سندھ کے تمام اضلاع میں وومن پولیس اسٹیشن کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے، کراچی، حیدرآباد، شہید بے نظیر آباد اور لاڑکانہ میں وومن پولیس اسٹیشن موجود ہیں، جب کہ سندھ کے کسی بھی اور ضلع میں جن کی تعداد 20 ہے، وہاں تاحال وومن پولیس اسٹیشن قائم نہیں کئے جاسکے اور نہ ہی لیڈی پولیس کانسٹیبلز کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوسکا ہے، وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے خواتین پر تشدد کو روکنے ، خواتین کو تحفظ فراہم کرنے اور خواتین کی ترقی خوش حالی کے لیے قانون سازی اور اعلانات تو کئے جاتے ہیں، لیکن عملی طور پر ان پر اس طرح خاطر خواہ عمل درآمد اقدامات ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔
مختلف شعبوں خاص طور پر بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے سندھ حکومت نے جو کام کیا ہے، وہ قابل تحسین ہے، جس کے دیرپا اور مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور مستقبل میں بہتر نتائج ملیں گے۔ خواتین پر تشدد کے واقعات کی روک تھام کے حوالے سے جو قوانین بنائے گئے ہیں، ان پر عمل درآمد کے ساتھ ضروری ہے کہ ہمیں پولیس میں خواتین کے شعبے کو مضبوط کرنا ہوگا اور مرحلہ وار سندھ کے تمام اضلاع میں وومن پولیس اسٹیشن کے قیام خواتین پولیس افسران اور لیڈی کانسٹیبلز کی بھرتیوں پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔
کیوں کہ ماضی کے مقابلے میں آج خواتین کی بڑی تعداد سیاست، سرکاری اور نجی اداروں سمیت مختلف شعبوں میں خدمات انجام دیتی دکھائی دے رہی ہے جو کہ خوش آئند بات ہے، لیکن خواتین پر تشدد خاص پر طور سیاہ کاری، گھریلو تشدد ، سن چٹی، کم عمری میں شادی کے واقعات میں کمی ضرور آئی ہے، لیکن اس طرح کے واقعات دیہی اور پسماندہ علاقوں میں آج بھی سامنے آتے ہیں، جس کی روک تھام کے لیے حکومت نے قانون سازی بھی کی ہے، لیکن ضروری ہے کہ اس کے لیے قانون سازی کے ساتھ اس پر مکمل عمل درآمد اور ٹھوس بنیادوں پر مستقل بہتر حکمت عملی کے ساتھ اقدامات بھی کئے جائیں، تو مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
ہمیں سیاہ کاری، سن چٹی، کم عمری میں شادی جیسی فرسودہ رسومات کو ختم کرنا ہوگا، جس کے لیے پسماندہ علاقوں میں سڑکیں صحت اور نظام تعلیم کے نظام کو بہتر بنانا اور جہاں یہ سہولیات موجود نہیں، وہاں فراہم کرنا ہوں گی، تاکہ ان فرسودہ رسومات تعلیم اور ترقی کے اس سفر میں دب کر رہ جائیں، یہ بات قابل تحسین ہے کہ جس طرح آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔
اس طرح خواتین پر تشدد سیاہ کاری، جنسی زیادتی، ہراسمنٹ اور کم عمری میں شادی سمیت سنگین نوعیت کے دیگر واقعات میں اضافے کے بہ جائے کمی دیکھی جارہی ہے، لیکن ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں خواتین نے مختلف شعبہ جات میں نمایاں ترقی اور کامیابیاں حاصل کی ہیں وہیں پسماندہ کچے کے خاص طور پر دور دراز علاقوں میں ہماری خواتین ان فرسودہ رسومات میں جکڑی دکھائی دیتی ہیں جس کے لیے ایسے پسماندہ علاقوں کو خصوصی طور پر فوکس کرنا ہوگا؛ کیونکہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے متعدد تنظیمیں کام کرتی دکھائی دیتی ہیں، لیکن یہ تنظیمیں عملی کام کے بجائے بڑے ہوٹلز میں سیمنار پریس کانفرنس کرکے اپنی کاروائی کو مکمل کرتی دکھائی دیتی ہیں، جسے ہم صرف کاغذی خانہ پوری ہی کہہ سکتے ہیں۔
