رواں برس کے آخری ہفتوں میں تین اہم معاملات سامنے آئے ، جو نہ صرف ہمارے خطّے، بلکہ دنیا کے لیے بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔پانچ ماہ قبل چھے عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان نیوکلیئر ڈیل کی بحالی پر مذاکرات کا آغاز ہوا، جس کا حالیہ دور ویانا میں ہوا، جس سے بہت سی توقّعات وابستہ کی گئی ہیں۔اجلاس میں چین، روس، فرانس، برطانیہ اور یورپی یونین کے مذاکرات کار شریک ہوئے، جب کہ امریکا کے نمائندے بلا واسطہ شامل رہے، حالاں کہ اصل ایشو تو امریکا اور ایران کے درمیان ہے اور اس نے نیا رُخ اُس وقت اختیار کیا، جب 2019ء میں صدر ٹرمپ نے امریکا کو اس معاہدے سے الگ کر کے ایران پر مزید سخت پابندیاں عاید کردیں۔ادھر، کورونا کی ایک اور قسم سامنے آئی ہے۔
یہ اس لیے بھی غیر متوقّع نہیں کہ ڈاکٹرز کے مطابق اس قسم کے وائرس سردیوں میں زور پکڑتے ہیں۔عالمی وبا کی یہ پانچویں قسم جنوبی افریقا یا یورپ میں پہلی مرتبہ سامنے آئی، جسے’’ اومیکرون‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔عالمی ادارۂ صحت ابھی اس کے متعلق تحقیق کر رہا ہے،لیکن ماہرین کا عمومی اتفاق یہی ہے کہ کورونا کی یہ قسم بھی دنیا کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔طبّی کے ساتھ اس کے اقتصادی اثرات بھی سامنے آنے لگے ہیں۔کئی ممالک نے فضائی اور زمینی سفر پر پابندیاں عاید کردی ہیں۔
پاکستان میں مشیرِ صحت، ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ اسے مُلک میں آنے سے روکنا ناممکن ہے، اس لیے احتیاطی تدابیر اپنانے کے ساتھ ویکسینیشن کروالی جائے۔افغانستان کا معاشی بحران سردیوں میں سنگین صُورت اختیار کر چُکا ہے۔طالبان حکومت کے پاس انتظامی انفرا اسٹرکچر یا اس طرح کے بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ظاہر ہے، اِسی لیے عالمی برادری سے امداد کی اپیل کی جارہی ہے۔
اِس سلسلے میں قطر کے دارالحکومت، دوحا میں مذاکرات ہوئے، جس میں طالبان کی یورپی یونین اور امریکا کے نمائندوں سے الگ الگ بات چیت ہوئی۔پاکستان، افغانستان کی بھرپور امداد کر رہا ہے، جب کہ بھارت، پاکستان کے راستے اجناس بھجوا رہا ہے۔ پاکستان کی درخواست پر سعودی عرب نے اس انسانی المیے پر غور کے لیے 17 دسمبر کو اسلام آباد میں او آئی سی کے سربراہی اجلاس کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔
ایران میں صدر ابراہیم رئیسی کی حکومت کو آئے اب تقریباً چھے ماہ ہو چُکے ہیں۔انھیں سخت گیر مذہبی رہنما بتایا گیا تھا اور اُنہوں نے صدر روحانی کے زمانے کی نیوکلیئر ڈیل کی بحالی پر جاری مذاکرات روک دیے تھے، لیکن چند ہی ہفتوں بعد ایرانی مذاکرات کاروں نے دوبارہ بات چیت شروع کردی۔ ایران جوبائیڈن کے اقتدار میں آنے کا انتظار کر رہا تھا اور اسے توقّع تھی کہ ان کے آنے سے نیوکلیئر ڈیل کی بحالی آسان ہو جائے گی، لیکن ایسا نہ ہوا۔
یاد رہے،2015 ء میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ڈیل ہوئی تھی۔اس میں جہاں ایران نے اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ وہ یورینیم افزودگی پانچ فی صد سے نیچے لے آئے گا، وہیں عالمی طاقتوں اور اقوامِ متحدہ نے اس پر عاید پابندیاں ہٹانے کا اعلان کیا۔اس ڈیل سے سب سے زیادہ فائدہ ایران کو ہوا کہ اُسے چالیس بلین ڈالرز واپس کر دیے گئے، جس سے ایران کو اپنی معیشت سنبھالنے کا موقع ملا۔ اس ڈیل پر تہران میں رات بھر جشن منایا گیا، گویا اسے حکومتِ وقت کی بڑی کام یابی مانا گیا۔یہ صدر اوباما کا دور تھا، جس میں موجودہ صدر جوبائیڈن، نائب صدر تھے اور وہ خارجہ امور میں بہت فعال تھے۔
