عمران خان جب2018میں پاکستان کے وزیر اعظم بنے تو پاکستان کرکٹ سسٹم میں بھی انقلابی تبدیلیاں لاتے ہوئے ،ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو بند کردیا گیااور آسٹریلوی طرز پر چھ ٹیموں پر مشتمل فرسٹ کلاس نظام لانے کا دعوی کیا گیا۔تین سالوں میں ملک میں کلب کرکٹ نہ ہونے کے برابر تھی اور فرسٹ کلاس سسٹم کے ذریعے بظاہر کوئی بہتری دکھائی نہیں دی پرانا اسکرپٹ وہرایا گیا۔
احسان مانی اور وسیم خان تین سالوں میں ہر سیاہ سفید کے مالک رہے۔دونوں نے بڑے بڑے فیصلے کئے،من پسند لوگوں کو بھاری مراعات پر لاکر تبدیلی کا نعرہ لگایا گیا۔وسیم خان کو تین سال بعد توسیع لینا چاہتے تھے،یو ٹیوب پر من پسند لوگوں کے ساتھ مزید کام کرنے کے لابنگ میں مصروف تھے۔
لیکن چند ماہ قبل اچانک حالات تبدیل ہوئے،پہلے احسان مانی کو توسیع نہ مل سکی ان کی جگہ رمیز راجا کو تین سال کے لئے چیئرمین مقرر کردیا گیا،پھر وسیم خان کی بھی رمیز کے سامنے دال نہ گل سکی اور برطانیہ سے بھاری مراعات اور پرکشش تنخواہ پر آنے والے چیف ایگزیکٹیو کو اپنے آبائی گھر برمنگھم جانا پڑ گیا۔رمیز راجا سابق ٹیسٹ کرکٹر اور کپتان تھے اور چیف ایگزیکٹیو بھی رہ چکے تھے ،کمنٹری میں انہوں نے دنیا بھر میں اپنا لوہا منوایا۔ چیئرمین بنتے ہی انہوں نے حیران کن فیصلے لئے اور ان کی آواز سے غیر ملکی بھی پریشان ہوگئے۔
انگلش بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو مارک ہیری سن نے پاکستان آکر یہ ثابت کردیا کہ اب پاکستان بدل چکا ہے۔رمیز راجا کے دبنگ موقف نے ان کی مقبولیت بڑھا دی۔گذشتہ دنوں پاکستان کو آئی سی سی چیمپنز ٹرافی کی میزبانی ملنا رمیز راجا کا ایک اور بڑا کارنامہ تھا۔چیمپنز ٹرافی کی میزبانی ملنے کے بعد رمیز راجا جب میڈیا کے سامنے آئے تو انہوں نے بر ملا اس بات کا اظہار کیا کہ قائد اعظم ٹرافی میں ابتدائی 12 میں11میچ ڈرا ہوئے ہیں مجھے یہ چیزیں ورثے میں ملی ہیں۔مجھے کے جی ون اور کے جی ٹو کی طرح چیزیں ٹھیک کرنا پڑرہی ہیں۔ایسا سسٹم ملنا کسی بھی نئے چیئرمین کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے۔
ہمیں ایسا سسٹم ملنا چاہیے تھا جو دوسرے ملکوں میں ہے۔اندرون سندھ،کے پی کے اور بلوچستان میں کوئی ترقی نہیں ہوئی ہے۔کن حالات میں کرکٹ چھوڑ کر گئے ہیں۔رمیز راجا نے پچوں کی کوالٹی بہتر بنانے کے لئےایک بار پھر چیف کیو ریٹر آغا زاہد کی خدمات حاصل کر لی ہیں۔آغا زاہد گذشتہ سال ریٹائر ہوگئے تھے۔ ان کی جگہ بھاری معاوضے پر آنے والے پی سی بی کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔ماضی کے ٹیسٹ اسٹار رمیز راجا کہہ رہے تھےکہ مجھے یہ باتیں رات کو سونے نہیں دیتی کہ اتنے میچ ڈرا ہوئے اور ایسی خراب پچیں ہیں۔یکطرفہ میچ ہورہے ہیں۔
اسی لئے میں واپس آغا زاہد کو لایا ہوں۔انہیں پچوں کی کوالٹی بہتر بنانے کی ہدایت کی ہے۔اتنے زیادہ رنز بے معنی ہوجاتے ہیں۔رمیز راجا نے لگی لپٹی رکھنے کے بجائے کھل کی دل کی بات کہہ دی اور وہ لوگ جو انقلاب لانے کی باتیں کرتے کرتے ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو بند کر گئے۔ اب وہ اپنے چند سوٹ کیسوں کے ساتھ پاکستان سے جاچکے ہیں ان سے جواب طلبی کون کرے گا۔رمیز راجانے بین الاقوامی سطحی پر پاکستان کا نام بہت بلند کیا ہے۔نیوزی لینڈ کے واپس جانے اور انگلینڈ کی سیریز منسوخ ہونے کے بعد انہوں نے ٹیسٹ کھیلنے والے ملکوں اور آئی سی سی کے سامنے اپنا سخت گیر موقف رکھ کر بتایا کہ اب ایسے نہیں چلے گا۔
