مرتّب: محمّد ہمایوں ظفر
یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب میں جناح میموریل ہائی اسکول میں چھٹی جماعت میں زیرِ تعلیم تھا۔ ہم فیروز والا میں رہتے تھے۔ میرے والد پٹواری تھے۔ انہوں نے شہر سے اعلیٰ نسل کا ایک کتّے کا بچّہ خریدا اور اسے گھر لے آئے۔ اُس کا نام انہوں نے جیکی رکھا۔ ہم اسے فیڈر سے دودھ پلاتے، جب کچھ بڑا ہوا، تو مٹھائی، بسکٹ وغیرہ میں سے اس کا بھی حصّہ رکھتے اور پیار سے اُسے کھلاتے۔ رفتہ رفتہ وہ ہمارے خاندان کے ایک فرد جیسا ہوگیا۔ ایک روز حسبِ معمول میں اسے رفعِ حاجت کے لیے کھیتوں میں لے گیا۔
والد صاحب زیادہ تر گھر ہی پر ہوتے تھے، جیکی کو دودھ پلانا، اُس کی خوراک کا خیال رکھنا اور اُس کی دیکھ بھال میری ڈیوٹی تھی۔ جیکی بھی ہمارا بہت خیال رکھتا تھا، ہماری حویلی اور گائے، بھینسوں کی نگرانی کرتا تھا۔ اس کی موجودگی میں ہم بے فکر سوجاتے اور وہ ساری رات جاگتا، اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتا۔ مجال ہے کہ کوئی چیز ہلے یا کوئی سرسراہٹ ہو، تو وہ کسی سُستی کا مظاہرہ کرے۔ کہیں ذرا سی کوئی سرسراہٹ ہوتی اور وہ الرٹ ہوجاتا۔ وہ اپنی ذمّے داری اس ہوشیاری سے انجام دیتا تھا کہ شاید ہی کوئی تن خواہ دار چوکیدار بھی دے سکتا ہو۔
ایک دن میں اُسے لے جاکر کھیتوں میں ٹہلا رہا تھا کہ اچانک اُس کی نظر ایک سانپ پر پڑی۔ سانپ دیکھتے ہی وہ زور زور سے بھونکنے لگا، پھر اچانک بھاگتا ہوا اُس کے سر پر پہنچ گیا، سانپ بھی اسے دیکھ کر خوف زدہ ہوگیا اور ایک طرف سہم کر ڈھے سا گیا۔ کچھ دیر تک تو جیکی بے تحاشا بھونکتے ہوئے اُس کے اِرد گرد منڈلاتا رہا، پھر اچانک اُس پر جھپٹا اور چشم زدن میں اُسے دبوچ کر کھا گیا۔ مَیں یہ دیکھ کر کافی خوف زدہ ہوگیا اور گھر آکر والدہ کو ساری بات بتادی۔ والدہ یہ سُن کر کفِ افسوس مل کر رہ گئیں، انہوں نے سختی سے مجھے کہا کہ ’’اسے کھیت کے پاس باندھ دو اور خبردار اس کے قریب نہ جانا۔‘‘
مَیں نے والدہ کی ہدایت کے مطابق اُسے کھیت کے قریب ایک درخت سے باندھ دیا۔ چند گھنٹے بعد سانپ کے زہر نے اپنا کام دکھانا شروع کردیا اور وہ بُری طرح کانپنے لگا، پھر منہ سے جھاگ بھی نکلنا شروع ہوگئی، کچھ دیر تک بے چینی سے اپنا سر درخت کے تنے سے ٹکراتا رہا اور پھر تھک ہار کر بیٹھ گیا۔ اس کی بے چینی بڑھتی ہی جارہی تھی، تھوڑی دیر بعد کھڑا ہوتا، پھر ہانپتے کانپتے گر جاتا، جب مَیں یا میری والدہ اس کی کمر پر ہاتھ پھیرتے اور پیار سے کہتے کہ ’’اوے لاڈلے جیکی! تمہیں کیا ہوگیا ہے؟‘‘ تو وہ خود کو سنبھالا دیتا اور کھڑا ہوجاتا۔ سانپ کا زہر شاید اس کے پورے جسم میں سرایت کرگیا تھا، اتنی تکلیف کے باوجود ہم دونوں کا مطلب سمجھ کر دُم ہلادیتا، اور ہمیں کچھ نہ کہتا۔ وہ بے بس تھا، ہوش و حواس اُس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے، لیکن وہ محسن کے ہاتھ پہچانتا اور کچھ نہ کہتا۔