اس کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر آگے بڑھنا ہوگا، حکومت وزیر اعلی سندھ، آئی جی پولیس اور منتخب اراکین اسمبلی خاص طور خواتین اراکین اسمبلی کی یہ ذمےداری ہے کہ وہ قانون سازی کے ساتھ عملی میدان میں بھی اقدامات کریں، تاکہ اس کے مثبت نتائج حاصل ہوسکیں، کیونکہ خواتین پر تشدد سیاہ کاری ، سن چٹی اور تشدد سمیت دیگر سنگین نوعیت کے واقعات کی روک تھام کے لئے مزید ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے، جس میں پولیس کو بھی متحرک اور موثر کردار ادا کرنا ہوگا، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پولیس میں اس حوالے سے ماضی کے مقابلے میں بہت بہتری آئی ہے اور پولیس نے سوشل میڈیا یا اپنی کسی اطلاع پر بروقت کارروائی کرکے مختلف علاقوں میں سنگ چٹی، کم عمری میں شادی کی روک تھام کو یقینی بنایا، جس سے اس طرح کے واقعات کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے، کیونکہ ماضی میں پولیس اس حوالے سے اتنی زیادہ متحرک نہیں تھی اور سیاہ کاری کے ملزمان واردات کے بعد پولیس کی گرفت سے با آسانی نکل جاتے تھے، لیکن اب اکثر واقعات میں پولیس جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے ملزم کو گرفتار کرلیتی ہے، جس کی حالیہ مثال سیاہ کاری کا ایک افسوس ناک واقعہ سکھر کے تعلقہ صالح پٹ کے علاقے میں پیش آیا۔
ترجمان پولیس میر بلال لغاری کے مطابق نواحی علاقے جنوجی تھانے کی حدود میں شہمیر نے سیاہ کاری کا الزام لگا کر اپنی 20 سالہ بیوی مسمات پیاری کا گلہ دبا کر اسے قتل کردیا، اطلاع ملتے ہی ایس ایس پی سکھر عرفان علی سموں نے پولیس پارٹی کو موقع واردات پر روانہ کیا اور پولیس نے موقع پر پہنچ کر ملزم کے فرار کی کوشش کو ناکام بناتے ہوئے ملزم کو کجھور کے باغات سے گرفتار کرلیا۔
پولیس کے مطابق ملزم نے بتایا کہ اس نے سیاہ کاری میں اپنی بیوی کا گلہ دبا کر اسے قتل کیا ہے، مقتولہ کے والد ملوک کی مدعیت میں پولیس نے مقدمہ درج کرلیا ہے پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکی کے والد کو شبہ ہے کہ اس کی بیٹی کے قتل میں اس کے داماد کے ساتھ اس کے دیگر عزیز بھی شامل ہوسکتے ہیں، پولیس تفتیش کررہی ہے، اس طرح کے واقعات سمیت دیگر سنگین نوعیت کے واقعات کی روک تھام اور خواتین کی جائز شکایات کے ازالے کے لیے اگر تمام اضلاع میں ممکن نہیں تو چند بڑے شہروں خاص طور پر سکھر جو کہ سندھ کا تیسرا بڑا اور کئی لاکھ آبادی کا شہر ہے یہاں وومن پولیس اسٹیشن قائم کیا جائے، کیونکہ سکھر میں اعلان کئے جانے کے باوجود وومن تھانے کا قیام عمل میں نہیں لایا جاسکا ہے۔
چار سال قبل اس وقت کے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے سکھر میں وومن پولیس اسٹیشن کے قیام کا اعلان کیا تھا، جو کہ ان کے تبادلے کے بعد آج تک صرف کاغذوں کی حد تک محدود ہے، جب کہ اس شہر میں وومن پولیس اسٹیشن کی اشد ضرورت اور افادیت ہے، کیونکہ سکھر ایک بڑا شہر بلکہ تجارتی حب بھی ہے، جہاں سندھ کے مختلف اضلاع شکارپور، کندھکوٹ، جیکب آباد، گھوٹکی، خیرپور، بلوچستان اور پنجاب کے قریبی علاقوں سے لوگ خریداری کے لیےآتے ہیں اور بڑا شہر ہونے کے باعث مختلف علاقوں سے متاثرہ خواتین بھی تشدد کی شکایت یا تحفظ کے لیے سکھر کا رخ کرتی ہیں، وومن پولیس اسٹیشن نہ ہونے کے باعث انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ بات بھی کسی حیرت سے کم نہیں کہ سکھر شہر میں وومن جیل موجود ہے، لیکن پولیس اسٹیشن نہیں ہے، جس کے باعث خواتین وومن پروٹیکشن سیل یا پریس کلب کا رخ کرتی ہیں، دیگر رشتے داروں کے تشدد ، گھروں پر قبضے ، گھر سے بے دخل کئے جانے یا سیاہ کاری کا الزام لگائے جانے کی شکایت کرتی ہیں۔ وومن پروٹیکشن سیل یا وومن پولیس سینٹر کے قیام سے پولیس کے مطابق شکایت لے کر آنے والی خواتین کی شکایات کا ازالہ اور انہیں مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔
