• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعاون کے عقب میں اگر یہ محسوس ہو کہ اس کے مقاصد دراصل کچھ اور ہیں تو ایسے تعاون سے کنارہ کشی اختیار کر لی جاتی ہے اور اگر یہ احساس جاگزیں ہو کہ اس کے مقاصد صرف اور صرف عوامی اتحاد کو مضبوط کرنا ہیں تو اس کی جانب والہانہ انداز میں جایاجاتا ہے ۔ سفارتکاری میں جب چینی سفارتکار اس جانب بڑھتے ہیں تو باہمی اعتماد میں بس مزید اضافہ ہی ہوتا ہے کہ اس میں کوئی شک و شبے کی گنجائش سرے سے موجود ہی نہیں کہ دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کے کسی اقدام کو شک کی نظر سے نہیں دیکھتے ہیں اور قوموں کا یہ باہمی تعاون کی سبیل پیدا کرتا چلا جاتا ہے اور اس سے قومی سلامتی کے مضبوط ہونے کا تاثر قائم ہو جاتا ہے۔ جب سے سی پیک کی ابتدا ہوئی اس وقت سے شہری زندگی میں چین کے تعاون سے مختلف نوع کے منصوبے شروع کیے جارہے ہیں ۔ اوکاڑہ میں اسی نوعیت کے ایک پروجیکٹ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی غرض سے لاہور میں متعین چینی قونصل جنرل نے اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی اور اس میں خوشگوار حیرت کا یہ امر شامل تھا کہ چینی قونصل جنرل نے جس منصوبے کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرنا تھی اس کے میزبان حزب اقتدار کے اراکین اسمبلی کی بجائے مسلم لیگ نون کے ایم پی اے چوہدری منیب تھے ۔ حزب اختلاف میں رہتے ہوئے اپنے لوگوں کے مسائل حل کرنے کی خاطر اس راستے کو اختیار کرنا بہرحال معاملہ فہمی کی نشانی ہے ۔ ہم لوگ جب اوکاڑہ میں داخل ہوئے تو استقبال کے لئے بہت بڑے پیمانے پر لوگ موجود تھے جن کے ہاتھوں میں چینی صدر شی اور پاکستان کے زیر عتاب رہنما نواز شریف کی تصاویر تھیں جو یہ ثابت کرتی تھیں کہ کسی کے زیر عتاب ہونے سے اس کی مقبولیت کو قصہ پارینہ نہیں بنایا جا سکتا بلکہ بسا اوقات اس کے حامیوں میں مزید پختگی آتی چلی جاتی ہے ۔ اوکاڑہ میں جس منصوبے میں تعاون کیا گیا ہے اس کا تعلق زراعت سے ہے جو پنجاب کی پہچان ہے اور اس کو پاکستان چین فرینڈ شپ فارم کا نام دیا گیا ہے ۔ اس کی حیثیت علامت کے طور پر موجود ہے کہ اس کے حوالے سے مزید کام ہو رہا ہے جو درکار بھی ہے ۔ بہرحال یہ ایک ایسا اقدام ہے کہ اس کو اگر باقاعدہ منصوبہ بندی سے آگے بڑھایا جائے تو اس صورت میں پاکستان اور چین کے مابین اس شعبے میں مزید ترقی کی بہت ساری راہیں کھل سکتی ہیں ۔ میرے خیال میں باہمی اعتماد صرف پاکستان کا چین کے ساتھ ہی نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسی نوعیت کا اعتماد امریکہ اور دیگر بڑی معیشتوں کے ساتھ بھی قائم ہونا چاہیے کیونکہ دوست بڑھانا ہی کسی بھی قوم کے مفاد میں ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے گزشتہ طویل عرصے سے دونوں ممالک کے مابین اعتماد کے گہرے فقدان کی موجودگی موجود ہے ۔ ابھی حال ہی میں امریکی اراکین کے دورہ پاکستان کی بات ہوئی تو اس وقت بھی یہی بات کی کہ موجودہ صورتحال جو افغانستان میں اشرف غنی حکومت کے زوال کے بعد قائم ہو گئی ہے کم ازکم اس کو سمجھنے اور اس میں سے کوئی ایسا مثبت راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی جائے کہ جو تمام فریقین کے لئے مثبت ہی ہو ۔ کیونکہ صرف الزام تراشی ایک دوسرے کی ضروریات کو نہ سمجھنا یا نہ سمجھنے کی کوشش کرنا کسی بھی مسئلے کو ماسوائے مزید طویل کرنے کے اور کچھ بھی نتیجہ نہیں دے سکتا ۔ اس لیے اس نوعیت کی ملاقاتیں جب پاکستانی سیاستدانوں سے کی جائیں یا حکام سے گفتگو ہو تو ان تمام عوامل کو ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ صرف نشستند، گفتند برخاستند کی بجائے بامقصد اور تعمیری گفتگو اور باہمی اعتماد بھی قائم کیا جائے گا کیونکہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بنیادی طور پر جو معاملہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے وہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی بجائے، شبہ بڑے پیمانے پر موجود ہے ۔ اور یہ شک ہی ہے جو ہر اقدام کو ریاستی سطح سے لے کر عوامی سطح تک آلودہ کر دیتا ہے ۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ ریاستیں ایک دوسرے سے مفاد صرف باہمی اعتماد سے حاصل کر سکتی ہیں،افغانستان کا تجربہ سب کے سامنے ہے ۔

تازہ ترین