پاکستان، آئی ایم ایف سے امداد لینے والے دنیا کے چار ممالک میں شامل ہے۔بد قسمتی سے حکم رانوں کی ناقص حکمتِ عملی، بدعنوانی اور اقربا پروری جیسے ناسوروں کے سبب یہ مُلک تمام تر دعووں کے باوجود آئی ایم ایف کے چنگل سے نہیں نکل سکا اور آنے والے دنوں میں اس کا شکنجہ مزید تنگ ہوتا دِکھائی دے رہا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)1944 ء میں وجود میں آیا۔ اسے دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا میں مالی استحکام کے لیے بنایا گیا تھا۔اس کا بنیادی مقصد عالمی مالیاتی تعاون کا فروغ، مالی استحکام، بین الاقوامی تجارت میں آسانی، روزگار، پائیدار معاشی ترقّی کا فروغ اور دنیا بھر میں غربت کم کرنا ہے۔
یہ190 رکن ممالک پر مشتمل ہے اور اس کا مرکزی دفتر، واشنگٹن ڈی سی میں ہے۔یہ عالمی مالیاتی نظام میں استحکام اور بحرانوں کی روک تھام کے لیے رُکن ممالک کی پالیسیز کے ساتھ قومی، علاقائی اور عالمی اقتصادی اور مالیاتی پیش رفت کو بھی مانیٹر کرتا ہے۔ ایسے رُکن کو قرض فراہم کرنا،جو حقیقی یا ممکنہ ادائیوں کے توازن کے مسائل کا سامنا کر رہا ہو، آئی ایم ایف کی بنیادی ذمّے داری ہے۔1971ء کے بعد شرح تبادلہ نے آئی ایم ایف کا کردار تبدیل کیا، جس کے باعث اس کا اپنے مقروض ممالک کی اقتصادی پالیسیز کی جانچ پڑتال کی طرف رخ ہوا۔ رُکن ممالک نے اسے بین الاقوامی مالیاتی نظام اور اپنے ارکان کی اقتصادی اور مالیاتی پالیسیز کی نگرانی کا اختیار دیا ہے۔
کم آمدنی والے ممالک ،آئی ایم ایف سے رعایتی شرائط پر قرض لے سکتے ہیں،جس کا مطلب ہے کہ توسیعی کریڈٹ سہولت (ای سی ایف)، اسٹینڈ بائی کریڈٹ فیسیلیٹی (ایس سی ایف) اور ریپڈ کریڈٹ فیسیلیٹی (آر سی ایف) کے ذریعے یہ سہولتیں مل سکتی ہیں۔ غیر رعایتی قرضے، جن میں شرح سود شامل ہے، بنیادی طور پر اسٹینڈ بائی انتظامات (ایس بی اے)، لچک دار کریڈٹ لائن (ایف سی ایل)، احتیاطی اور لیکویڈیٹی لائن (پی ایل ایل) اور توسیعی فنڈ کی سہولت کے ذریعے فراہم کیے جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف ادائیوں کے مسائل کا سامنا کرنے والے ارکان کو ریپڈ فنانسنگ انسٹرومنٹ (آر ایف آئی) کے ذریعے ہنگامی امداد فراہم کرتا ہے۔
تاہم، اگر متعلقہ مُلک کی جانب سے شرائط پوری نہ کی جائیں، تو فنڈز روک بھی لیے جاتے ہیں۔یہاں اِس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ آئی ایم ایف کو پیسے کہاں سے ملتے ہیں؟آئی ایم ایف کو فنڈز اُس کے رُکن ممالک ایک کوٹے کے تحت دیتے ہیں، جس کا تعیّن اُس مُلک کی عالمی معیشت میں پوزیشن کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس عالمی ادارے کے موجودہ وسائل تقریباً1 ٹریلین امریکی ڈالرز کے قرضے دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم، یہ بھی یاد رہے کہ آئی ایم ایف کوئی امدادی ادارہ نہیں ہے، اِس لیے قرض ترجیح بنیادوں پر واپس کرنا پڑتا ہے۔
نیز، وہ قرض دیتے ہوئے مختلف شرائط بھی عاید کرسکتا ہے، جن پر عمل کرنا ضروری ہے۔ آئی ایم ایف سے حاصل کردہ قرض کی شرح سود بہت زیادہ ہوتی ہے، یہاں تک کہ کئی ایک قرضوں پر تو یہ شرح14.56 فی صد تک ہے۔ لہٰذا، ترقّی پذیر ممالک کو قرضوں کی واپسی میں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔علاوہ ازیں، آئی ایم ایف کی طرف سے عاید کردہ سخت شرائط بھی ایک اہم مسئلہ ہے، جس پر اُسے خاصی تنقید کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔1970 ء تک قرضوں کے لیے شرائط عاید نہیں کی جاتی تھیں۔
