پاکستان میں دس دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن ایک ایسے وقت منایا جارہا ہے جب سانحہ سیالکوٹ نے انسانیت کا درد رکھنے والے ہر شخص کو خون کے آنسو رُلا دیا ہے، گزشتہ چند دنوں سے قومی اور عالمی میڈیا کے ہر ادارے کی خبروں کا محور سیالکوٹ میں رزق کی تلاش میں آنے والے سری لنکن کی المناک موت ہے، اس قابلِ مذمت واقعے نے ملک دشمن عناصر کو پیارے وطن پاکستان کے خلاف ہرزہ رسائی کرنے کا موقع فراہم کردیا ہے، سوشل میڈیا پر ایسی بہت سی پوسٹس وائرل ہیں جن میں پاکستانی معاشرے کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، اس حوالے سے میں نے اپنی مذمتی ٹویٹ میں مظلوم سری لنکن باشندے کے لواحقین کے ساتھ ا ظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے بے بنیاد الزامات کی روک تھام یقینی بنانے پر زور دیا ہے۔سانحہ سیالکوٹ ایک طرف ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کی روش کی عکاسی کرتا ہے تو دوسری طرف فیکٹری ملازم ملک عدنان جیسی انسان دوست شخصیت ہمارے لئے امید کی کرن ہے جو آخری وقت تک سری لنکن منیجر کی جان مشتعل ہجوم سے بچانے کیلئے سرتوڑ کوششیں کرتے رہے، ملک عدنان کی کاوش نے مجھے پیغمبر حضرت ابراہیمؑ سے منسوب ایک تاریخی واقعے کی یاد دلادی جب اللہ کے پیغمبر کوطاقتور دشمنوں کی جانب سے آگ میں ڈالا جارہا تھا تو ایک ننھی منی چڑیا اپنی چونچ میں پانی لیکر آگ بجھانے آگئی ، وہ جانتی تھی کہ یہ تھوڑا سا پانی آگ نہیں بجھاسکے گا لیکن چڑیاپھر بھی نتائج کی فکر کئے بغیرنیک مقصد کیلئے اپنی حیثیت کے مطابق کوشش کررہی تھی۔ انسانی حقوق کا عالمی دن آج سے 73سال قبل 10دسمبر1948ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے ایک ایسی بہترین قرارداد منظورکرنے کی یاد میں منایا جاتا ہے جو آج بھی دنیا کے ہر معاشرے میں انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے مشعل راہ ہے،فرانس کے دارالحکومت پیرس میں منظورکردہ یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس کے تحت دنیا بھر کے انسانوں کیلئے بلاتفریق آزادی کا بنیادی حق تسلیم کیا گیا ، یہ عظیم کاوش ایسے وقت منظرعام پر آئی جب دنیا دوسری عالمی جنگ کے بعد لہولہان تھی، لاکھوں انسان عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار ہوچکے تھے،تیس شقوں پر مشتمل اس دستاویز کوپانچ سو سے زائد مختلف زبانوں میں ترجمہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔رواں برس اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کے عالمی دن کا موضوع انسانی
حقوق کے عالمی منشور کی شق نمبر ایک کو منتخب کیا ہے ، مذکورہ شق دنیا بھر میں غیرمساوی سلوک کا خاتمہ کرتے ہوئے مساوات کو پروان چڑھانے پر زور دیتی ہے ، اقوام متحدہ کے عالمی ایجنڈے2030 کے تحت مساوات کو فروغ دینا اولین ترجیحات میں شامل ہے،اقوام متحدہ کے مطابق دیرپا ترقی کے حصول کیلئے معاشرے کے پِسے ہوئے طبقات بالخصوص خواتین، معذور، تارکین وطن اور اقلیتی کمیونٹی پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان 48ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے انسانی حقوق کے عالمی منشور کی منظوری کی حمایت میں دستخط کئے تھے، پاکستان کی ہر حکومت انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے اپنے عزم کا اظہار کرتی ہے لیکن آج 73سال بعد ہمارے پیارے وطن پاکستان میں انسانی حقوق کی اصل صورتحال کیا ہے؟ یہ مجھ سمیت انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے سرگرم کارکنوں کیلئے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی معاشرہ روایتی طور پر برداشت اور صبروتحمل کا مظاہرہ کرنے والے افرادپر مشتمل ہے لیکن گزشتہ ایک عرصے سے چند شدت پسند عناصر طاقت پکڑتے جارہے ہیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں ملوث ہیں۔حالیہ سانحہ سیالکوٹ کے بعد پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے مظلوم انسان کے ساتھ اظہار ہمدردی کی جارہی ہے،سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں لوگوں کی جانب سے پھول رکھنے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ سری لنکن سفارتخانے آمد کے دوران علمائے کرام سمیت مختلف طبقہ فکر نے بھی مذمت کی،اسی طرح قانون نافذ کرنے والے ادارے تشدد میں ملوث تمام افراد کو کامیابی سے قانون کے کٹہرے میں لے آئے ۔ میری نظر میں پاکستان میں شدت پسند عناصر تعداد میں پانچ فیصد سے زائد نہیں لیکن یہ جب چاہتے ہیں، جیسے چاہتے ہیں، کسی بھی انسان پر بے بنیاد الزام عائد کرکے لوگوں کو اشتعال دلاتے ہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر ہم سب کو پاکستان کو ایک ایسا رول ماڈل ملک بنانے کا عزم کرنا چاہئے جہاں ہر انسان چاہے وہ مرد ہو عورت ہو یا بچہ، اقلیت سے تعلق رکھتا ہو یا اکثریت سے، آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنی مرضی سے زندگی بسر کرسکے، کسی انسان پر اس کی مذہبی وابستگی کی بناء پر ظلم نہ ہو۔مجھے فخر ہے کہ ڈاکٹری کا مقدس پیشہ اختیار کرنے کے بعد میں نے انسانیت کے ناطے ہر مریض کا علاج معالجہ یقینی بنایا ہے،اپنے عظیم بھائی کی یاد میں تھرپارکر میں پریم نگر کے نام سے ایک فلاحی پروجیکٹ کا آغاز کیا ہےتاکہ ہر انسان کوبلاامتیاز ریلیف مل سکے۔میں آج اپنا یہ مطالبہ پھر دُہرانا چاہوں گا کہ پاکستانی میڈیا پر یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس کو اردو ترجمے کے ساتھ نشر کیا جائے، اسی طرح ہمیں اقوام متحدہ کی اس عظیم کاوش کو نصابی کتب کا حصہ بناکر نئی نسل کوسب سے پہلے انسانیت کا درس دینا چاہئے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)