• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہزادہ بشیر محمّد نقشبندی، میرپورخاص

قریباً دو دَہائیوں پر محیط سیاسی جدّوجہد، ورلڈ کپ جتوانے اور مُلک میں کینسر کا جدید اسپتال بنوانے جیسے کاموں نے عمران خان کو عوام میں اس قدر مقبولیت بخشی کہ 2018ء کے عام انتخابات میں پاکستانی قوم، بالخصوص نوجوانوں نے انہیں’’نجات دہندہ ‘‘سمجھ لیا اور اپنے مسائل کے حل کے لیے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا۔ لیکن بد قسمتی سے ساری تدبیریں اُلٹی پڑگئیں، مسائل تو کیا ہی حل ہوتے، اُلٹا منہگائی، بے روزگاری میں کئی گُنا اضافہ ہوگیا۔

پی ٹی آئی نے ترقّی اور تبدیلی کے بلندبانگ دعووں کے سبب ووٹ تو لے لیے، مگر ان ووٹس کا حق ادا کرنے میں ناکام رہی، نتیجتاًتبدیلی کے خواہاں بے چارے عوام غربت و افلاس، قرضوں، بھوک، پریشانیوں کی دلدل میں دھنستے ہی چلے جارہے ہیں۔

ماہرینِ معیشت کہتے ہیں کہ’’عام آدمی کو مُلکی قرضوں یا خسارے سے کوئی غرض نہیں، وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ آٹے، چینی کی قیمت کیا ہے اور روزگار کے کتنے مواقع میسّر ہیں۔‘‘ اور بلاشبہ سو فی صد درست ہی کہتے ہیں۔ اس حکومت میں جس کا جیسےدل چاہ رہا ہے،وہ تجربات کیے جا رہا ہے۔ اسی حوالے سے مَیں حکومت اور ریلوے افسران کی توجّہ ایک انتہائی اہم مسئلے کی جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ چِین سے ریلوے کے خریدے گئے نئے ڈبّوں میں ایک بڑی خرابی ان کی نظروں سے اوجھل رہی ،وہ یہ ہے کہ تیسری برتھ پرایک فرد سیدھا بیٹھ ہی نہیں سکتا، گردن جُھکا کر بیٹھنا پڑتا ہے۔

اب آپ خود سوچیں کہ کئی کئی گھنٹوں کاسفر صرف لیٹے لیٹے کیسے کیا جا سکتا ہے؟جب کہ پرانے ڈبّوں میں آخری برتھ پر مسافر سہولت کے ساتھ بیٹھ سکتا تھا۔ ریلوے افسران صرف کمپنی ہی پرتوجّہ دیتے ہیں، سفری سہولتوں پر نہیں۔ہمارا تو یہ سوال ہے کہ چین سے ڈبّے درآمد کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ کیا اس سے قبل پاکستان میں معیاری ڈبّے نہیں بنتے رہے؟ اور پاکستان میں تیار شُدہ پرانے ڈبّے کہاں گئے؟جو مُلک ایٹم بم بنا سکتا ہے، کیا وہ ریلوے انجن، ڈبّے، مال برداربوگیاں نہیں بنا سکتا۔

قیامِ پاکستان کے وقت ایشیا کا سب سے بڑا ریلوے ورک شاپ، مغل پورہ ہمارے حصّے میں آیا، چین اور جاپان تواس وقت آزاد بھی نہیں ہوئے تھے کہ ایک ہیروشیما، ناگاسا کی کے زخم چاٹ رہا تھا، تو دوسرا غلامی کے دن کاٹ رہاتھا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم انہیں ریلوے پارٹس، بوگیاں اور دوسرا ریلوے سامان برآمد کرتے،مگر یہاں تو معاملہ ہی برعکس ہے۔

دوسری جانب، اپوزیشن اور دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی حکومت پر ’’تنقید برائے تنقید‘‘ کرنے کے بجائےعوام کے حقیقی مسائل اجاگر کرنے پر توجّہ دینی چاہیے۔ مگر سچّی بات تو یہ ہے کہ عوام کے مسائل کسی کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں، کوئی اپنی کرسی بچانے میں مصروف ہے، تو کوئی کرسی حاصل کرنے کی تگ و دو میں۔

تازہ ترین