اس ڈیل پر امریکا کے مشرقِ وسطیٰ کے حلیفوں کو شدید تحفّظات تھے، جن میں سعودی عرب، خلیجی ممالک اور اسرائیل سرِفہرست تھے۔ٹرمپ نے، جو شروع ہی سے اس ڈیل کے شدید مخالف رہے ہیں،اقتدار میں آتے ہی اسے مسترد کردیا، جب کہ ایران نے جواباً یورینیم کی افزودگی بڑھا دی اور اقوامِ متحدہ کے ایٹمی معائنہ کاروں کو کام سے روک دیا۔خبریں آنے لگیں کہ ایران اب ایٹم بم بنانے سے چند مہینوں یا سال بھر کے فاصلے پر ہے۔اس میں کتنی حقیقت اور کتنا افسانہ ہے، یہ تو فریقین ہی بتا سکتے ہیں کیوں کہ ایران کا اصرار رہا ہے کہ اُس کا نیوکلیئر پروگرام سِول مقاصد کے لیے ہے۔
تاہم ان خبروں کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ اسرائیل اور عرب ممالک جو ایک دوسرے سے میلوں کے فاصلے پر تھے، قریب آنا شروع ہوگئے اور اس قربت میں ٹرمپ انتظامیہ نے اہم کردار ادا کیا۔بتایا جاتا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کے بہت سے دور ہوئے اور برف پگھلنا شرع ہوئی اور یہ اتنی پگھلی کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین نے نہ صرف اسرائیل کو تسلیم کرلیا، بلکہ جھٹ پٹ سفارتی تعلقات بھی قائم ہوگئے اور اُن کے درمیان معمول کے تجارتی روابط اور ٹیکنالوجی کا تبادلہ شروع ہوچکا ہے۔افریقی مُلک مراکش اور اسرائیل کے درمیان فلائیٹس کا آغاز ہوچُکا ہے۔
یاد رہے، مصر اور اردن پہلے ہی اسرائیل سے سفارت تعلقات رکھتے ہیں، جب کہ تُرکی تو بہت پہلے ہی اُسے تسلیم کرچکا ہے۔ فلسطینی ریاست اور اسرائیل کے درمیان بھی براہِ راست بات چیت کے کئی دور ہوچُکے ہیں۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ امریکا کے نیوکلئیر ڈیل سے نکلنے پر ایران کا ردّعمل جلد بازی اور جذباتی تھا، کیوں کہ اس نے وہ بنیاد فراہم کردی، جس سے اسرائیل، عرب ممالک کے قریب جانے کا جواز پیدا ہوگیا۔
عرب ممالک کا کہنا تھا کہ ایران جس قسم کی جارحانہ خارجہ اور فوجی پالیسی پر عمل پیرا ہے، اس سے ان کی مشرقِ وسطیٰ میں اہمیت ختم ہونے لگی ہے۔ایران اور اُس کی ملیشیاوں کا شام کی خانہ جنگی میں اپوزیشن کو کچلنے میں کردار، یمن میں حوثی باغیوں کی مدد، لبنان میں حزب اللہ کی پُشت پناہی اور عراق میں اس کے بڑھتے کردار نے عربوں کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا، جس کا برملا اظہار وہ دنیا کے سامنے بھی کرتے رہے ہیں۔اس پس منظر میں سعودی، ایران برتری کی کش مکش کو خاصی اہمیت حاصل ہوگئی، لیکن اوباما دور میں اس حقیقت کا لحاظ نہ رکھا گیا اور وہ یہی کہتے رہے کہ ہماری دل چسپی اس خطّے میں ختم ہو گئی ہے، ہم یہاں سے جارہے ہیں۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ تُرکی بھی، جس کے عربوں سے بہتر تعلقات تھے، وہ بھی ان ممالک کا مخالف نظر آیا اور کہا جانے لگا کہ وہ پاکستان، ایران اور ملائیشیا سے مل کر اسلامی بلاک کی سربراہی کا متمنی ہے۔
