کووڈ کے بعد معمولات زندگی میں تیزی سے بحالی آرہی ہے۔ عوامی اجتماعات کے مقامات مثلاً پبلک پارکس، ریسٹورنٹس، شادی ہالز اور چائے خانے پھر سے آباد ہورہے ہیں۔ سینما ہائوسز کو کُھلنے کی اجازت بھی ملے ہوئے دو تین ہفتے گزر چکے، لیکن وہاں اب بھی ویرانیوں کے ڈیرے ہیں۔ پچھلے دو ہفتوں میں دو عدد نئی فلموں ’’کھیل کھیل میں‘‘ اور ’’شینوگئی‘‘ کی نمائش بھی ہوچکی ہے، لیکن سناٹوں کا راج برقرار ہے۔ 2000ء کے بعد آنے والے فلمی بحران کے سبب سنگل اسکرین سینمائوں کی تعمیر کا کلچر پروان چڑھا، لیکن یہ ملٹی پلیکسیز سنگل اسکرین کا متبادل تو ہرگز نہیں ہوسکتے۔ ان کے ٹکٹ ریٹس 500سے 1500تک ہوتے ہیں۔
ان ملٹی پلیکسیز کی بقاء بالی وڈ فلم سے وابستہ تھی۔ جینٹری کلاس بھارتی فلمیں فیشن کے طور پر دیکھتی ہے۔ اس لیے ان کو 500یا 1500کا ٹکٹ کوئی مسئلہ نہیں۔ مگر یہ کلاس تو پاکستان کی آبادی کا 10فی صد بھی نہیں۔ بھارتی جارحیت کے نتیجے میں ان کی فلموں کا پاکستان میں آنا بند ہوا، تو ملٹی پلیکسیز سے جینٹری کلاس غائب ہوگئی۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ پاکستانی فلم میکرز میں نبیل قریشی، ندیم بیگ، یاسر نواز، وجاہت رؤف، عاصم رضا یا چند ایک اور ڈائریکٹرز کی فلموں کو اچھا ریسپانس ملا، لیکن چار پانچ پاکستانی فلم میکرز کی سالانہ ایک ایک فلم کیسے اتنی بہت سی ملٹی پلیکس اسکرینز کی ضرورت پوری کرسکتی ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ ملٹی پلیکسیز پر پرھول سناٹوں کا راج ہے۔ کیوں کہ عام آدمی یعنی پاکستانی آبادی کا 90فی صد ان ملٹی پلیکس سینمائوں کے نام اور مقام سے بھی واقف نہیں۔ اور اگر واقف بھی ہیں، تو ٹکٹوں کے نرخ اور فلم کے انٹرویل کے دوران کےاخراجات کے تصور سے ہی ان کی روح کانپ اٹھتی ہے۔ لہٰذا انہیں ان خُوب صورت، عالیشان اور بہترین اسکرین رزلٹ کے حاصل اعلیٰ ترین معیار رکھنے والے ملٹی پلیکسیز سے کوئی دل چسپی نہیں۔ لہٰذا وہ نسبتاً کم معیار کے حامل سنگل اسکرین سینمائوں میں اپنے ذوق فلم بینی کی تسکین کرسکتے ہیں۔
لیکن فی زمانہ اول تو سنگل اسکرینز کی اکثریت کو ختم کردیا گیا ہے۔ اور اگر کہیں کہیں سنگل اسکرین ہیں بھی، تو انہوں نے بھی اپنا چلن تبدیل کردیا ہے، مثلاً پہلے ہر سنگل اسکرین میں پانچ یا چھ کلاس ہوا کرتی تھیں۔ جیسے تھرڈ، سیکنڈ، فرسٹ، ڈی سی، گیلری اور باکس اور ہر کلاس کے ٹکٹ ریٹس مختلف ہوا کرتے تھے۔ مثلاً 70ء کی دہائی میں گیلری کلاس کا ٹکٹ ساڑھے چھ یا سات روپے کا ہوا کرتا تھا، جب کہ نچلی کلاسز کی بتدریج کم سے کم تر ٹکٹ ریٹ تھے۔ اس طرح مزدور کلاس کے فلم بین کے پاس چوائس تھی کہ جس کلاس کا ٹکٹ آفورڈ کرسکے، وہ خرید لے۔
2010ء کے بعد سنگل اسکرینز نے بھی ہنس کی چال چلتے ہوئے تمام کلاسز ختم کرکے صرف دو کلاسیں مختص کردیں۔ یعنی نیچے کے پورے ہال کے ایک ٹکٹ ریٹ اور گیلری کلاس کا الگ ٹکٹ ریٹ۔ اس نظام سے پہلے حیدرآباد کے بچے کھچے دو سنگل اسکرینز بمبینو اور نیو میجسٹک میں سب سے آگے کی کلاس کا ٹکٹ 50روپے کا تھا۔ اور گیلری 125روپے کی۔ ہم نے نیو میجسٹک میں ’’میں ہوں شاہد آفریدی‘‘ اور ’’بمبینو میں ’’چنبیلی‘‘ 125کے ٹکٹ میں گیلری میں بیٹھ کر دیکھی تھی۔