خواتین پر گھریلو تشدد کو روکنے کے لیے جو قانون بنا ہے اس کی افادیت جب ہوگی کہ جو شخص مجرم کی طرح کسی خاتون پر تشدد کرتا ہے تو اسے سزا بھی مجرم جیسی ہی ملنی چاہیے یہ نہیں کہ کوئی خاتون کو دن رات تشدد کا نشانہ بنائے وہ خاتون ریلیف اور تحفظ کے لئے وومن پروٹیکشن سیل میں شکایت لے کر جائے اور وومن پروٹیکشن سیل کاروائی کے بجائے ان میں صلح کرادے، یہ نا مناسب ہے گھروں کو بسانا ضروری ہے اور صلح بہتر عمل ہے، سب کی یہی خواہش ہوتی ہے لیکن یہ عمل درست نہیں کہ تشدد کرنے والے کے خلاف کارروائی کے بہ جائے صلح کرادی جائے، ایسا ہوگا تو یہ سلسلہ نہیں رکے گا، ہمیں خاتون پر دوبارہ تشدد نہ کرنے کی ضمانت لینی ہے اور ایسا قانونی طریقہ اپنانا ہے کہ وہ شخص دوبارہ ایسا نہ کرسکے اس تمام تر صورت حال میں وومن پولیس اسٹیشن کا قیام انتہائی ضروری ہے۔
جہاں انسپیکٹر سطح کی لیڈی ایس ایچ او اور تمام عملہ لیڈی پولیس پر مشتمل ہو اور ایف آئی آر کا اندارج بھی ہوسکے، تو ظلم کا شکار خواتین کو بہت زیادہ ریلیف ملے گا، اور ان واقعات میں نمایاں کمی آئے گی، ہم تو سالوں سے اس کا مطالبہ کرتی آرہی ہیں، اور اس اہم مسلئے پر چار سال قبل اس وقت کے آئی جی اے ڈی خواجہ نے توجہ دی اور وومن تھانے کے قیام کا اعلان کیا تاکہ خواتین کی شکایات کا یقینی اور بروقت ازالہ ممکن ہوسکے، لیکن ان کے تبادلے کے بعد وومن پولیس اسٹیشن کا معاملہ کٹھائی میں پڑ گیا، اور اس اہم معاملے پر حکومت آئی جی سندھ یا مقامی افسران نے کوئی توجہ نہیں دی جس کے باعث وومن تھانے کے قیام کا منصوبہ بننے سے پہلے ہی دم توڑ گیا۔
اس وقت کراچی حیدرآباد، شہید بینظیر آباد اور لاڑکانہ میں وومن پولیس اسٹیشن موجود ہیں، لیکن سکھر سندھ کا تیسرا بڑا اور اہم شہر ہے اس ضلع کی آبادی بھی 15 سے 20 لاکھ ہوگی لیکن وومن پولیس اسٹیشن نہیں ہے، ہونا تو یہ چاہیے کہ سندھ کے تمام اضلاع میں ایک وومن پولیس اسٹیشن لازمی ہو جہاں خواتین با آسانی جاکر اپنی شکایت درج کراسکیں تاکہ انہیں فوری ریلیف اور انصاف ملے، اور سکھر میں وومن جیل جو پرانی ڈسٹرکٹ جیل ہے اس کی بہت بڑی باونڈری وال والی عمارت وسیع اراضی پر بنی ہوئی ہے وہاں وومن پولیس اسٹیشن قائم کی جاسکتی ہے۔
آج کے دور میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ سیاست، ملازمت اور دیگر شعبوں میں اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کررہی ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ خواتین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے خاص طور پر بچیوں کی تعلیم و تربیت پرخصوصی توجہ دی جائے جتنی زیادہ خواتین تعلیم یافتہ ہوں گی، اتنا ہی تیزی سے معاشرے سے ان فرسودہ رسم و رواج کا خاتمہ ہوگا، سندھ حکومت کے اس حوالے سے اقدامات قابل تعریف ہیں حکومت کے ساتھ ہم سبکو اپنا اپنا کرادار ادا کرنا ہوگا۔
گزشتہ 5 سے 6 سالوں کے دوران سندھ پولیس کی جانب سے خواتین کو تحفظ اور قانونی معاونت فراہم کرنے کے لئے جو اقدامات کئے گئے ہیں اس کے تحت مختلف اضلاع میں وومن ہیلپ سینٹرز اور وومن پروٹیکشن سیل قائم ہیں لیکن ان کے وہ خاطر خواہ نتائج دکھائی نہیں دیتے جو کہ نظر آنے چاہیں، ان شعبوں کی کارکردگی کو ترجیحی بنیادوں پر بہتر بنانے کی ضرورت ہے، خاص طور پر وومن پولیس اسٹیشن کا قیام انتہائی ضروری ہے، یہاں یہ بات بھی قابل تحسین ہے کہ حکومت وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے جس طرح تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے اقدامات کئے اور پرائمری سے یونیورسٹی تک بچیوں کے لئے اعلی اور معیاری تعلیمی ادارے بنائے وہ قابل تحسین ہیں۔
سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات کو مفت تعلیم خاص طور پر طالبات کو اسکول آنے کا وظیفہ، کچے کے پسماندہ علاقوں میں سڑکیں، صحت تعلیم کی سہولیات کے مثبت اور دیرپا نتائج ملیں گے، سکھر کے شہری تجارتی، عوامی، مذہبی، سیاسی سماجی حلقوں کا حکومت سندھ وزیر اعلی سید مراد علی شاہ، آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر سید خورشید احمد شاہ اور صوبائی وزیر سید ناصر حسین شاہ سے مطالبہ کیا ہے کہ سکھر میں وومن پولیس اسٹیشن کا قیام ترجیحی بنیادوں پر یقینی بنایا جائے تاکہ متاثرہ خواتین باآسانی وومن پولیس اسٹیشن جاکر ریلیف حاصل کرسکیں۔