ہر سال کی طرح آج پچیس نومبر کو دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہاہے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنی منظورکردہ قرارداد کے تحت تمام عالمی ممالک کو پابند کیا ہے کہ وہ خواتین پر ہر قسم کے تشدد بشمول جنسی زیادتی، صنفی ناانصافی اور گھریلو تشدد کی مکمل روک تھام کو یقینی بنائیں، اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی طرف سے ہر سال ایک خصوصی موضوع بھی جاری کیا جاتا ہے، رواں سال عالمی دن کی تمام تقاریب ’’اورنج دی ورلڈ‘‘کے تحت کرائی جارہی ہے،آج دنیا کے مختلف عوامی اور نمایاں مقامات کویہ پیغام اجاگر کرنے کیلئے اورنج رنگ سے سجا یا جارہا ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی خواتین مختلف نوعیت کے تشدد کا شکار ہیں جبکہ اپنے معاشرے کو تشدد سے پاک کرنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ تاریخی طور پر پچیس نومبر کا دن لاطینی امریکہ کے ملک ڈومینکن کی ان تین سیاسی کارکن خواتین کی یاد دلاتا ہے جنہیں اس وقت کے ڈکٹیٹر حکمراں رافیل تروجیلو کے ایماء پر 25نومبر 1960کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، میرابل سسٹرز کے نام سے جانے والی یہ تین بہنیں اپنے ملک میں جمہوری حقوق کی بحالی کیلئے سرگرم تھیں، تاہم موت کے بعد میرابل سسٹرز کی جدوجہد کی شہرت دنیا بھر میں پھیل گئی ، یہاں تک کہ 1999ء میں اقوام متحدہ نے ان کےقتل کے دن کو خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن قرار دے دیا۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک خاتون کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر جسمانی یاذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر وبائی حالات، قدرتی آفات، مسلح تنازعات اور جنگی صورتحال خواتین کی مشکلات کو مزید بڑھا دیتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این وومن نے اپنی تازہ رپورٹ میں تیرہ ممالک سے خواتین سے متعلق اعدادوشمار جمع کئے ہیں ، جن کے مطابق کورونا وباکے بعد سے ہر تین میں سے دو خواتین کو تشدد اور خوراک کی کمی کا سامنا ہے، دس میں سے صرف ایک خاتون نے پولیس سے مدد لینے کی بات کی۔ پاکستان میں خواتین پر تشدد ایک نہایت گھمبیر معاملہ ہے اس کے باوجود اسےچھپانے کی کوشش کی جاتی ہے ، خواتین کو اپنے گھروں ، دفاتر، عوامی مقامات ، پبلک ٹرانسپورٹ اوردیگر جگہوں پر ناپسندیدہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑتاہے جس کا بعض اوقات افسوسناک انجام قتل کی صورت میں بھی نکلتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں تشدد کی شکار خواتین کی اکثریت ان پر ہونے والے تشدد کے بارے میں کسی کو آگاہ نہیں کرتیں اور نہ ہی کسی سے مدد طلب کرتی ہیں بلکہ تقدیر کا لکھا سمجھ کر صبر کرتی ہیں، خواتین پر تشدد کی اطلاع پولیس کو دینا خاندان کو بدنام کرنے کی کوشش سمجھا جاتا ہے، بعض اوقات اس کا افسوسناک انجام غیرت کے نام پر قتل کی صورت میں سامنے آتا ہے، قاتل کا تعلق چونکہ قریبی رشتہ داروں سے ہوتا ہے اس لئے وہ قانون کی گرفت میں آنے کے باوجود لواحقین کی طرف سے معافی /صلح ہوجانے کے بعد بری ہوجاتا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ہمارے ملک میں تشدد کی شکار1.3فیصد خواتین مدد کیلئے پولیس کورپورٹ کرتی ہیں جبکہ 1.1 فیصد سوشل اداروں سے رابطہ کرتی ہیں جبکہ صفر عشاریہ پانچ فیصد(0.5)وکلاسے رابطہ کرتی ہیں۔مجھے مختلف قومی /عالمی اداروں کی انسانی حقوق کے حوالے سے رپورٹس پڑھنے کا موقع ملتا ہے، ان رپورٹس میں خواتین پر تشدد کا جو بھی ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے وہ زیادہ تراخباری تراشوں اور خبروں پر مشتمل ہوتا ہے،تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خواتین پرتشدد کے زیادہ تر واقعات میڈیا میں بھی رپورٹ نہیں ہوتے، پاکستان میں خواتین پر تشدد کے واقعات کے اعدادوشمار کا ایک اورذریعہ پولیس ریکارڈ ہے جس تک رسائی ایک الگ معاملہ ہے۔ پاکستان میں غیرمسلم خواتین پر تشددکی ایک بھیانک صورت جبری مذہب تبدیلی اور زبردستی شادی ہے، اٹھارہ سال سے کم عمرنابالغ بچیوں کوطاقتور عناصر کی جانب سے اغواکرلیا جاتا ہے، ایسی صورتحال میں بچی کے والدین زندہ درگور ہوجاتے ہیں اور پوری کمیونٹی احساس عدم تحفظ کا شکار ہوکر سہم جاتی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ آج اقوام متحدہ اور انٹر پارلیمنٹری یونین کے تحت دنیا بھر کے حکومتی ادارے، مقامی /عالمی این جی اوز، فلاحی اداروں، تعلیمی اداروں اور سب سے بڑھ کر میڈیا خواتین پر تشدد کے خاتمے کیلئے بھرپور کردار ادا کرسکتا ہے، ایسے آگاہی پروگرام منعقد کرانے کی ضرورت ہے جس سے حقیقی انداز میں خواتین کی ہمارے معاشرے کیلئے اہمیت اجاگر ہو۔ آج پچیس نومبر کو ملک بھر میں بسنے والی غیرمسلم ہندو کمیونٹی اس عزم کا اظہارکرےگی کہ خواتین کو تشددسے محفوظ رکھنے کی جدوجہد ہر صورت جاری رہے گی، میں تمام امن پسند حلقوں سے اپیل کرتا ہوں کہ خواتین پر تشدد کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ آج سے اقوام متحدہ کے زیراہتمام سولہ دن پر مشتمل ایکٹوازم کی عالمی مہم کا آغاز بھی ہورہا ہے جس کا اختتام دس دسمبر کو عالمی دن برائے انسانی حقوق مناکر کیا جائے گا۔ آئیں، ان سولہ دنوں میں روز ہم اپنے آپ کو ایک اچھا انسان اور ذمہ دار شہری ثابت کرنےکیلئے کوششوں کا آغاز کریں۔ اورنج دی ورلڈ ۔۔۔!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)