• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں گیس کا بحران کراچی سے پشاور تک شدت اختیار کر گیا ہے۔ کئی شہروں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 20 گھنٹے تک ہو گیا ہے۔ سردی میں اضافے کے ساتھ گیس پریشر نہ ہونے کے برابر ہے۔ بچے ناشتے کے بغیر گھروں سے نکلنے پر مجبور ہیں۔ اوپر سے مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ غریب لوگ باہر سے کھانا خریدنے کی بھی سکت نہیں رکھتے۔گیس کی قلت کی بڑی وجہ مشیر خزانہ شوکت ترین نے خود بتا دی ۔ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ گیس بحران حکومت کے بروقت اقدامات نہ کرنے سے آیا۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں ان کا کہنا ہے کہ گیس کے جو کارگو کنٹینر ہمیں لینے چاہئیں تھے وہ بروقت نہیں لئے۔ عالمی سطح پر اب گیس مہنگی مل رہی ہے لیکن توقع ہے کہ دسمبر ، جنوری میں قیمتیں نیچے آنی شروع ہوں گی تو صورتحال کچھ بہتر ہو جائے گی۔ معیشت کو جو دھکا لگا ہے وہ تو لگا ہے لیکن ہم گیس لے رہے ہیں۔ پٹرولیم اور گیس کی درآمد پر ہمیں اضافی سات آٹھ ارب ڈالر ادا کرنے پڑ رہے ہیں اس لئے ان دونوں کی قیمتیں بڑھانا پڑ رہی ہیں۔ مہنگائی زیادہ ہے تاہم ہماری کوشش ہے کہ لیوی اور قیمتیں بڑھانے کا بوجھ عام آدمی پر نہ پڑے۔ مشیر خزانہ نے بڑی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے اس معاملے میں حکومت کی غفلت کا اعتراف کیا ہے اور عذرلنگ کا سہارا نہیں لیا لیکن ان کے اعتراف سے گیس کی قلت دور نہیں ہوگی۔ حکومت کو اب ایک طرف گیس کی قلت سے چولہے ٹھنڈے ہونے کے مسئلہ کا فوری حل تلاش کرنا ہو گا تو دوسری طرف جن وزرا یا حکام کی غفلت سے یہ بحران پیدا ہوا ان سے جواب طلبی بھی ضروری ہے۔ گیس کا متبادل مٹی کے تیل سے جلنے والے چولہے ہیں۔ حکومت نے مٹی کے تیل کے نرخ بھی بڑھا دئیے ہیں۔ لکڑی کے نرخ بھی بہت بڑھ گئے ہیں۔اس صورتحال میں حکومت کو اپنی ایندھن پالیسی پر ازسر نو غور کرنا ہو گا اور ایسی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی جن سے آئندہ عوام کو ایسی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

تازہ ترین