آنے سے پہلے مجھے پیغام بھیجا کہ’’ ہم افغانستان آرہے ہیں، اِس بارے میں آپ کیا مشورہ دیں گے؟‘‘ مَیں نے انہیں یہ غلطی کرنے سے منع کرتے ہوئے سوویت یونین کی غلطیوں سے سبق لینے کو کہا۔
مَیں نے کہا،’’ ہوسکتا ہے کہ آپ کابل کا کنٹرول حاصل کرلیں، لیکن اُسے سنبھال نہیں سکیں گے۔ آپ ایک طویل جنگ میں چلے جائیں گے اور انجام سوویت یونین جیسا ہوگا۔ ‘‘امریکا نے کہا،’’ ہماری اَنا کا مسئلہ ہے کیوں کہ ہم پر تاریخ کا سب سے بڑا حملہ ہوا ہے اور ہم اپنی ساکھ بحال کرنا چاہتے ہیں اور اگر ہم افغانستان آئے، تو آپ کا موقف کیا ہوگا کہ طالبان ہمارے مشترکہ دشمن ہیں؟‘‘ مَیں نے اُن سے کہا کہ ’’اگر تم آئے، تو تمہارے خلاف جہاد کا اعلان کرکے اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔‘‘
آج بھی سب کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ روس، امریکا اور نیٹو کا تجربہ نہ دہرائیں، بالخصوص بھارت کو میرا یہی مشورہ ہے، کیوں کہ اُس نے ماضی میں سوویت یونین کا ساتھ دیا تھا۔اُس وقت اقوامِ متحدہ نے ہماری حمایت کا اعلان کیا، لیکن بھارت نے سوویت یونین کا ساتھ دیا۔وہ یہاں امریکا اور نیٹو کے ساتھ بھی بیس سال تک کھڑا رہا۔ مجھے یقین نہیں کہ چین اور روس، امریکا اور نیٹو کی طرح افغانستان پر قبضے کے لیے آئیں گے۔ہاں، مجھے یہ غم کھائے جارہا ہے کہ ماسکو، برطانیہ، ایران اور عرب ممالک نے داعش کے نام پر جو جنگ مسلّط کی، وہ کہیں افغانستان میں شروع نہ کردی جائے۔
س: افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود پاکستانی علاقوں پر حملے ہو رہے ہیں، کیا نئی حکومت ان حملوں کی روک تھام میں سنجیدہ ہے؟
ج: میری خواہش ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ طالبان نے بھی یہ یقین دہانی کروائی ہے اور وہ اس پر عمل بھی کریں گے۔
افغانستان کی زمین کسی پڑوسی مُلک کے خلاف استعمال نہ ہو، یہ افغان عوام کی بھی خواہش ہے۔ تمام مُمالک کو کہتا ہوں کہ اپنے مسائل خود حل کریں اور افغانستان کو اپنے مسائل میں مت گھسیٹیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی جو مسئلہ ہے، وہ اُنہیں خود حل کرنا چاہیے اور یہ افغانستان منتقل نہیں ہونا چاہیے۔ایران اور عرب کی جنگ بھی افغانستان پر مسلّط نہ کی جائے۔ طالبان حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ایسی پالیسی بنائے، جس میں افغان سرزمین دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہو۔ ہم افغانستان میں ایسی پالیسی تشکیل دینا چاہتے ہیں، جس میں تمام ممالک کو یک ساں درجے پر رکھا جائے۔
س: بھارت کچھ عرصے پہلے تک افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے اور اب جب صُورتِ حال تبدیل ہوئی ہے، تو افغانستان میں بھارت کا کردار کیا ہوگا؟