بعدازاں، آئی ایم ایف نے اصرار کیا کہ قرض لینے والے ممالک BOP خسارے پر قابو پانے کے لیے عوامی اخراجات کم کریں اور اس مقصد کے لیے شرائط کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا، جن میں ایڈجسٹمنٹ پروگرامز کے ساتھ قرض لینے والے ممالک کی کارکردگی کا متواتر جائزہ، پیداواری صلاحیت میں اضافہ، وسائل کی تقسیم میں بہتری، تجارتی رکاوٹوں میں کمی، عالمی بینک کے ساتھ قرض لینے والے مُلک کے تعاون کو مضبوط بنانا وغیرہ شامل ہیں۔یوں یہ ادارہ قرض لینے والے مُلک کی مانیٹری، مالی، تجارتی اور ٹیرف پروگرامز سے متعلق سرگرمیوں پر گہری نظر رکھتا ہے۔
یہ قرض کو بعض اقتصادی پالیسیز کے نفاذ سے مشروط کرتا ہے، جیسے سرکاری قرضوں میں کمی، ٹیکس زیادہ اور اخراجات کم، کرنسی کے استحکام کے لیے زیادہ شرحِ سود، ناکام فرمز کو دیوالیہ ہونے دینا، نج کاری، ڈی ریگولیشن، کرپشن پر کنٹرول اور بیوروکریسی میں کمی۔ یہی سبب ہے کہ مُلک کے اندرونی اقتصادی معاملات میں آئی ایم ایف کی مداخلت حکومتوں کو مشکل صُورتِ حال میں ڈال دیتی ہے۔ پھر یہ کہ آئی ایم ایف پر امیر ممالک کے لیے کام کرنے کا بھی الزام ہے۔
اگرچہ اس کے ارکان کی اکثریت کا تعلق ایشیا اور افریقا کے کم ترقّی یافتہ ممالک سے ہے، لیکن اس پر امریکا جیسے امیر ممالک کا غلبہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کی پالیسیز اور آپریشنز امیر ممالک کے حق میں ہیں۔ ایک مرحلے پر اسے’’ امیر ممالک کا کلب‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ وینزویلا کے صدر، ہیوگو شاویز نے آئی ایم ایف پر چھوٹے ممالک کا استحصال کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اسے’’امریکی سام راج کا میکانزم‘‘ قرار دیا۔
پاکستان پہلی بار 1958ء میں بیل آؤٹ پیکیج کے لیے آئی ایم ایف کے پاس گیا، جس پر اُسے8 دسمبر 1958 ء کو اسٹینڈ بائی انتظام کی بنیاد پر25 ہزار امریکی ڈالرز کا قرض دیا گیا۔ پھر 1965ء میں آئی ایم ایف کے پاس گیا۔ اس بار جنگ زدہ مُلک کو 37,500 امریکی ڈالرز دیے گئے۔تین سال بعد پھر ادائی کے مسائل میں توازن کے لیے آئی ایم ایف سے رابطہ کرکے17 اکتوبر 1968ء کو75,000 ڈالرز حاصل کیے گئے۔1971 ء میں جنگ کی وجہ سے پاکستان کو بہت زیادہ نقصان ہوا، جس کے سبب1972 ء میں84 ہزار ڈالرز، 1973 ء میں75 ہزار ڈالرز اور1974 ء میں75 ہزار ڈالرز بطور قرض لیے گئے تاکہ بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کی جا سکیں۔ 1977ء میں ہنگامی بنیادوں پر80,000 ڈالر کا ایک اور اسٹینڈ بائی انتظام کیا گیا۔
تین سال بعد، یعنی1980 ء میں بات349,000 ڈالرز کی توسیعی سہولت تک پہنچ گئی۔ پاکستان کی جدوجہد جاری رہی اور مزید7 لاکھ 30 ہزار ڈالر حاصل کیے گئے۔ضیاء آمریت کے بعد جمہوریت تو واپس آگئی، لیکن معیشت کو سنبھالا نہ جاسکا۔ بے نظیر بھٹّو حکومت نے28 دسمبر 1988 ء کو اسٹینڈ بائی انتظام کے طور پر 194,480 ڈالرز اور ڈھانچا جاتی ایڈجسٹمنٹ سہولت کے عزم کی شکل میں مزید382,410 ڈالرز لیے۔1993 ء میں بے نظیر بھٹّو دوبارہ اقتدار میں آئیں، تو اُن کی حکومت ایک بار پھر آئی ایم ایف کے پاس گئی اور16 ستمبر 1993ء کو 88,000 ڈالرز حاصل کرنے کا معاہدہ کیا۔اُن کی حکومت معیشت کو سنبھالا نہ دے سکی، جس پر اُنہیں توسیعی فنڈ کی سہولت کے تحت 123,200 ڈالرز کا قرض ملا اور 22 فروری 1994 ء کو مزید172,200 ڈالرز قرض لیا گیا۔