آخرکار، میری والدہ نے مجھ سے کہا کہ ’’جاؤ بیٹا، اپنے تایا جی کو بلا لاؤ۔ اُن سے کہنا کہ اپنی بندوق بھی ساتھ لیتے آئیں۔ خیر، تایاجی جب آگئے، تو ہم نے انہیں پورا قصّہ بتایا۔ وہ بھی بہت افسردہ ہوئے اور دُکھی دل کے ساتھ انہوں نے جیکی پر دو گولیاں چلادیں، جس سے وہ زخمی ہوگیا۔ ہمیں اس طرح گولیاں چلا کر اُسے مارنے پر بہت دُکھ ہورہا تھا۔ تایا جی کے ہاتھ بھی کانپ رہے تھے، جب دو گولیاں لگنے کے باوجود وہ نہ مرا، تو تایا جی نے تیسری گولی بھی چلادی، لیکن وہ گولی زنجیر پر لگی، زنجیر ٹوٹتے ہی جیکی آزاد ہوکر ہماری طرف بھاگا۔
وہاں موجود سب لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ اب یہ کسی نہ کسی پر حملہ کرے گا اور کاٹ کھائے گا، لیکن حیرت انگیز طور پر ہمارے نزدیک پہنچ کر قدموں کو چاٹنے لگا، پھر زمین پر لیٹ گیا۔ اُس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے کہہ رہا ہو کہ ’’مجھے تم سے یہ اُمید نہ تھی۔‘‘ بہرحال، اُس نے ہمارے سامنے ہی دَم توڑ دیا، لیکن ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ آج بھی اُس کی یاد آتی ہے، تو اُس کی اَن مول وفا کے نام کئی آنسو پلکوں سے نکل کر زمین میں جذب ہوجاتے ہیں۔ (ظفر اقبال باجوہ، صادق روڈ، گوجرانوالہ)
سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!
اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے، جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بِنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز، اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔
ایڈیٹر، ’’سنڈے میگزین‘‘ صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار
برائے صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘
٭ عزّت کی بھینٹ (زینت فاطمہ، جہانگیر پورہ، پنڈی بھٹیاں، حافظ آباد)٭ بابا بندر کی کہانی (ظہیر انجم تبسّم، جی پی او، خوشاب)٭ یہ میری آپ بیتی (منظور احمد جنجوعہ، سکنہ ڈھوک کیاٹی، تحصیل مَری، راول پنڈی)٭ ناقابلِ فراموش تحریر (اظہر علی، ساندہ، لاہور)٭زیست کی گواہی (سیّد حماد عالم، امریکا)۔
برائے صفحہ ’’متفرق‘‘
٭معروف نعتوں کے شعرائے کرام (فیصل کان پوری)٭شادی (شری مُرلی چند، گوپی چند جی گھوکلیہ ، شکارپور)٭ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا انٹرویو (ایم مشتاق بھٹی ایڈوکیٹ، کراچی)٭ سیّد نور علی ضامن حسینی (محمد مشتاق احمد سیال، بہاول پور)٭ریاست ِ مدینہ +وقت کے وہ لمحے جنہیں میں نے قیدی بنالیا (ڈاکٹر عبدالعزیز چشتی، شور کوٹ، ضلع جھنگ)٭تاریخ ساز، علّامہ میر غلام احمد کشفی (ڈاکٹر الٰہی بخش اعوان)۔