ج: سُننے میں آرہا ہے کہ بھارت، طالبان مخالف جنگ جُوؤں، پنج شیری اور دیگر کی مدد کر رہا ہے۔ پنج شیر اور دیگر قومیتوں کے نام پر جو جذبات بھڑکائے گئے ہیں، اُنہیں استعمال کرتے ہوئے بھارت مخالفین کو جنگ پر اُکسا رہا ہے۔ فرانس بھی طالبان مخالف جنگ جوؤں کی حمایت کررہا ہے۔امریکا میں بھی کچھ لوگ ان کی حمایتی ہیں۔ کانگریس، امریکی فوج، پارلیمنٹ اور پینٹاگون کے بڑے عُہدے دار طالبان مخالف جنگ جوؤں کی پُشت پر کھڑے ہیں۔ ہم نے مودی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان سے متعلق ویسا ہی بیان جاری کریں، جیسا کہ عمران خان نے دیا ہے کہ افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔
س: امریکا، افغانستان میں اپنی ناکامی کا ذمّے دار پاکستان کو ٹھہرا رہا ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں؟
ج: ناکامی کی ذمّے داری مکمل طور پر واشنگٹن اور وائٹ ہائوس ہی پر عاید ہوتی ہے۔ امریکا اپنی غلط سیاسی پالیسیز کے سبب ناکامی سے دوچار ہوا۔ پاکستان نے تو امریکا کے ساتھ 20 برسوں میں بہت دوستی نبھائی اور امریکا کے ساتھ اپنے تمام وعدے بھرپور انداز میں نبھائے۔ پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک نے بھی تعاون کیا۔ نیٹو کی ساری سپلائی روس کے راستے افغانستان پہنچی۔ امریکا آخر تک اسلام آباد سے راضی تھا، وہ اڈّے نہ ملنے پر ناراض ہوا۔ امریکا کو افغانستان سے انخلا کے لیے پڑوسی مُلک میں فوجی اڈّوں کی ضرورت تھی، جس کے لیے اُس نے پاکستان سے کہا۔
وہ اپنا سامان ان اڈّوں میں منتقل کرکے وہاں سے تسلّی بخش انداز میں انخلا مکمل کرنا چاہتا تھا، لیکن اسلام آباد سے اسے منفی جواب ملا، جس کے بعد امریکا اس سے ناراض ہوا۔ مَیں پاکستان کے اِس اقدام کو تاریخی قرار دیتا ہوں کہ ماضی کے برعکس اِس بار پاکستان نے امریکا کے آگے سَر نہیں جُھکایا اور اپنی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ یہ ایک بہترین فیصلہ ہے، جس کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔ اگر امریکا اسے اپنی ناکامی قرار دے رہا ہے، تو پھر وہ ٹھیک ہے۔ گزشتہ بیس سالوں کے دَوران امریکیوں نے جو غلط سیاسی پالیسیز بنائیں، کرپٹ لوگوں کو مسلّط کیا اور تعمیر کا وعدہ کرکے مُلک کو تباہ کیا،یہ سب اُسی کا نتیجہ ہے۔ دراصل، امریکا نے ایک ناکام جنگ کو آگے بڑھایا۔
س: روس کے خلاف کام یاب جہاد کے بعد مجاہدین، افغانستان میں ایک کام یاب حکومت نہیں بناسکے، اس ناکامی کی وجوہ خارجی تھیں یا داخلی؟
ج: روس جب افغانستان سے فوجیں نکالنا چاہتا تھا، تو ماسکو انتظامیہ نے مجاہدین کی بجائے جنیوا میں امریکا کے ساتھ مذاکرات کیے اور ماسکو میں موجود امریکی حکّام کے ساتھ بھی بات چیت کی، جس میں طے پایا کہ مجاہدین کو حکومت نہیں کرنے دی جائے گی۔ دونوں ممالک نے افغان جنگ کو طول دینے کا فیصلہ کیا تاکہ مجاہدین کے پاس اسلحے کے ذخائر ختم ہوجائیں اور اُن کی بیرونی امداد بند ہوجائے۔