پھر نیومیجسٹک مسمار ہوگیا۔ اور بمبینو نے ’’رانگ نمبر‘‘ کی ریلیز کے وقت نیچے کے ہال کا ٹکٹ 200روپے اور گیلری کا ٹکٹ ریٹ 250روپے کردیا۔ ’’رانگ نمبر‘‘ اور ’’جوانی پھر نہیں آنی‘‘ کی حد تک تو ان مہنگے ٹکٹ ریٹس پر بھی لوگوں کی رونق نظر آئی، لیکن اس کے بعد کسی بھی فلم کے شو میں بہ یک وقت 100فلم بین بھی نظر نہیں آئے۔ حتیٰ کہ کسی بھی نئی فلم کے پہلے دن کے میٹنی شو میں بھی (20یا25) سے زیادہ افراد کبھی نظر نہیں آتے، یہ اعداد و شمار ہم پوری ذمے داری سے دے رہے ہیں، کیوں کہ ہم خود ہر نئی پاکستانی فلم اسی سینما پر جا کر دیکھتے ہیں۔
ہماری فلم بینی کا تجربہ پچاس برسوں سے زائد عرصے پر محیط ہے، لہٰذا تجربے کی روشنی میں یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ملٹی پلیکس سینما پاکستانی فلم کا مسیحا نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک نظریہ ضرورت کی پیداوار تھی، جو بھارتی فلموں کی خاطر وجود میں لایا گیا، اب جب کہ بھارتی فلموں کی پاکستان میں بحالی کے امکانات بھارتی حکومتوں کے منفی رویوں کے سبب مستدود ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، تو ملٹی پبلیکس سینمائوں کی حالت بھی نہ گفتہ با ہوتی جارہی ہے۔ یہ برگر فیملیز کے انتظار میں سسک رہے ہیں اور برگر فیملیز کی بڑی تعداد میں آمد بھارتی فلم کے کھلنے سے مشروط ہے۔
لہٰذا صاف نظر آتا ہے کہ ملٹی پلیکس سینما انڈسٹری عنقریب زبردست بحران سے دوچار ہوکر اپنے منفی انجام کو پہنچنے والی ہے۔ اور پاکستانی فلم کی اصل منزل سستا سنگل اسکرین ہے۔ اس وقت جو باقی ماندہ ملک بھر میں سنگل اسکرینز ہیں، ان کے مالکان کو چاہیے کہ وہ انہیں نئے تقاضوں کے مطابق اپ گریڈ کریں۔ اور ماضی کی طرح ٹکٹ کلاسز کو مختلف نرخوں کے ساتھ کم از کم تین درجوں میں تقسیم کریں اور ٹکٹ نرخ بھی۔ ایک عام آدمی کی دسترس کو پیش نظر رکھ کر طے کریں۔ اور وزارت اطلاعات و ثقافت سے بھی گزارش ہے کہ وہ پاکستانی فلم کلچر اور سینما کلچر کو بچانے کے لیے، خالی کھوکھلے بیانات سے نکل کر عملی اقدام کرتے ہوئے۔
سرکاری سیکٹر میں فوری بنیادوں پر نئے سنگل اسکرینز کی ملک بھر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں تعمیر کا کام شروع کرے۔ اور رعایتی ٹکٹ ریٹ پر عام آدمی کو فلم تک رسائی دے۔ تاکہ پھر سے 60ء اور 70ء کی دہائی کا سینما کلچر بحال ہوسکے۔ کہنے کو تو اس وقت درجن بھر سے زیادہ نئی فلمیں بالکل تیار پڑی ہیں، لیکن ان میں سے اکثریت ایسی فلموں کی ہے کہ جنہیں مہنگے ملٹی پلیکسیز میں دیکھنے کوئی نہیں آئے گا، لیکن وہی فلمیں سنگل اسکرینز پر معقول ٹکٹ ریٹس پر چلا دی جائیں، تو فلم بینوں کی ایک مناسب تعداد انہیں دیکھنے ضرور آسکے گی، لیکن بنیادی شرط مناسب ٹکٹ نرخ ہیں۔