زندہ چیزوں کو خودغرض پیدا کیا گیا۔ آپ ایک ہی بلی کے دو بلونگڑوں کے سامنے گوشت کا ایک ٹکڑا رکھیں، وہ ا س پہ لڑ پڑیں گے۔ انسان جیسے وسائل کی ملکیت پہ لڑپڑتا ہے، یہ کوئی انوکھی شے نہیں۔ جانور بھی ’’اپنے ‘‘علاقے کی ملکیت پہ لڑپڑتے ہیں۔ شیر ہی نہیں، بلیاں اور کیڑے بھی۔ ارتقا کا جو تصور ہے، وہ بنیادی طو رپر درست ہے۔ انسان میں جو خودغرضی ہے، یہ کروڑوں اربوں سال پرانی ہے۔
اس کے باوجود بعض اوقات یہ خود غرض انسان ایک انتہائی بدلے ہوئے رویے کا مظاہرہ کرتاہے۔ یہ کسی کے عشق میں اپنی ذات کو فنا کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ پھراس کا جسم آری سے چیر دیا جائے، یہ اپنے عشق سے رجوع نہیں کرے گا۔ لیلیٰ مجنوں اور شیریں فرہاد جیسے محبت کرنے والے آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ دوسری طرف حضرت اویس قرنیؒ، شیخ عبد القاد ر جیلانی ؒاور شیخ علی بن عثمان ہجویریؒ جیسی ہستیاں ہیں، جنہوں نے خدا کی محبت میں خود کو فنا کر ڈالا۔ مخلوق آج بھی ان کے مرقد پہ شہد کی مکھیوں کی طرف اکھٹی ہوتی ہے۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ عشقِ مجازی میں ناکامی کے بعد ہی انسان عشقِ حقیقی کی منزلیں طے کرنے کے قابل ہوتاہے۔ افسوس کہ یہ بالکل غلط ہے۔
عشق میں جتنا انسان کا استحصال ہوتا ہے، اتنا کسی اور شے میں نہیں۔80فیصد شاعری اس مرکزی نکتے کے گرد گھومتی ہے کہ جتنا ظالم محبوب مجھے نصیب ہوا ہے، اتنا انسانی تاریخ میں کسی کو نہ ہوا ہوگا۔ اس کے باوجود وہ اسے چھوڑ نہیں سکتا۔اکثر جانوروں میں سال کے ایک انتہائی مختصر حصے میں مخصوص کیمیکلز خارج ہوتے اور جنسِ مخالف کی ضرورت وقتی طور پر محسوس ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی خاص مادہ سے مستقل نوعیت کا جذباتی لگائو پیدا نہیں ہوتا۔ انسانوں میں سب کچھ اس کے برعکس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک کی محبت میں خود کو بھسم کر ڈالتا ہے۔
ان دوقسم کے عشق میں بہت فرق ہے۔ جب انسان اپنے جیسے ایک انسان کی محبت میں مبتلا ہوتا ہے‘ تو یہ انسان اسے ستاتا ہے‘ اس کا استحصال کرتا ہے۔اکثر اوقات شاعری کا مرکزی نکتہ یہی استحصال ہوتا ہے۔ خدااپنے سے محبت کرنے والوں کا استحصال نہیں کرتابلکہ وہ انسان کو جن تکلیفوں سے گزارتا ہے، اس کا مقصد اس کی استعداد اور درجات میں اضافہ ہوتا ہے۔ انسانی محبوب خود بھی حالات کے ہاتھوں مجبور ہوتاہے۔ ہو سکتاہے کہ وہ خود کسی اور انسان کی محبت میں مبتلا ہو ؛لہٰذا وہ اسے مثبت جواب نہ دے سکے۔ خدا خود سے محبت کرنے والے ہر شخص کی بھرپور پذیرائی کرتا ہے۔ انسان سے محبت عارضی ہوتی ہے۔ جیسے جیسے عمر گزرتی ہے‘ چہرے پہ جھریاں پڑنے لگتی ہیں‘کھال ڈھیلی ہو جاتی ہے‘ وزن بڑھ جاتا ہے‘ بال گر جاتے ہیں‘ انسان بد نما دکھنے لگتاہے۔ سب سے بڑھ کر اگر کوئی چیز عشق کا بھوت سر سے اتارتی ہے تو وہ وصل ہے۔ شادی کے بعد انسان پر اولاد کی محبت نازل ہوتی ہے‘ جو محبوب سے محبت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ پھر روزگار اور زندگی کے خوفناک مسائل اس کے سامنے منہ کھولے کھڑے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس حسینہ کی خاطر انسان زہر پینے کو تیار ہوتا ہے‘ اسی سے منہ چھپاتا پھرتا ہے۔