ان سب حقیقتوں یا غلط فہمیوں کا براہِ راست نتیجہ عرب، اسرئل تعلقات کے قیام کی صورت برآمد ہوا۔شاید ایران کو اور بعد میں تُرکی کو بھی اس کا احساس ہوا، اِسی لیے ایران نے عراق کے وزیرِ اعظم کی ثالثی میں سعودی عرب سے مذاکرات شروع کیے، جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اب بات چیت کسی امن یا دوستی کے معاہدے کے قریب ہے۔
دوسری طرف، تُرکی نے بھی عربوں سے اپنے تعلقات بہتر کرلیے ہیں،نیز، اُس نے اپنے سفیر کو دوبارہ اسرائیل میں تعیّنات کر دیا ہے، جسے کافی عرصہ پہلے واپس بلا لیا گیا تھا۔ اس اقدام کی ایک وجہ امریکا سے تعلقات کو بھی معمول پر لانا تھا کہ ترکی کی معیشت شدید دبائو میں تھی۔
ایران کے سعودی عرب سے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔اس کی ایک وجہ تو امریکا کی قیادت میں تبدیلی بھی ہے، کیوں کہ ڈیمو کرٹیس ہمیشہ اسرائیل کے قریب رہے ہیں، جس کا اظہار حالیہ غزہ کی لڑائی میں بھی ہوا، جب جوبائیڈن نے کُھل کر اسرائیل کے حقِ دفاع کی حمایت کی اور اس کے حق میں ویٹو پاور بھی استعمال کیا۔ مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی منظر نامے میں تبدیلی کے ساتھ ہی امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران کی اقتصادی حالت بہت کم زور ہوگئی تھی، یہ بھی نیوکلیئر ڈیل پر مذاکرات کی دوبارہ بحالی کا موجب بنی۔صدر رئیسی امریکا مخالف پالیسز کے باوجود اس امر پر مجبور ہوئے کہ وہ نہ صرف مذاکرات کا راستہ اختیار کریں بلکہ اُسے کام یاب بھی بنائیں، اسی لیے فریقین کے بیانات مثبت اور حوصلہ افزا ہیں۔
افغانستان کا معاشی بحران سردیوں کے ساتھ ہی شدید تر ہوگیا ہے۔طالبان کو قطر کے شہر دوحا کا دوبارہ رُخ کرنا پڑا اور اس بار اُن کے مذاکرات کا بنیادی محور امداد کا حصول اور معیشت کی بحالی ہے۔ مذاکرات کے بعد جو بیانات سامنے آئے، اُن کے مطابق طالبان حکومت نے یورپی یونین سے ہوائی اڈّوں کی بحالی کی درخواست کی ہے۔ کابل ائیر پورٹ امریکی انخلا کے بعد سے ناقابلِ استعمال ہے۔پہلے کہا جارہا تھا کہ تُرکی یہ کام کرے گا، کچھ عرصے قطر کابل ائیرپورٹ کی دیکھ بھال کرتا رہا، پھر وہ بھی واپس ہوگیا۔افغان ترجمان، ذبیح اللہ کے مطابق اس درخواست میں کہا گیا کہ سیاسی تحفّظات الگ رکھ کر انسانی بنیادوں پر افغانستان کی مدد کی جائے۔
افغانستان کے وزیرِ خارجہ امیر متقّی نے یورپی یونین کے وفد سے ہوائی اڈّوں کی بحالی کی درخواست کی، جب کہ یورپی یونین کے اعلامیے میں کہا گیا کہ مذاکرات طالبان حکومت کو تسلیم کرنا نہیں، بلکہ یہ افغان عوام کے مفاد میں یورپ کے آپریشنل معاملات کے لیے ہیں۔یورپی یونین نے سردیوں میں افغان عوام کی مدد کا وعدہ کیا۔
دوسری طرف، پاکستان کی درخواست پر سعودی عرب نے انسانی صُورتِ حال پر بحث کے لیے اسلام آباد میں او آئی سی کا سربراہی اجلاس طلب کرنے کا اعلان کیا ہے۔یہ اجلاس 17 دسمبر کو متوقّع ہے۔پاکستان نے انسانی بنیادوں پر افغان عوام کی مدد کی درخواست کی تھی۔بیان میں کہا گیا ہے کہ سردیوں کی آمد سے افغان عوام خطرناک انسانی بحران سے دوچار ہو رہے ہیں۔
