• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترک فوج کے ایک سابق جرنیل محمت نے کہا ہے ’’ گوکہ سیاست میں اسلامی شدت پسندی قدرے کم ہوئی ہے لیکن ملک کے استحکام کیلئے وہ آج بھی خطرہ ہے، فوج کا کہنا ہے کہ ترکی میں سیکولرازم کے بجائے اسلامی یاشرعی قانون کانفاذ ترکی کو ہزاروں سال پیچھے کی طرف دھکیل دے گا اور اس سے سیاسی، سماجی اور تجارتی حلقوں کیلئے اندرون وبیرون ملک مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں، آئی ایم ایف کی جانب سےترکی کو ملنے والا کھربوں ڈالر کا پیکیج متاثر ہوسکتا ہے‘‘۔ترکی کے جرنیل کے اس انٹرویو کو ڈچ اخبارات نے اپنے تبصروں کے ساتھ سپرد قلم کیا ہے۔ فوج کے سربراہ نے کہا کہ ’’ترکی میں اسلامی بنیاد پرستی کی لہر ایک بار پھر اٹھ سکتی ہے اور اسکا خطرہ بہرحال موجود ہے۔ اس لہر کا مکمل خاتمہ ابھی نہیں ہوا تاہم اسکی شدت میں کچھ کمی آئی ہے اگر ترکی میں تمام بنیاد پرست پارٹیوں پر پابندی نہ لگائی گئی تو ترکی کے یورپین یونین کارکن بننے میں مشکلات پیش آئیں گی۔میرے حساب سے ترکی کا اہم ترین مسئلہ بھی یہی ہے‘‘۔

ترکی کے ساتھ دہرا مسئلہ ہے ایک یورپین یونین کی مکمل ممبر شپ اور دوسرا WTOمیں شمولیت۔ ایک طرف ترقی یافتہ ممالک مختلف حیلوں اور بہانوں سے ترقی پذیرممالک کیلئے اپنی تجارتی منڈیاں کھولنا نہیں چاہتے اور دوسری طرف مسلم ممالک پر غیر اخلاقی اور بے جا شرائط لگاکر انہیں تجارت کی عالمگیریت، کھلی مارکیٹ اور فراخدلانہ تجارتی تصورات کے فوائد سے محروم کردینا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یورپین یونین اور امریکہ ترکی کےیونان کے ساتھ مسئلہ قبرص کےفوری اور مستقل حل کیلئے زوردیتے رہتے ہیں۔ قبرص کو یونین کی ممبر شپ کا جب عندیہ دیاگیا تو ترکی نے یورپین یونین کے اس رویے پر سخت احتجاج کیا اور کہا کہ قبرص ایک متنازعہ جزیرہ ہے اور اس سے متعلق تنازعہ کے حل کے بغیر اسے یورپین یونین میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ترکی نے سب سے پہلے 1963 میں یورپین یونین میں شرکت کی درخواست کی تھی حالانکہ اس سے قبل1960میں امریکہ نے ترکی کو بلاتاخیرنیٹو کی رکنیت دے دی تھی کیونکہ سرد جنگ کے زمانے میں کمیونزم کے اثر کو یورپ میں پھیلنے سے روکنے کیلئے ترکی جیسے مسلمان ملک کی فوری شمولیت ضروری تھی۔ اس میں یورپین یونین کا نظریاتی وتجارتی مفاد پوشیدہ تھا آج اس ترکی کو محض مذہبی تعصب کی بنا پر یورپین یونین میں شامل نہیں کیا جارہا حالانکہ 1963کے بعد کئی ممالک کو یورپین یونین کی رکنیت دی گئی اس دوران ترکی پر الزامات کی بوچھاڑ کردی گئی’’ تمہارا ہیومن رائٹس ریکارڈ اچھا نہیں‘‘۔تمہارے ہاں جیلوں کی حالت ٹھیک نہیں،ترکی میں سزائے موت بدستور سایہ فگن ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ ترکی نے ہر آن یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ یورپین یونین کے معیار کے عین مطابق ہے لیکن اس کے باوجود ترکی کو مذہبی تعصب کی وجہ سے آج 50 سال بعد بھی یورپین یونین کی رکنیت نہیں دی گئی اور اب بھی وہ یورپین یونین میں صرف مشاہدےکے درجہ میں ہے۔ ترکی کو بین الاقوامی دبائو کی وجہ سے اب امید بندھ چلی ہے کہ آنے والے برسوں میں اسے مکمل رکینت دے دی جائے گی لیکن یہ اتنا آسان مرحلہ نہیں ہوگا کہ مکمل رکن بننے کے امکانات کے پیش نظر یورپی ممالک بے چینی محسوس کررہے ہیں، یورپین یونین میں پہلے ہی مسلمانوں کی آبادی تقریباً 2کروڑ سے زائد ہے اگر ترکی کو یورپین یونین میں شامل کرلیا جاتا ہے تواسکا مطلب یہ ہے کہ یورپ میں مسلمانوں کی تعداد تین فیصد سے بڑھ کر20فیصد ہوجائے گی۔

دوسری طرف ترکی کو رکنیت دیے جانے کی حمایت کرنے والی یورپی لابی یہ تاویل پیش کررہی ہے کہ ترکی ایک سیکولر مسلم مملکت ہے جس نے اپنے آپ کو یورپین یونین کی رکنیت کے قابل بنانے کیلئے اصلاحات کے ایجنڈے پر مکمل طور پر عمل کیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی خیالات میں شدت پسندی سے جو نیا چیلنج آج ہے اسے صرف اسی وقت روکا جاسکتا ہے جب ان ملکوں کے غریب عوام کی خوشحالی میں اضافہ ہوگا۔ ان تمام بیانات، خیالات اور نظریات کے باوجود ہنوز ترکی کو کامیابی نہیں ملی کہ یورپین یونین کے کئی سرکردہ لیڈر ترکی کی رکنیت کے مخالف ہیں،جرمنی کے سرکردہ قدامت پسند قائد نے ترکی کی رکنیت کے بارے میں وارننگ دیتے ہوئے ایک نیا تنازعہ چھیڑ دیا ہے، انہوں نے کہا کہ ’’ترکی کی رکینت یورپین یونین کو تباہ کردے گی‘‘۔ جرمن قائد کی یہ تقریر یا پالیسی سارے یورپ کے دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے اور دوسرے قدامت پسندوں کے نقطہ نظر کی ترجمانی کرتی ہے۔ ترکی کی رکنیت کے موضوع پر یورپ میں سیاسی،نفسیاتی،ثقافتی اختلافات اس قدر جذباتی اور حساس ہوگئے ہیں کہ اس سے یونین کے رکن ممالک کے درمیان خلیج اور بھی وسیع ہوگئی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اتاترک کی قوم اس خلیج کو پاٹنے کی کیسے، کب، کہاں اور کیونکر کوشش کرتی ہے۔

تازہ ترین