روس نہیں چاہتا تھا کہ کابل پر مجاہدین کا اقتدار ہو۔ وہ افغانستان کی اسلامی حکومت کو بھی اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتا تھا کہ بڑی تعداد میں اسلامی ممالک اس کے زیرِ قبضہ تھے۔ اسلامی دنیا کے بڑے بڑے ممالک جیسے کہ عراق، مِصر، شام، یمن، سوڈان سمیت مختلف ممالک روس کی حمایت میں تھے اور دوسری طرف، امریکا تمام اسلامی ممالک پر حکومت کررہا تھا۔ اسلامی ممالک امریکی اسلحے کی بڑی مارکیٹ تھے۔ بہت سے بڑے اسلامی ممالک میں امریکی فوجی اڈّے قائم تھے، اِس لیے اُسے بھی خدشہ تھا کہ اگر کابل پر مجاہدین کی حکومت آگئی، تو ایسا نہ ہوکہ مجاہدین دیگر ممالک بھی منتقل ہوجائیں اور وہاں ہمیں مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے، جس کی وجہ سے مجاہدین کو حکومت نہ کرنے دینے کے لیے روس اور امریکا نے مشترکہ اقدامات کیے۔
مجھے یقین ہے کہ پنڈی میں ہونے والا دھماکا سی آئی اے کی کارستانی تھی اور نوشہرہ میں اسلحے کے بڑے ڈپو میں ہونے والا دھماکا بھی اُسی نے کروایا تھا۔ روس اور امریکا کے درمیان طے پایا کہ افغان جنگ اُس وقت تک جاری رکھی جائے، جب تک وہاں مجاہدین کی حکومت بننے کے تمام تر امکانات معدوم ہوجائیں۔ دراصل یہ جنگ افغان عوام کے درمیان نہیں تھی، بلکہ روس اور امریکا کی مشترکہ پالیسی کا نتیجہ تھی۔
س: کیا افغان معاشرے کے مختلف طبقات مل کر نہیں چل سکتے؟
ج: افغان عوام ہمیشہ متحد رہے۔ ان کے درمیان کبھی کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوا۔ ان میں کبھی خانہ جنگی نہیں ہوئی۔ افغان قوم میں مذہب، قومیت یا لسانی بنیادوں پر کبھی بھی تفرقہ پیدا نہیں ہوا۔ ان کو تقسیم کرنا ممکن نہیں۔ روس نے افغانستان کو تقسیم کرنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہا۔امریکا بھی افغانوں کو تقسیم کرنا چاہتا تھا۔
امریکا میں اب بھی کچھ لوگ شمالی اتحاد کی مدد کرکے افغان قوم کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور یہی ان کی سیاست ہے۔ افغانوں کو اسلام نے متحد رکھا۔ افغان ہمیشہ اسلام پر کاربند رہے۔ اُنہیں پہلے کسی نے تقسیم کیا اور نہ آئندہ کوئی کر پائے گا۔
س: مغرب خواتین کی تعلیم اور حقوق کو ایک ایشو بنا رہاہے۔اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟
ج: مغرب صرف ایک ایشو بنا رہا ہے۔ حقیقت میں مغرب کو خواتین کی پروا ہے، نہ اُن کے حقوق کی۔افغانستان میں گزشتہ بیس سال کے دوران غیر مُلکیوں کے ہاتھوں سب سے زیادہ ظلم خواتین پر ہوا۔ اُس دَور میں اصل قربانیاں افغان خواتین نے پیش کیں۔ اُن کے گھروں پر بم باری کی گئی۔ اُن کے بچّوں، شوہروں اور بھائیوں کو مارا گیا ۔مَیں پوچھنا چاہتا ہوں کہ حقوقِ نسواں کی آڑ لینے والے مغرب نے افغان خواتین کو کیا دیا؟ موت، بے روزگاری اور بھوک کے سِوا افغان خواتین کو کچھ نہیں دیا گیا۔
مغرب نے بربادی کے سوا یہاں کیا کیا؟ امریکا نے ٹریلین ڈالرز افغانستان کو تباہ کرنے اور افغانوں کو مارنے کے لیے خرچ کیے۔ جرمنی کا کہنا ہے کہ اُس نے افغان جنگ میں17 ٹریلین یورو خرچ کیے، جس میں سے 13 ٹریلین فوج پر خرچ کیے گئے۔ اُنہوں نے مخبریوں پر جو خرچ کیا، اُس کی تو تفصیل ہی نہیں بتائی۔امریکا اور نیٹو کے پاس یہاں ایک لاکھ 60 ہزار سرکش اہل کار تھے۔ اگر ہر فوجی نے سالانہ ایک ہزار گولیاں استعمال کی ہوں، تو یہاں مجموعی طور پر سالانہ استعمال کی جانے والی گولیوں کی تعداد ایک سو ساٹھ ملین بنتی ہے۔