آپ کسی حسین عورت سے پوچھ لیجیے کہ کیا وہ متبادل بننے کے لیے تیار ہے؟ اگر ایک شخص کو اس کی محبوبہ دھتکار دیتی ہے اور اس کے بعد اپنا دل بہلانے کے لیے وہ شخص تمہیں اپنا محبوب بنانا چاہے تو کیاتم اسے قبول کر لو گی؟ وہ کہے گی کہ میں تو اس سے زیادہ حسین ہوں۔ میں کیوں اس کے دھتکارے ہوئے کو قبول کروں۔ آپ کسی بڑے شاعر کو چھوٹے شاعر سے پہلے اپنا کلام سنانے کا کہیے، وہ مائیک پھینک دے گا۔ اسی طرح خدا جو کہ سب خوبصورتیوں سے بڑی خوبصورتی ہے‘ وہ اپنے آپ کو دوسرے یا تیسرے نمبر پر رکھے جانا کبھی کسی حالت میں قبول نہیں کر تا۔ اس کا دروازہ تو سب کے لیے پوری زندگی کھلا ہی رہتاہے لیکن اس طرح کا مذاق وہ برداشت نہیں کرتا کہ ٹھکرائے جانے کے بعد اب وقت گزاری کے لیے اس سے دوستی کر لی جائے اور اس کے درجات عشقِ مجازی کی بنیاد پر بلند کر دیے جائیں۔خدا تو وہ ہے‘ جس نے مخلوقات کے دماغ میں وہ کیمیکلز اور جلد کے نیچے وہ نروز رکھیں جن پہ وصل کی ساری سائنس استوار ہے۔ یوں عورت یا انسان کی محبت خدا کی محبت کا ایک جزو تو کہلا سکتی ہے۔ یہ جزو اگر انسان کی پوری زندگی کا محور ومرکز بن کر رہ جائے‘تو وہ انسان ایک کمتر چیز کی محبت میں دیوانہ ہوا پھر رہا ہے۔ کوئی بھی اسے عقلمند نہیں کہہ سکتا۔ جو شخص راکٹ پہ سائیکل کو ترجیح دے رہا ہو، کون اسے ہوش مند کہے گا۔
عورت کی محبت دماغ کے سب سے نچلے حصے میں ہوتی ہے، جسے برین اسٹیم کہتے ہیں۔ برین اسٹیم رینگنے والے کیڑوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ عقل اور خدا کی محبت دماغ کے سب سے اوپر والے حصے Cortex Brainمیں ہوتی ہے۔ جب انسان علم و عقل کی مدد سے خدا کو پہچان لیتا ہے‘ تو پھر خدا اسے اس قدر خوبصورت نظر آتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ بڑھ کر اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔ خدا سے زیادہ محبت کے قابل کون ہوگا‘ جس نے مخلوقات کو دو جنسوں میں پیدا کیا۔ جس نے انسان کی کھوپڑی میں عقل نازل کی۔ جس نے انسان کو لباس پہنایا۔ جس نے ماں اور باپ جیسے رشتے پیدا کیے اور مخلوقات کے سر پہ سائبان تخلیق کیا۔ جس نے زمین کو انسان کے لیے قابلِ رہائش بنانے کے لیے اس میں خوراک، آکسیجن اور تمام حفاظتی تہیں پیدا کیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ محبت کے قابل وہی ہے یا اس کے چنے ہوئے بندے!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)