• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروین شاکر کی شاعری خو شبو کی طرح لوگوں کے ذہنوں میں بسی ہوئی ہے ۔ ان کی پہلی کتاب’’ خوشبو‘‘ کو 1976 میں آدم جی ایوارڈ اور پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ بھی متعدد اعزازات و اسناد سے نوازا گیا۔

؎اپنے گھر کی طرح وہ لڑکی بھی نذر سیلاب ہوگئی شاید

تجھ کو سوچوں تو روشنی دیکھوں یاد ، مہتاب ہوگئی شاید

پروین شاکر کی شاعری آج کے عہد کی شاعری ہے ۔انہوں نے شاعری میں مختلف تجربات کئے ہیں جس میں وہ کامیاب بھی رہی ہیں ۔مختلف زبانیں جاننے کے باوجو د انہوں نے نہایت آسان اور سہل زبان میں شاعری کی ۔

؎کھلی آنکھوں میں سپنا جھانکتا ہے

وہ سویا ہے کہ کچھ کچھ جاگتا ہے

تیری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں

پرا تن، مور بن کے ناچتا ہے

ہاں انکی شاعری میں مختلف زبان کی تراکیب اور اور الفاظ کا استعمال ضرور ہوا ہے ۔اپنی مختصر زندگی کے نہایت قلیل وقت میں وہ شاعری کا ایک ایسا خزانہ چھوڑ گئیں جو موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے کسی سرمائے سے کم نہیں ۔ ان کے پانچ شعری مجموعے خوشبو ، صد برگ ، خود کلامی ، انکار اور کف آئینہ ہیں ۔جب کہ کلیات ’’ماہ تمام‘‘ کے نام سے شائع ہوا ، جس تخیل پردازی کا نظارہ ان کی شاعری میں نظر آتا ہے وہ انکی ہمعصر اور دوسرے شعرا ء میں بہت کم دیکھنے میں آتا ہے جس بنا پر وہ دوسروں سے منفرد نظر آتی ہیں ۔ ان کی شاعری عشق کے مختلف اور منفرد کیفیت کا احساس پیدا کرتی ہے۔اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ عشق اور محبت کی شاعرہ تھیں ۔ ان کی مقبولیت ان کے پہلے شعری مجموعے " خو شبو " سے ہوئی ۔ عشقیہ شاعری کی جو خوشبو انہوں نے بکھیری تھی وہ آج تک لوگوں کی دل دماغ میں بسی ہوئی ہے ۔

؎خوشبو بتا رہی ہے کہ وہ راستے میں ہے

موج ہوا کے ہاتھ میں اس کا سراغ ہے

؎خوشبو کہیں نہ جائے یہ اصرار ہے بہت

اور یہ بھی آرزو کہ ذرا زلف کھولئے

؎ چلی ہے تھام کے بادل کے ہاتھ کو خو شبو

ہوا کے ساتھ سفر کا مقابلہ ٹھہرا

پروین شاکر نے شاعری کی دونوں صنف غزل اور نظم دونوں میں شاعری کی لیکن بنیادی طور پر وہ غزل کی شاعرہ تھیں۔ انہوں نے اردو شاعری کو نئے افق، نئے تجربات ، نئے خیالات اور نئے معنی دیئے۔ان کی غزل گوئی ایک نئی سمت کا تعین کرتی ہے جو اہنے وقت اور حالات سے مطابقت رکھتی ہے ۔ روایت اور جدیدیت دونوں کو ملحوظ خاطر رکھا، مگر کہیں کہیں روایت سے بغاوت کرتی بھی نظر آتی ہیں اور سیای جھلک بھی نمایاں ہوتی ہے۔

؎ لہو جمنے سے پہلے خوں بہا دے

یہاں انصاف سے قاتل بڑا ہے

؎ قاتل کو کئی قتل کے آداب سکھا دے

دستار کے ہوتے ہوئے سر کاٹ رہا ہے

پروین کی شاعری مکمل طور پر نسائی کیفیات اور جذبات کی شاعری ہے ۔وہ مرد کے ساتھ عورت کو برابری کا درجہ دینے کی شاعرہ تھیں ۔وہ عورت کو احساس کمتری کا شکار نہیں ہونے دیتیں انکی نظر میں عورت کسی بھی طور مرد سے نہ تو پیچھے ہے اور نہ ہی کمزور یہی جذبہ انکی شاعری کی بنیاد بھی نظر آتا ہے ۔ان کے تخیل میں تاثر بھی نمایاں ہے ۔انکے موضوعات عصری بھی ہیں اور عہد حاضر کی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔

شاعری میں طنز کو ایک نئے انداز سے پیش کرکے اس میں نئے معنی پیدا کردیئے ان کی شاعری کو دو حصوں میں با آسانی تقسیم کر سکتے ہیں ایک حصہ تو وہ ہے ،جس میں انہوں نے موت ، زندگی ،ہجر ، فرار اور وصال کا ذکر کیا ہے جب کہ دوسرا حصہ جو انکی شاعری کی بنیاد اور انکی پہچان بنا وہ ہے عشق عا شقی ،محبت کا شدت والا جذبہ جس میں خواہشات کا اظہار کیا گیا ہے ۔ شاعری کا انداز اور لب و لہجہ بھی منفرد ہے۔ان کا شمار اردو کے ان شعرا ء میں ہوتا ہے جو اس دور کی شعری دریافت کے نمائندہ تھے ۔وہ صاف گو شاعر کی حیثیت سے نوجوانوں میں بہت زیادہ مقبول تھیں ۔

ان کی نظر میں مرد اور عورت کا عشق ہی عشق کا اصل تصور ہے باقی عشق اپنے اپنے رشتوں کا نام ہے کہیں تقدس ہے ،کہیں احترام ہے، اور کہیں عقیدت ہے وغیرہ وغیرہ ۔وہ فن شاعری سے بھی بخوبی واقف تھیں ، ادائیگی ہو یا الفاظ کا چناؤ ،موضوع ہو یا لب و لہجہ ،زبان و بیان ہو یا اسلوب کی لطافت و فصاحت یہ تمام خصو صیات انھیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں ۔ پروین آج ہم میں نہیں ،مگر ان کی شاعری کی خوشبو ہم آج بھی تازہ پھولوں کی طرح محسوس کرسکتے ہیں ۔یہی ان کے بڑے شاعر ہونے کی دلیل ہے۔

تازہ ترین