• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیصلوں پر تنقید کریں ججز پر نہیں، سابق جج نے اختیار سے تجاوز کیا، سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے برطرف جج ، شوکت عزیز صدیقی کی بحالی کے حوالے سے دائر آئینی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ ججوں کے فیصلوں پر تنقید کریں لیکن ان کے فیصلوں کی آڑ میں ججوں پر تنقید نہ کریں ، جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود،جسٹس اعجازلاحسن ،جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل پانچ رکنی لارجربنچ نے سماعت کی تو درخواست گزار شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل پر آئی ایس آئی کے زیر اثر ہونے کا الزام عائد کیا تو عدالت نے اس پر سخت برہمی کا اظہار کیا ،جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ اداروں کیخلاف اس طرح کے سویپنگ سٹیمنٹس برداشت نہیں کرینگے،ان پر تنقید نہ کریں جو اپنے دفاع میں بول ہی نہیں سکتے ، آپ ایک سینئر وکیل ہیں،ہم آپکی عزت کرتے ہیں لیکن اب آپ نے بائونڈری کو ہٹ کرنا شروع کر دیا ہے، آپکے موکل نے تقریر عدلیہ کیخلاف کی تھی فوج کیخلاف کرتے تو پتہ چل جاتا کہ انکا کتنا زور ہے؟جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ جج کو اپنے ہی ادارے کیخلاف تقریر پر نکالا گیاہے ، جسٹس عمر عطا ء بندیال نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا وہ کیا حالات تھے جو اکتیس جولائی 2018کی تقریر پر مجتمع ہوئے تھے ، سپریم جوڈیشل کونسل نے تودرخواست گزار کیخلاف کوئی آرڈر بھی نہیں دیا تھا جس پر وکیل نے ریفرنسز ز، شوکازنوٹسز اور انکے جوابات کی تفصیل پیش کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ریفرنس میں میرے موکل پر سرکاری رہائش پر حد سے زیادہ اخراجات کا الزام لگایا گیاتھا،31 جولائی کو تقریر والے معاملہ پر دوسرا شوکاز نوٹس جاری کر دیا گیا،فیض آباد دھرنا کیس کے حکمناموں پر دو ریفرنس دائر ہوئے تھے، یہ وہ تمام کڑیاں ہے جو ریکارڈ پر لانی ہیں، دھرنا میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کیخلاف توہین آمیز زبان استعمال کی گئی تھی،میرے موکل نے بطور جج تحریک لبیک پاکستان کیساتھ کئے گئے معاہدہ پرایک جنرل کے دستخط کرنے کے حوالے سے وفاقی حکومت سے جواب طلب کیا تھا ،معاہدہ پر جنرل فیض کے بھی دستخط تھے ، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ زیر سماعت درخواستوں میں اداروں سے متعلق کوئی الزامات نہیں لگائے گئے تھے ،حامد خان نے کہا کہ درخواست گزار نے ایک جوڈیشل آرڈر جاری کیا تھاجس پر جسٹس اعجا زالاحسن نے کہا کہ آرڈر جاری کرنے سے پہلے متاثرہ فریق کو نوٹس جاری کرتے اور اسے سنتے۔

تازہ ترین