رمیز راجا آئی سی سی کی پہلی میٹنگ میں گئے اور پاکستان کو29سال بعد آئی سی سی ایونٹ کی میزبانی مل گئی۔پاکستان کرکٹ بورڈ کی کوششیں رنگ لے آئیں،ملک میں انٹر نیشنل کرکٹ کی بحال کے بعد پاکستان کو2025کی آئی سی سی چیمپینز ٹرافی کی میزبانی مل گئی۔فروری 2025 میں پاکستان میں کھیلے جانے والے ٹورنامنٹ کا میزبان پاکستان اس ایونٹ میں اپنے ٹائٹل کا دفاع بھی کرے گاٹورنامنٹ میں 8 ٹیموں کے مابین کل 15 میچز کھیلے جائیں گےیہ میچز تین مختلف مقامات پر کھیلے جائیں گے۔
ٹورنامنٹ میچ کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں ہوں گے۔پنڈی میں میچ کرانے کا انحصار موسم پر ہوگا۔پاکستان نےاب سے25سال پہلے آخری بارآئی سی سی ایونٹ کی میزبانی کی تھی اب29سال بعد پاکستان میں کوئی آئی سی سی ایونٹ ہوگا۔ رمیز راجا کہتے ہیں کہ ایونٹ کے کامیاب انعقاد سے دنیا کو بتائیں گے کہ ہم کرکٹ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔چیمپنز ٹرافی کی میزبانی ملنے پر بہت خوش ہوں۔ چیمپئنز ٹرافی 2025 کے ذریعے دنیا کوبآور کروائیں گے کہ ہم کتنے عظیم میزبان ہیں۔
یہ ایونٹ پاکستان میں رہنے والے شائقین کرکٹ کے لیےکسی اعزاز سے کم نہیں ، اب ہمیں آئی سی سی کی توقعات اور مقررہ معیار کے مطابق ایک ایونٹ کے کامیاب انعقاد کی منصوبہ بندی کرنی ہے۔واضع رہے کہ پاکستان 1996میں بھارت اور سری لنکا کے ساتھ ورلڈکپ کا مشترکہ میزبان تھا۔آئی سی سی نے مستقبل کے بڑے ٹورنامنٹس اور ان کی میزبانی کا اعلان کیا ہے۔ 2031 تک آئی سی سی کے 8 بڑے ایونٹس منعقد ہوں گے جس کی میزبانی 12 مختلف ممالک کریں گے۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے آئی سی سی چیمپنزٹرافی کے دوبارہ انعقاد کا باقاعدہ اعلان بھی کیا ہے۔2008 کی چیمپئنز ٹرافی پاکستان میں ہونا تھی مگر حالات کی وجہ سے جنوبی افریقا منتقل ہوگئی تھی۔2011کے ورلڈ کپ میں پاکستان،بھارت،بنگلہ دیش اور سری لنکا کے ساتھ مشترکہ میزبان تھا لیکن کشیدہ حالات کی وجہ سے پاکستان کو میزبانی کا معاوضہ ملا لیکن میچ دیگر تین ملکوں میں منتقل کردیئے گئے۔ آئی سی سی کے اعلان کے مطابق بھارت 2024 سے 2031 کے دوران تین آئی سی سی ایونٹس کی میزبانی کرے گا۔رمیز راجا کہتے ہیں کہ 2023 میں بھارتی ٹیم ایشیا کپ اور2025میں چیمپنز ٹرافی کھیلنے پاکستان آئے گی۔
ہوسکتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں کسی تین ملکی ٹورنامنٹ میں آمنے سامنے ہو۔اب بھارت کی وجہ سے ہم متحدہ عرب مارات میں اپنا ٹورنامنٹ نہیں کھیلیں گے۔ ہم بھی ہیں آپ ہمت کو پکڑیں۔ سب کو پاکستان میں ہی کھیلنا ہوگا۔ مجھے کوئی خطرہ نہیں ۔مجھے کوئی خدشہ نہیں کہ کوئی ٹیم چیمپیئنز ٹرافی سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کریں گی، بھارت کے ساتھ باہمی سیریز تو مشکل مگر ایشیا کپ 2023 سمیت پاکستان میں انٹرنیشنل ایونٹس سے بھارتی ٹیم کا پیچھے ہٹنا مشکل ہوگا۔ بھارت کے ساتھ باہمی سیریز تو مشکل مگر ایشیا کپ 2023 سمیت پاکستان میں انٹرنیشنل ایونٹس سے بھارتی ٹیم کا پیچھے ہٹنا مشکل ہوگا۔