افغان عوام جس تکلیف دہ صُورتِ حال سے دوچار ہیں، ماہرین کہتے ہیں کہ کسی دوسرے مُلک کو اس کی ترجمانی یا وضاحت کی ضرورت نہیں کہ خود طالبان یہ کام کر رہے ہیں اور وہی اپنے عوام اور افغانستان کی دگرگوں صُورتِ حال زیادہ حقیقت پسندانہ طریقے اور مؤثر انداز میں عالمی برادری کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔ہاں، اگر دوسرے ممالک بیانات کی بجائے ٹھوس امداد کرسکتے ہوں، تو وہ اُنہیں ضرور کرنی چاہیے کہ افغان عوام کو اس وقت بیانات سے زیادہ خوراک، گرم کپڑوں، ادویہ اور دیگر سہولتوں کی حاجت ہے۔طالبان کی قیادت نے یہ درست فیصلہ کیا کہ وہ عالمی برادری، امریکا اور یورپی یونین سے براہِ راست رابطے میں آگئے ہیں اور کسی اَنا کو آڑے نہیں آنے دیا۔
طالبان ہوں یا کوئی اور حکم ران، اُنہیں یہ اس پر سنجیدگی سے غور کر کے عمل کرنا چاہیے کہ افغان عوام کی فلاح بہبود، اُن کے جان و مال کی حفاظت، خواہ وہ بیرونی طاقتوں سے ہو یا بھوک اور غربت سے بچانا ہو، اُن کی اوّلین ذمّے داری ہے۔اِس کے لیے بے پناہ صبر آزما جدوجہد، فراست اور عوامی اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے عوام کو حوصلہ دینا، انھیں متحرّک کرنا کہ وہ مِل جُل کر قوم کی ترقّی میں شامل ہوں، یہ مہم غیر معمولی ہمّت اور حوصلے کا تقاضا کرتی ہے۔اب وقت آچُکا ہے کہ افغانستان کی تعمیرِ نو میں تمام شہریوں کو شریک کیا جائے۔
ماضی کو دفن کر کے آگے بڑھا جائے، خاص طور پر تعلیم یافتہ ماہرین کو واپس قومی دھارے میں لاکر ترقّی میں معاون بنانا طالبان حکومت کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔افغانوں کی جو تاریخ بتائی جاتی ہے، اُس سے پتا چلتا ہے کہ اُنہوں جہاں میدانِ جنگ میں کارنامے انجام دیے، وہیں حکم رانی کی بھی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ ہندوستان کے مغل حکم رانوں کا تعلق اسی خطّے سے تھا، جن کی فتوحات سے زیادہ اُن کی بہتر گورنینس اور عوامی خوش حالی کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا جاتا ہے۔ظاہر ہے، افغان عوام اپنی حکومت سے ایسی ہی مثالوں کی پیروی کی توقّعات رکھتے ہوں گے۔
کورونا وائرس اب اومیکرون کی شکل میں پھر ستم ڈھا رہا ہے۔اس وائرس کا پہلا مریض جنوبی افریقا میں پایا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اکثر ممالک نے سفری پابندیاں لگا دیں۔اس وائرس کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ یہ خطرناک ہے اور تیزی سے پھیلنے والا بھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ احتیاطی تدابیر اور ویکسینیشن اس سے بچائو کا ایک کارگر طریقہ ہے۔روپ بدل بدل کے آنے والی اس عالمی وبا نے دنیا کو پریشان کر رکھا ہے، سردیاں آرام سے گزرتی ہیں اور نہ گرمیاں۔اس مرتبہ بھی اس کے معاشی اثرات سے حکومتیں پریشان ہیں، اسی لیے فی الحال سفری پابندیوں کے علاوہ بہت کم اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
ترقّی یافتہ ممالک کو ایک برتری یہ بھی ہے کہ ان کی آبادیوں کا بیش تر حصّہ ویکسین لگوا چُکا ہے۔ان کے پاس اس کے علاج کی دوا بھی تیاری کے آخری مراحل میں ہے۔غریب اور ترقّی پزیر ممالک کے لیے یہ ایک چیلنج کے طور پر سامنے آئے گا کہ ان کے پاس وسائل ہیں اور نہ ہی ویکسینز۔اِسی لیے عالمی ادارۂ صحت زور دیتا آ رہا ہے کہ دنیا کو نہ صرف ویکسین فراہم کیے جائیں بلکہ انھیں لگوانا بھی ضروری ہے۔ جو لوگ ابھی تک کسی خوش فہمی یا غلط فہمی کا شکار ہیں، اُنہیں اندازہ ہو جانا چاہیے کہ یہ وبا اِتنی جلدی پیچھا چھوڑنے والی نہیں۔ پلٹ پلٹ کر وار کر رہی ہے، اِس لیے احتیاط کے بغیر چارہ نہیں۔