یہ گولیاں ہوائی فائرنگ کی صُورت میں ضائع نہیں کی گئیں بلکہ یہ افغان قوم پر استعمال کی گئیں۔افغانستان میں20 برس کے دوران 2 ٹریلین اور 200 ملین گولیاں استعمال کی گئیں۔ افغانوں پر ہزاروں ٹن بارود برسایا گیا۔اُنہوں نے فضائی حملوں میں عام شہریوں کو مارا۔امریکی انخلا کے آخری دن بھی200 لوگ شہید ہوئے۔ امریکا نے انخلا سے ایک روز قبل داعش کے نام پر ایک گھر کو راکٹ سے نشانہ بنایا، جس میں 10 عام افراد شہید ہوئے اور اب ان لوگوں کو مارنے کی غلطی کا اعتراف بھی کررہے ہیں۔
امریکیوں نے اتنا ظلم کیا ہے کہ افغان جنگ لڑنے والے 580 امریکی اہل کاروں نے امریکا میں خودکُشی کرلی کہ اُن کے ضمیر جاگ گئے تھے۔درحقیقت، مغرب حقوقِ نسواں کا جھوٹا دکھاوا کر رہا ہے۔ امریکیوں نے حقوقِ نسواں کے نام پر یہاں صرف عیاشی کی۔ اس کی آڑ میں خواتین کو صرف عریانی، جسم فروشی اور اخلاقی فساد دیا۔ یہاں جسم فروشی کے سیکڑوں اڈّے قائم کیے گئے۔سچ تو یہ ہے کہ اسلام واحد مذہب ہے جو خواتین کے حقوق پر سب سے زیادہ زور دیتا ہے۔
س: داعش، افغانستان کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہے اور کیا طالبان اس خطرے پر قابو پانے کی اہلیت رکھتے ہیں یا پھر اُنھیں بیرونی امداد کی ضرورت ہوگی؟
ج: امریکیوں کی مداخلت اور جنگ سے قبل یہاں داعش کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ امریکا کے آتے ہی یہاں داعش بھی پیدا ہوگئی۔ داعش، امریکی جنگ کی پیداوار ہے۔ 35ملین نفوس پر مشتمل آبادی میں گنتی کے بیس لوگ بھی نہیں ملتے تھے، جو داعش کی ذہنیت رکھتے ہوں، لیکن اب وقفے وقفے سے کچھ لوگ سامنے آرہے ہیں۔
داعش خطرہ نہیں، بلکہ ایک بہانہ ہے۔ اگر آپ امریکا سے پوچھیں کہ افغانستان میں داعش کے کارندوں کی تعداد کتنی ہے، تو وہ بھی یہی کہے گا کہ یہ بمشکل ایک یا دو ہزار ہوگی۔ امریکا، داعش کے پھیلنے کا پروپیگنڈا کررہا ہے تاکہ ایک بار پھر حالات کا فائدہ اٹھاسکے۔ درحقیقت، یہاں داعش کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔امریکا اور دیگر ممالک افغانستان کے اندر دخل اندازی نہ کریں، تو افغان عوام اپنا مسئلہ خود حل کرلیں گے اور اگر داعش مسئلہ بنی، تو اس سے بھی نمٹ لیا جائےگا۔
س: وزیرِ اعظم، عمران خان نے کہا ہے کہ طالبان داعش کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور اس کے لیے عالمی برادری طالبان کی مدد کرے؟
ج: ہمیں عسکری حوالے سے عالمی امداد کی ضرورت نہیں۔ مجھے دنیا میں کوئی بھی ایسا مُلک نظر نہیں آتا، جو افغانستان کے امن یا پھر اللہ کی رضا کے لیے ہماری مدد کرے۔ افغانستان سے متعلق ان کے اپنے اغراض و مقاصد ہیں اور وہ اس کے لیے افغانوں کو قربان کرتے ہیں۔ داعش سے نمٹنے کے لیے ہمیں بیرونی امداد کی ضرورت نہیں، ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ غیرممالک ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔
