اسلام آباد (نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے پی پی دور حکومت میں ’’دی سیکڈ ایمپلائیز(ری انسٹیٹ منٹ) آرڈیننس ایکٹ2010 ‘‘ کے تحت بحال سرکاری ملازمین کو برطرف کرنے کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران آبزرویشن دی ہے کہ نکالے گئے ملازمین کنٹریکٹ پر تھے لیکن انھیں بحال کرنے کیلئے خصوصی قانون لایا گیا، جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ نگران حکومت نے ان ملازمین کو درست نکالا یا غلط ،نظر ثانی کیس میں اسکا جائزہ نہیں لے سکتے، عدالت نے صرف ایکٹ کے معاملے کو دیکھنا ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سپریم کورٹ ایک فیصلے میں قرار دے چکی ہے ملازمین کو نکالنے کا عمل درست تھا، صرف 1993 سے 1996 کے دوران نکالے گئے ملازمین کی بحالی کا قانون کیوں بنایا گیا،چند ملازمین کو 11 سال بعد بحال کرنا کیا دوسرے ملازمین کا استحصال کرنے کے مترادف نہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل لارجر بینچ نے منگل کے روز نظر ثانی کی درخواستوں کی سماعت کی۔ اس موقع پر انٹیلی جنس بیورکے برطرف ملازمین کے وکیل اعتزاز احسن نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ دو فیصلوں میں اصول طے کر چکی ہے کہ نگران حکومت ملازمتیں دینے یا نوکریوں سے نکالنے کا اختیار نہیں رکھتی، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ صرف 1993 سے 1996 کے دوران نکالے گئے ملازمین کی بحالی کا قانون کیوں بنایا گیا تھا، جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ اگر میرے موکلین غیر قانونی طریقے سے بھرتی ہوئے ہوتے تو پھر مراعات لینا غلط تھا، انہیں قانونی طریقے سے بھرتی کیا گیا تھا، کسی نے بھرتیوں کو چیلنج بھی نہیں کیا تھا، اس وقت کی حکومت نے قانون سازی کے ذریعے نگران حکومت کی غلطی کو درست کیا، پارلیمنٹ قانون سازی میں خود مختار ہے، سپریم کورٹ کے ایک 17 رکنی فل کورٹ بینچ نے اپنے فیصلے میں پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا، یہ فیصلہ تبدیل نہیں ہوسکتاہے کیونکہ فیصلے کو 18 جج ہی تبدیل کرسکتے ہیں۔