برطانیہ کے نیشنل آڈٹ آفس (NAO) نے خبردار کیا ہے کہ ہوم سیکریٹری شبانہ محمود کی جانب سے اسائلم نظام میں متعارف کرائی جانے والی بڑی اصلاحات سے ’غیر ارادی نتائج‘ سامنے آ سکتے ہیں، جن میں پناہ کے متلاشی افراد کے بے گھر ہونے میں اضافہ اور کیسوں کے بڑھتے ہوئے بیک لاگز شامل ہیں۔
بدھ کے روز جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومتی پالیسیوں کا مقصد فیصلوں کی رفتار بڑھانا اور اپیلوں میں کمی لانا ہے، یہ تب ہی مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں جب نظام میں موجود رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔
رپورٹ کے مطابق سول سروس کے پاس یہ بنیادی معلومات موجود ہی نہیں کہ کتنے پناہ گزین ریاستی مراعات نہیں لیتے، یا کتنے نامنظور شدہ درخواست گزار غائب ہو چکے ہیں۔
آڈیٹرز نے یہ بھی نشاندہی کی کہ سالہا سال سے اختیار کی جانے والی ’عارضی اور ردِعمل پر مبنی‘ حکمتِ عملیوں نے نظام میں دباؤ بڑھایا ہے، نئے بیک لاگز پیدا کیے ہیں اور ہزاروں درخواستوں کو برسوں سے التواء میں رکھا ہوا ہے۔
این اے او نے انکشاف کیا کہ تقریباً 3 سال قبل پناہ کی درخواست دینے والے نصف سے زائد افراد کو آج تک فیصلہ موصول نہیں ہوا۔
یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب شبانہ محمود کی ڈنمارک کے سخت قوانین سے متاثر نئی اسائلم پالیسیوں نے لیبر پارٹی کے متعدد ارکان پارلیمنٹ اور لارڈز میں شدید ردِعمل کو جنم دیا ہے، خاص طور پر بچوں کو والدین کے ساتھ ملک بدر کرنے کے منصوبے اور مستقل رہائش کے لیے انتظار کی مدت کو 5 سال سے بڑھا کر 20 سال کرنے کے فیصلے پر شدید تنقید کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق فیصلوں اور بے دخلی کے عمل کو تیز کرنے کی تجاویز اگرچہ دباؤ کم کر سکتی ہیں، لیکن یہ ’پیچیدہ‘ ہیں اور ان کا انحصار نظام میں لوگوں اور کیس ورک کے مؤثر بہاؤ پر ہے، بصورتِ دیگر پہلے ہی دباؤ کا شکار نظام اور حکومتی ترجیحات، خصوصاً بے گھری کے معاملے، پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خطرہ ہے۔
نیشنل آڈٹ آفس کے سربراہ گیریتھ ڈیوس نے کہا کہ سابقہ حکومتوں کی جانب سے اسائلم نظام کو بہتر بنانے کی کوششیں عموماً عارضی اور محدود رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ نئے ماڈل پر کامیابی سے عمل درآمد کے لیے موجودہ نظام کی رکاوٹوں کو دور کرنا، بہتر معیار کا ڈیٹا حاصل کرنا اور فیصلہ سازی کو تیز کرنا ضروری ہے۔
رپورٹ میں متعدد سرکاری محکموں کی کمزور ڈیٹا مینجمنٹ کو بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
ہوم آفس اس بات کے اعداد و شمار فراہم کرنے سے قاصر رہا کہ کتنے افراد ریاستی معاونت یا رہائش کے بغیر اسائلم نظام میں موجود ہیں، کتنے لوگ غائب ہو چکے ہیں، کتنے افراد پر کسی قسم کی نفاذی کارروائی جاری ہے اور کتنی ناکام بے دخلیاں ہوئیں۔
وزارتِ انصاف بھی امیگریشن ٹریبونل میں موصول ہونے والی اپیلوں کی مجموعی تعداد یا بار بار دائر کی جانے والی اپیلوں کے اعداد و شمار نہیں رکھتی۔
این اے او کے مطابق 25-2024ء میں اسائلم نظام پر مجموعی اخراجات 4.9 ارب پاؤنڈ تک پہنچ گئے، جن میں سے 3.4 ارب پاؤنڈ رہائش اور مدد پر خرچ ہوئے۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ حکومت 2026ء کے اختتام تک پارلیمنٹ میں اسائلم اصلاحات پر مبنی ایک جامع حکمتِ عملی پیش کرے اور اسائلم درخواست گزاروں، ٹیکس دہندگان اور شہریوں کے لیے ’سسٹم انڈیکیٹرز‘ جاری کرے، محکمہ جات کو بہتر ڈیٹا، شواہد، لاگت و فائدہ تجزیے اور مؤثر جائزہ منصوبے تیار کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔
ریفیوجی کونسل کے سربراہ اینور سلیمان نے کہا کہ اگر لوگ مہینوں کیا برسوں فیصلے کے انتظار میں رہیں اور مقامی کونسلیں وسائل کی کمی کا شکار ہوں تو اسائلم نظام اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی تشویشناک ہے کہ 3 سال سے زیادہ عرصہ قبل درخواست دینے والے نصف سے زائد افراد تاحال فیصلے کے منتظر ہیں۔