دنیا افغانستان کو اپنے مسائل حل کرنے کے لیے چھوڑ دے، ہم صرف یہی مانگتے ہیں۔ہم اسلام آباد سے بھی یہی توقّع کرتے ہیں کہ وہ دنیا کو یہی کہے، جو مَیں کہہ رہا ہوں، یعنی یہاں دخل اندازی بند کی جائے کیوں کہ مداخلت کے نتائج بہت بھیانک ہیں۔ روس نے مداخلت کی، امریکا اور نیٹو نے اپنی بھرپور قوّت کے ساتھ یہاں مداخلت کی، آپ دیکھ لیں کہ اس کے کیا نتائج برآمد ہوئے۔ ہمیں امید ہے کہ اب کوئی بھی افغانستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرے گا۔
س: دنیا کی تاریخ اور جغرافیہ بدلتے رہے ہیں، لیکن افغانوں کی قسمت اب تک نہیں بدلی؟
ج: شاید اللہ نے افغانستان کو اِس لیے بنایا ہے کہ بدمست اور مغرور فوجیں یہاں آئیں اور افغان قوم کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوکر نکلیں۔برطانیہ پوری دنیا پر راج کرتا رہا، اُس نے آسٹریلیا اور امریکا پر بھی قبضہ کیا، پورے ہندوستان پر حکومت کی، لیکن جب افغانستان آیا، تو اُسے شکست ہوئی اور پھر اس کا زوال شروع ہوگیا۔ سوویت یونین خود کو بہت طاقت وَر سمجھتا تھا۔ اُس نے ویت نام میں امریکا کو شکست دی اور نصف یورپ میں بھی اُس کا طوطی بولتا تھا۔
سارا وسط ایشیا اُس کے قبضے میں تھا اور چین بھی اس کا ساتھی تھا۔ کچھ اسلامی ممالک بھی اس کے حق میں تھے۔ مِصر، یمن، عراق، شام، سوڈان، ایتھوپیا اور دیگر ممالک، بلکہ امریکا تک میں اُس کے حمایتی موجود تھے۔ کیوبا بھی روسی اڈّا بنا ہوا تھا۔ چلی سمیت جنوبی امریکا میں بھی اُن کے حمایتی تھے۔وہ افغانستان آیا اور اس کے راستے بحرِ ہند پہنچنا چاہتا تھا۔ روس اس ارادے سے آیا تھا کہ اس کے فوجی اپنے جوتوں کے تسمے کراچی کی بندرگاہ پر کھولیں گے۔ روسی نہ صرف اِس خطّے بلکہ عربوں پر بھی قبضہ کرنے آئے تھے، تاہم اُنھیں یہاں بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ افغانستان، روس کے لیے ایک بڑا زوال ثابت ہوا۔
نیٹو بھی افغانستان کو اپنا مستقل اڈّا بنانے آیا تھا، لیکن اسے بھی شکست ہوئی اور ہوسکتا ہے کہ اب امریکا کا بھی روس کی طرح زوال شروع ہوجائے اور یہ بکھر جائے۔ اگر افغانستان اب تک ترقّی نہیں کر پایا، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ استعماری قوّتیں ہمیں اسٹریٹیجک حوالے سے پُرسکون نہیں رہنے دیتیں، ہم پر بیرونی جنگیں مسلّط کی گئیں۔ ایسا نہیں ہے کہ افغان قوم میں اپنے مسائل حل کرنے کی اہلیت نہیں۔ اگر ہمیں سکون سے رہنا دیا جائے، تو مجھے یقین ہے کہ افغان اپنے مسئلے خود حل کرلیں گے۔
س: کہا جارہا ہے کہ امریکا اور نیٹو نے افغانستان میں جو جنگی جرائم کیے، اُن کی تحقیقات نہیں ہوں گی۔ کیا آپ مطالبہ کریں گے کہ اُن کی آزاد ذرائع سے تحقیقات کی جائے؟
ج: یقیناً، یہ افغان عوام کا حق ہے۔ یہاں ہونے والے جنگی مظالم کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ تمام ممالک کے ضمیر کی آواز بھی یہی ہے اور یہ ان کا اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ امریکا اور اُس کے اتحادیوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کریں۔ امریکا اور نیٹو نے یہاں لاکھوں انسانوں کو قتل کیا، ان سب کا محاسبہ ہونا چاہیے۔ ہم مطالبہ کریں گے کہ جنگی مظالم کے مرتکب ان ممالک کا کڑا محاسبہ اور انصاف کیا جائے۔