اُس دَور میں معیشت دگرگوں حالت میں رہی اور پاکستان کو بے نظیر بھٹّو حکومت میں ریکارڈ تیسری بار آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ اس بار13 دسمبر1995 ء کو294,690 ڈالرز ملے۔ 1997ء میں نواز شریف اقتدار میں آئے، تو اُن کی حکومت پہلی بار آئی ایم ایف کے پاس گئی اور 20 اکتوبر 1997 ء کو دو مختلف مدات میں 2لاکھ 65ہزار 370 ڈالرز اور 1لاکھ 13ہزار 740 ڈالر حاصل کرنے کا معاہدہ طے پایا۔2008 ء میں یوسف رضا گیلانی کو آئی ایم ایف سے7.6 ارب ڈالرز کا قرض ملا۔2018 ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت قائم ہوئی، تو پاکستان کی ادائیوں کا خسارہ بہت زیادہ تھا اور غیر مُلکی ذخائر صرف دو ماہ کے لیے دست یاب تھے، لہٰذا حکومت نے آئی ایم ایف کی سخت شرائط سے بچنے کے لیے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے دوستانہ قرضوں کا انتظام کیا۔تاہم، 2019ء میں جب معاشی حالات بگڑتے ہی چلے گئے، تو پاکستان 22 ویں بار آئی ایم ایف کے پاس گیا، جس پر عالمی ادارے نے توانائی کے محصولات میں اضافے، توانائی سبسڈی ختم کرنے، مختلف ٹیکسز میں اضافے، سرکاری اداروں کی نج کاری اور بجٹ میں مالی ایڈجسٹمنٹ جیسی شرائط کی بنیاد پر 39 ماہ کے لیے6 ارب ڈالرز کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کی مد میں قرض کی مظوری دی۔
دسمبر2020 ء تک پاکستان کا بیرونی قرضہ 115.7 ارب امریکی ڈالر کے لگ بھگ تھا۔ پاکستان پیرس کلب پر11.3 ارب ڈالر، کثیر الجہتی عطیہ دہندگان کے33.1 ارب ڈالر، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے7.4 ارب ڈالر، یورو اور سکوک جیسے بین الاقوامی بانڈز کا12 ارب امریکی ڈالر کا مقروض تھا۔ گو کہ جولائی2019 ء میں پاکستان اور آئی ایم ایف نے6 بلین ڈالرز کے معاہدے پر دست خط کیے، لیکن یہ پروگرام بڑی حد تک ٹریک سے باہر رہا، جس کے نتیجے میں دو سالوں میں صرف2 بلین امریکی ڈالرز ملے۔
مارچ2021 ء میں پاکستان کا بیرونی قرضہ 116.3 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گیا، جب کہ گزشتہ سہ ماہی میں یہ117.1 بلین امریکی ڈالر تھا۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے مالی قرضے بڑھتے جا رہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے تین سال کے دَوران149 ٹریلین ڈالر کا قرض لیا، جو پچھلے10 سالوں کے دوران لیے گئے قرضوں کے80 فی صد کے برابر ہے۔
پاکستان، آئی ایم ایف کے پاس 1958ء سے2019 ء تک بائیس بار جا چُکا ہے، لیکن اس کے کبھی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ستم ظریفی دیکھیے کہ اربابِ اقتدار آئی ایم ایف کا قرض چُکانے میں ناکام رہے، بلکہ قرض کے اوپر مزید قرض لیتے رہے اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے، جس کے سبب مُلک و قوم آئی ایم ایف کے پاس گروی ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس سے بڑھ کر ہماری بدقسمتی بھلا کیا ہوگی کہ یہاں صرف حکم ران ہی بدلتے رہے، حکم رانوں کی روش نہیں بدل سکی۔
ہر نئی آنے والی حکومت، پچھلی حکومتوں کو موردِ الزام ٹھہراتی ہے، لیکن خود مُلک و قوم کے اقتصادی، معاشی، معاشرتی استحکام، تعلیم، صحت، روزگار، امنِ عامّہ اور قرضے اُتارنے کے لیے کوئی موثر عملی اقدامات نہیں کرتی۔ سارا زور دوسروں پر الزام تراشی کرکے خود کو ان مسائل سے بری الذمّہ قرار دینے ہی پر رہتا ہے۔ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک یہی ہوتا رہا اور اب بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