میں آج کا اپنا یہ ہفتہ وارکالم تحریر کرتے وقت اپنے آپ کو دنیا کا خوش نصیب ترین انسان محسوس کر رہا ہوں جس پر مالک نے اپنی بے انتہا رحمتوں کا نزول کیا اور آج سے چند برس پہلے میں نے ملک میں مذہبی سیاحت کے فروغ کا جو خواب دیکھا تھا، وہ اُس وقت ناممکن نظر آتا تھا لیکن خدا کے کرم سے آج وہ حقیقت کا رُوپ دھار گیا ہے، آج میرا اس پر یقین اور زیادہ بڑھ گیا ہے کہ اگر نیک نیتی سے درست سمت کی جانب جدوجہد کی جائے تو خدا اپنے بندوں کی کامیابی کیلئے خود راستے بناتا ہے ۔ آج سے دودن قبل 30 نومبر کو آنندپور سے شری گرو مہاراج کی قیادت میں پشاور ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے والا انٹرنیشنل یاتریوں کابڑا وفدایک ہفتے بعد پاکستان سے خوشگوار یادیں لے کر بخیر وخیریت واپس روانہ ہوگیا ہے، شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی کی یاترا کرنے والوں کا تعلق امریکہ، اسپین، آسٹریلیا، بھارت، برطانیہ، سنگاپور اور یورپ سمیت مختلف ممالک سے تھاجبکہ ایک بڑی تعداد پاکستان کے مختلف علاقوں میں بسنے والوں کی بھی تھی ، شری پرم ہنس جی مہاراج ایک انسان دوست شخصیت تھے جن کے ماننے والوں کا تعلق مختلف مذاہب سے تھا، انہوں نے برصغیر میں پرم ہنس ادویت مت نامی روحانی سلسلہ پنتھ کی بنیاد رکھی ، ان کی سمادھی1919 میں موجودہ پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرک میں واقع ٹیری علاقے میں موجود ہے جہاں انہوں نے ایک کرشن دوارا آشرم قائم کیا تھا،شری پرم ہنس جی مہاراج کے ماننے والوں نے ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آشرم قائم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا، آج دنیا کے ہر ملک میں بڑے بڑے آشرم موجود ہیں۔ میرے لئے یہ اعزاز کی بات تھی کہ آزادی کے بعد پہلی مرتبہ عالمی ممالک سے تعلق رکھنے والے ہندو یاتریوں نے لگ بھگ سات دہائیوں بعد پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا اس موقع پر مجھے آج سے دو دہائیاں قبل کا واقعہ بھی یاد آگیا جب1997 میں سمادھی پر قبضے کی کوشش کی گئی تھی، سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کی جدوجہد میںسول سوسائٹی اور میڈیاکا تعاون بھی مجھے میسر رہا، یہ میری زندگی کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے کہ2014 میں سپریم کورٹ میں یہ معاملہ لے جانے کے صرف سات سال بعدنہ صرف میں خودشری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی پر حاضری دینے کی جدوجہد میں کامیاب ہوا بلکہ عالمی یاتریوں کے وفد نے بھی دورہ کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس تاریخی اقدام کا کریڈٹ جناب چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کو جاتا ہے جنہوں نے گزشتہ برس سمادھی پر شرپسند عناصر کے حملے کا فوری نوٹس لیا اورٹیری مندر کی بحالی کے بعد وہاں دیوالی کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شریک ہوکرغیر مسلم اقلیتوں سے اظہار یکجہتی کیا۔ پاکستان کے تمام سیکورٹی ادارے بشمول رینجرز، آئی ایس آئی،ایف آئی اے اور اے ایس ایف وغیرہ نے انٹرنیشنل یاتریوں کے وفد کی حفاظت یقینی بنانے کیلئے بہترین اقدامات اٹھائے، مجھ سے ملاقات کے دوران تمام یاتریوں نے قومی ایئرلائن پی آئی اے کی سروس کو مثالی قرار دیتے ہوئے مہمان نوازی پر خصوصی تشکرانہ کلمات کا اظہار بھی کیا، انہوں نے بتایا کہ پی آئی اے کے عملے اور سیکورٹی اداروں کے دوستانہ رویے نے ان کے دِل جیت لئے ہیں ، یاتریوں کے بقول دورہ پاکستان کے دوران صوبائی حکومتوں کی جانب سے زبردست انتظامات کئے گئے۔ پاکستان ہندوکونسل بہت جلد پی آئی اے کے ساتھ ایک مفاہمتی یاداشت پر دستخط کرنے جارہی ہے جس کے تحت دونوں ادارے ملک میں مذہبی سیاحت کے فروغ کیلئے دوطرفہ تعاون کو مستحکم کریں گے،پہلے مرحلے میں ہر ماہ 169مسافروں پر مشتمل ایک خصوصی فلائٹ کراچی سے پشاورچلائی جائے گی ، اسی طرح ایک انٹرنیشنل فلائٹ 330یاتریوں کو لے کر دبئی سے پشاورآئے گی، ان دونوں پروازوں کی واپسی اسی دن ہوگی اور شری پرم ہنس جی مہاراج کے عقیدت مند ان کی سمادھی کی یاترا کرنے کے بعد واپس روانہ ہوجائیں گے، اگلے مرحلے میں دنیا کے دیگر ممالک کے یاتریوں کی آمدورفت کیلئے پی آئی اے دیگر عالمی شہروں سے بھی پرواز شروع کرے گی، مذہبی سیاحت کے فروغ کا یہ سلسلہ رُکے گا نہیں بلکہ نئی دہلی ، کلکتہ اور ممبئی سے بھی پی آئی اے کی خصوصی پروازیں ٹیری مندر کی یاترا کرنے والوں کیلئے شروع کی جائیں گی، اسی طرح ہنگلاج ماتا مندر بلوچستان کیلئے بھی پی آئی اے کی چارٹرڈ فلائٹس کی تجویز زیرِ غور ہے، جبکہ اسلام آباد سے ہیلی کاپٹر سروس کے آغاز کا بھی اردہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انٹرنیشنل یاتریوں کی اتنی بڑی تعداد میں تاریخی آمد سے نہ صرف پاکستان کا امیج مثبت انداز میں بہتر ہوا ہے بلکہ مقامی علاقے کی ترقی و خوشحالی کی راہ بھی ہموار ہوئی ہے۔ شری گرو مہاراج اس تاریخی یاترا سے بہت خوش نظر آئے،ضروری ہے کہ شری پرم ہنس جی مہاراج کی انسان دوست تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے سب سے پہلے ٹیری کے مقامی لوگوں کے علاج معالجے کیلئے ڈسپنسر ی اور دیگر فلاحی کاموں کا آغاز کیا جائے،مزیدیہ کہ پا کستان اور بھارت کے وزراء اعظم کے مابین خیرسگالی ملاقات کرانےکا ماحول پیدا کیا جائے تاکہ ہمارا خطہ دوطرفہ تناؤ اور کشیدگی کے ماحول سے نکل کر امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)