صرف یہی نہیں، ہم ان سے جانوں کے بدلے معاوضے بھی مانگیں گے۔ اُنہوں نے20 سال افغانستان پر راکٹ اور بم برسائے۔ اُنہوں نے افغانستان کو تباہ وبرباد کیا۔ ایک ملین عوام کو قتل کیا اور لاکھوں گھر تباہ کردئیے۔ مَیں اس بات کے قطعی حق میں نہیں ہوں کہ طالبان حکومت معاوضہ لیے بغیر اُنہیں یہاں سفارت کاری کے لیے کہے۔ حکومت خود پر یہ واجب کرلے کہ وہ ان ممالک سے افغانستان میں ہونے والے نقصان اور تباہی کا ہرجانہ لے گی۔
س: اگر طالبان کی جانب سے حکومت میں شمولیت کی دعوت ملتی ہے، تو کیا آپ یہ پیش کش قبول کریں گے؟
ج: مجھے ذاتی طور پر حکومت میں شامل ہونے کی خواہش نہیں، لیکن اگر طالبان مضبوط حکومت بنانے کے لیے ہمیں اُس میں شامل کرنا چاہتے ہیں، تو ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ مجھے حکومت میں شامل ہونے کا شوق ہے اور نہ طالبان سے اُمید ہے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ حکومت عوامی رائے سے منتخب کی جائے، جیسا کہ اسلام کہتا ہے اور جس طرح چاروں خلفائے راشدینؓ مسجد میں منتخب ہوئے۔
اُن کا انتخاب نجی محفلوں اور بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہوا۔ اُنہیں خواص نے منتخب نہیں کیا۔ خلفائے راشدینؓ کو وَرثے میں اقتدار منتقل نہیں ہوا۔ اُس وقت عرب میں کسی ایک قوم، گھر، ذات یا کسی ایک قبیلے کی حکومت نہیں تھی، وہ خلفائے راشدینؓ کی حکومت تھی، جو عوام کی مرضی سے آئے تھے۔ ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ حکومت انتخابات کے ذریعے تشکیل دی جائے۔
س: آپ کی پچاس سال سے زاید کی جدوجہد اور طویل قربانیاں ہیں، کیا اس جدوجہد میں کبھی مایوس ہوئے؟
ج: الحمدللہ ،کبھی مایوس نہیں ہوا، ہمیشہ ہی پُرامید رہا۔ جب عُمر 13 سال سے بھی کم تھی، تو نماز کے بعد یہی دعا کرتا کہ ’’یااللہ! مجھے سوویت یونین اور امریکا کا زوال دیکھنا نصیب ہو اور اس کارِ خیر میں میرا بھی کچھ حصّہ ہو۔‘‘اللہ نے میری دُعا قبول فرمائی۔ سوویت یونین کے خلاف لڑائی میں مجھے فکری کردار نصیب ہوا اور اس کا سیاسی زوال اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ میرا یقین تھا کہ میری دُعا کا دوسرا حصّہ بھی قبول ہوگا۔ مَیں نہیں جانتا تھا کہ امریکا کے خلاف یہ سب کچھ کیسے ہوگا ،کیوں کہ یہاں امریکا موجود نہیں تھا اور پھر امریکا بھی یہاں آگیا۔
مجھے میری یہ دُعا یاد آرہی تھی کہ مَیں امریکا کی شکست دیکھوں گا اور مَیں نے امریکا کی شکست بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ لی۔ اُنہیں اپنی آنکھوں سے ذلیل و رسوا ہوکر یہاں سے جاتے دیکھا۔ مجھ پر بہت سخت دن گزرے، اگر بیان کرنے بیٹھوں ،تو یہ ایک بڑی تاریخ ہے۔ اس 53 سالہ سیاسی دَور میں مجھ پر بہت مشکل حالات آئے، لیکن ہمیشہ اللہ سے اُمید رکھی اور اللہ کو ہمیشہ اپنے لیے کافی جانا۔ مَیں نے خود کو اللہ کے حوالے کردیا تھا اور اللہ پر یقین رکھنے والا کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ مجھے اللہ سے اُمید ہے کہ یہاں ایک بہترین اسلامی حکومت قائم ہوگی، جس کا اپنا ایک عزم و استقلال ہوگا۔