• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کی دھرتی اجرک کے رنگوں کی طرح ایک کشش رکھتی ہے جنہیں دیکھ کر قدم کھنچے چلے جاتے ہیں۔ یہ رنگ خوشی اور غم کا امتزاج ہیں۔ کہیں کھیتوں میں مسرتیں کی لہریں اھتی ہیں تو کہیں کچے جھونپڑوں میں کسی کے آنسو چمکتے ہیں۔ اس سرزمین پر جگہ جگہ تاریخی عمارات، قلعے، مساجد، مندر صدیوں سے اسرار کی اوڑھنی اوڑھے خاموش ہیں۔ یہاں کے لوگ اماوس کی راتوں میں قوس و قزح کی امید باندھتے ہیں۔ 

بھارتی سرحد سے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹا سا شہر جاتی سیاحت کے حوالے سے ایک اہم مقام ہے۔ نومبر کی صبح جب اپنی گاڑی میں کا رخ کیا جائے، ایک کے بعد ایک مناظر کھلتے چلے جائیں۔ کراچی سے ڈھائی تین گھنٹے کی مسافت پر ہمارا سفر شروع ہوتا ہے۔ قائدآباد کا پل پار کرتے ہی ڈھابہ نما ہوٹلوں کے سلسلے شروع ہوجاتے ہیں جہاں بیٹھ کر ٹرک ڈرائیوروں کے ساتھ بہترین کڑاہی گوشت اور مکھنی دال کے مزے لئے جاسکتے ہیں۔ چارپائی پر بیٹھ کر بالائی والی چائے کا گھونٹ گھونٹ فرحت بخشتا ہے۔ آس پاس چوکنڈی کے قبرستان میں بھی منقش قبریں دیکھنے اور ان پر تحقیق کے لئے آنے والے ملکی و غیر ملکی ماہرین کی آمدورفت شروع ہوتی ہے۔ 

بازاروں، کارخانوں اور فیکٹریوں کے سلسلے ختم ہوتے ہی ہر سو خاموشی کا راج رہتا ہے۔ سورج مکھی کے پھول جھک کے استقبال کرتے ہیں۔ ٹھٹھہ اور مکلی کے عظیم ورثے آنکھوں میں نور بھرنے لگتے ہیں۔ سنگتراشی کے یہ شاہکار دیکھ کر ان کاریگروں کو سلام پیش کیا جاتا ہے جو اس زمانے میں جدید ٹیکنالوجی سے بے خبر ایک سنار کی طرح کام کرتے گئے۔ سجاول سے ایک سڑک جاتی کی طرف مڑ جاتی ہے۔ یہاں آس پاس سرسبز کھیتوں میں موسم سرما کی آمد کا پتا ملتا ہے۔ گھنے درختوں کی چھائوں میں بیٹھ کر لسی پی جائے تو سندھ کی خوبصورتی بڑھنے لگتی ہے۔ کھیتوں کے اس پار مساجد اور مزاروں کے گنبد دکھائی دیتے ہیں۔ 

ان اولیاء کے مدفون پر ہر وقت دیگیں پکتی ہیں، زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ جن کی خواہش پوری ہوتی ہے، وہ نذرانہ لاتے ہیں۔ جن کی نہیں ہوتی، وہ انتظار کرتے ہیں۔ یہاں ٹھٹھہ سے جاتی کیلئے ہائی روف گاڑیاں چلتی ہیں جو فی مسافر ڈیڑھ سو روپے لے کر منزل تک بخیریت پہنچاتی ہیں۔ قریبی کھیتوں سے ہٹ کر وسیع تالاب اور جوہڑ بنے ہوئے ہیں جن میں سائبیریا سے آنے والے پرندوں کے نظارے حیرت زدہ کرتے ہیں۔ ان کا حسن جنگلات میں اضافہ کرتا ہے۔

کراچی کے سی وی سے لاڑکانہ کی جھیلوں تک ان پرندوں کے شور سے آسمان بھر جاتا ہے مگر کچھ عرصے سے غیر قانونی شکار کے باعث ان جھیلوں کا پانی معصوم پرندوں کے خون سے لال ہونے لگا ہے۔ سردیاں آتے ہی یہ اپنی آبی خوراک ڈھونڈنے یہاں اترنے لگتے ہیں مگر اب چند گھنٹوں کے فاصلے پر وہ سرحد کے اس پار بڑی تعداد میں آتے ہیں کہ وہاں ان کے تحفظ اور بقاء کیلئے تشہیری مہم چلائی جاتی ہے، لاکھوں ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں۔

جاتی شہر کے بازاروں میں ایک ٹھنڈک سی گھلی ہے، عجیب سی خاموشی میں لوگ کھوئے کھوئے چلتے ہیں۔ دکاندار، سیاحوں کا استقبال ہاتھ جوڑ کے کرتے ہیں۔ یہیں پر شیخ سلامت کا مزار ہے۔ تقسیم سے قبل ہندوستان سے بھی ان کے مرید کشتیوں کے ذریعے آتے تھے۔ یہ علاقہ پرانی ثقافت اور رسم و رواج کا امین ہے۔ گلی، کوچوں میں نرم گھاس قالین کی طرح بچھی ہوئی ہے۔ درگاہ کے عقب میں شیشے کے اندر ایک سیاہ پتھر رکھا ہوا ہے۔ یہاں ایک خانقاہ بھی ہے۔ مقامی باشندے دن میں دو بار نقارے بجا کر نیاز کی تقسیم کا اعلان کرتے ہیں۔ 