پاکستان کو چیمپنزٹرافی کی میزبانی کی شکل میں بڑا بریک تھرو ملا ہے،اس سے پہلے ایشیا کپ بھی پاکستان میں ہوگا، پاکستان چیمپنز ٹرافی کی میزبانی تنہا کرے گا، اس سلسلے میں کسی کے ساتھ اشتراک نہیں ہوگا۔ یہاں تک پہنچنے کے لیے ہمیں بہت محنت کرنا پڑی ہے، 10 سال میں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر یہاں تک پہنچے ہیں، چیمپنزٹرافی کی میزبانی میں پی ایس ایل کے مثبت امیچ سمیت سب کا کردار ہے، کسی کے آنے جانے سے فرق نہیں پڑتا، جو میرے بعد بھی آئے گا اس کو بھی کام کرنا ہے، 2025 میں بورڈ سربراہ کوئی بھی ہو، اتنا بڑا ایونٹ رکنا نہیں چاہیے۔
آئندہ 2 سے 3 برسوں میں مزید اچھی خبریں آئیں گی۔ پاکستان کو پہلے اپنی ٹیم کو بہترین بنانا ہے، جب ٹیم اچھی ہوجائے گی تو سب پاکستان کے ساتھ ملیں گے۔ انہوں نے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی جانب سے ملتوی کی جانیوالی سیریز سے متعلق کہا کہ انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے فیصلوں کے بعد ہم کافی جذباتی تھے جس کے بعد دنیا کو ہمارے جذبات کا اندازہ ہوا۔ورلڈ کرکٹ میں پاکستان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، آئی سی سی کو بھی اندازہ ہے کہ پاکستان کافی محنت کر رہا ہے۔
رمیز راجا نے کہا کہ نے کہا کہ دنیا نے اب تسلیم کر لیا ہے کہ یہاں سکیورٹی بہترین ہے، آزاد ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں فٹبال لیگ انگلش پریمیئر لیگ (ای پی ایل) اور فارمولا ون سے بہتر سکیورٹی ہے۔انہوں نے آئندہ سال آسٹریلیا میں ہونے والے ورلڈ کپ کے حوالے سے کہا کہ آسٹریلیا میں ورلڈ کپ کیلئے پلان ہے، بہت جلد بتاؤں گا کہ ہمیں کیسے کام کرنا ہے، ریلیکس ماحول میں کرکٹ ہونی چاہیے، سکیورٹی کا مطلب سب کچھ بند کر دینا نہیں ہوگا۔رمیز راجا کے چیئرمین بننے کے بعد پاکستان آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کا اعلان ہوچکا ہے۔
انگلینڈ کی ٹیم بھی سات ٹی ٹوئینٹی اور تین ٹیسٹ کے لئے پاکستان آئے گی۔نیوزی لینڈ نے بھی اگلے سال پاکستان آنا ہے۔پاکستان سپر لیگ میں ڈالرز کا تنازع حل ہوچکا ہے۔چار سال کے لئے پاکستان سپر لیگ کی ٹائیٹل اسپانسر شپ کا بھی معاہدہ ہوگیا۔نئے معاہدے کے مطابق اب 2022 سے 2025 تک بھی لیگ کا ٹائٹل اسپانسر شپ معاہدہ ہوگیا۔پی سی بی کا کہنا ہے کہ نہ صرف ریزرو پرائس سے زیادہ بلکہ گزشتہ کنٹریکٹ سے 55 فیصد زائد کنٹریکٹ ویلیو کے بعد پی ایس ایل کی ٹائٹل اسپانسر شپ فروخت کی گئی ہے۔
بینک نے پبلک ٹینڈر پراسس کے تحت ٹائٹل اسپانسر کے حقوق حاصل کیے ہیں۔کئی بڑے افسران نہیں ہیں، ڈومیسٹک کرکٹ میں کھلاڑیوں اور کوچز کی لڑائیوں اور کوچز کی جانب سے بد انتظامی بھی ان کے لئے چیلنج ہے۔امید ہے کہ رمیز راجاان مسائل سے چھٹکارہ پائیں گے اور نیک نیتی سے درست فیصلے کریں گے۔