اس مزار کو ہر سال گائوں کی عورتیں دودھ سے دھوتی ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ شہر سے آگے ساحلی پٹی پر ایک بار پھر مہمان پرندوں کا نظارہ ملتا ہے۔ پوری فضا میں ایک پرسکون ٹھہرائو ہے جیسے کسی فلم کا سیٹ لگا ہو۔ یہاں ایک مسافر خانہ اور لکڑی کی مسجد بھی قائم ہے۔ مسجد کی خوبصورتی اور سادگی سیاح کو ششدر کردیتی ہے۔ یہ شاندار تعمیر کا نمونہ ہے۔ دیواروں اور چھتوں پر دلکش اور منفرد کام دکھائی دیتا ہے۔ لکڑی کے بیل بوٹے اور نقش و نگار اس قدر خوبصورت ہیں کہ آنکھیں چندھیانے لگتی ہیں۔

دن کی روشنی شام کے سایوں میں ڈھلنے لگتی ہے۔ ویران ساحل کے اس پار فوجی نقل و حرکت دکھائی دیتی ہے۔ ایک وقت میں یہاں ریلوے لائن کا کام بھی ہوا تھا جس کی نشاندہی جگہ جگہ بکھرے کھنڈرات کررہے ہیں۔ جاتی سے آگے مشکل اور ایڈونچر راستہ ہے جو مہم جو اور سیاحوں کیلئے ایک نعمت ہے۔ قریبی کھیتوں میں سبز رنگوں کے ساتھ سرخ و سفید اوڑھنیوں میں چہرہ چھپائے کسان خواتین اپنے کام میں مصروف دکھائی دیتی ہیں۔ آگے کی سمت سڑک، دلدلی زمین اور ندی نالوں کی صورت اختیار کرنے لگتی ہے۔ 

گاڑی روک کر کسی پگڈنڈی پر چلا جائے تو آگے لق و دق صحرائی میدان دکھائی دیتے ہیں مگر ان صحرائی جگہوں پر بھی سمندری ہوائیں چلتی ہیں۔ مقامی افراد کا کہنا ہے یہ کراچی سے ایک دور افتادہ جگہ ہے، بے شک آپ ایک دن میں یہاں گھوم پھر کر واپس جاسکتے ہیں۔ ان ویرانوں میں کہیں مغلوں کی بنائی ہوئی یادگاریں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ تقسیم سے قبل لوگوں کا ذریعہ آمدورفت اونٹ تھا۔ یہ کارواں کی صورت سفر کرتے تھے اور ہندوستانی شہر ’’کچھ‘‘ سے حیدرآباد تک پہنچنا مشکل نہیں۔ شام کے سرمئی سائے میں اونٹوں کے گلے میں بجتی گھنٹیاں سن کر سیاح چونک جاتے ہیں۔ وہ گاڑی دیکھ کر اپنا راستہ بدلنے لگتے ہیں، ان کے نوجوان رکھوالے ننگے پیر چلتے مہمانوں کو دیکھ کر ہاتھ جوڑتے جاتے ہیں۔ 

اونٹ کے پیروں میں بجتے گھنگھرو کی مترنم آواز قدیم زمانوں کی بازگشت بن کر لوٹ جاتی ہے اور یہی وقت سیاح کی واپسی کا ہوتا ہے۔ قریبی جھاڑیوں سے نامانوس آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ جاتی کے بازاروں میں بیٹھے لوگ حیران نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ اس سمے یہ کون اجنبی ہماری دنیا میں داخل ہوگئے۔ یہ تو کاغان، سوات کے دلدادہ ہیں، یہ اپنا سرمایہ وہاں خرچ کرتے ہیں، ان جنگل ویرانوں میں ان کا دل نہیں لگ سکتا۔ یہاں ماضی کے اوراق پھڑپھڑا کر رہ جاتے ہیں جنہیں پڑھنے والا کوئی نہیں۔

دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان یہ سرحدی پٹی کسی زمانے میں بان گنگا کہلاتی تھی پھر یہ ایک انگریز افسر سر کریک کے نام سے موسوم ہوئی۔ اس غیر آباد علاقے میں مون سون کی بارشیں تباہی مچا دیتی ہیں۔ بھارت نے اپنے علاقے میں پختہ فرش اور اونچی برجیاں بنا دی ہیں جن پر دوربین فٹ کی ہوئی ہے۔ بھارتی سیاح ان سے دور دور تک نظارے دیکھتے ہیں مگر ہماری طرف ایسا کوئی انتظام نہیں کہ سیاح یہاں کا رخ بھی کرسکیں۔

تازہ ترین