اسلام آباد(نمائندہ جنگ) سپریم کورٹ نے 2010میں پی پی دور حکومت میں ’’دی سیکڈ ایمپلائیز (ری انسٹیٹ منٹ)آرڈیننس ایکٹ2010 ‘‘ کے تحت بحال ملازمین کو برطرف کرنے کے فیصلے کیخلاف دائر نظر ثانی کی درخواستوں کی سماعت کے جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ نظرثانی درخواستیں دائر کرنے والے ملازمین عارضی بھرتی ہوئے تھے، پارلیمنٹ صرف ہمدردی کی بنیاد پر فیصلے نہیں کر سکتی ہے، 2003 کے عدالتی فیصلے کے تناظر میں 2010 میں قانون سازی نہیں ہونی چاہیے تھی،چھ ماہ نوکری کرنے والے ملازمین ۔کو 12 سال نوکری والوں کے مساوی ریلیف دینا کیا درست ہے؟جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی فیصلے کیخلاف قانون سازی نہیں ہوسکتی ہے ، عدالت کسی ملزم کو سزا دے تو کیا پارلیمنٹ قانون سازی سے اسے بری کر سکتی ہے؟ عدالتی فیصلوں کیخلاف قانون سازی ہونے لگے تو عدلیہ کی آزادی کہاں رہے گی؟اسی انداز میں چلنا ہے تو آج تک جتنے لوگ نکالے گئے سب کو ہی بحال کردیں۔عدالت نے دوران سماعت اٹارنی جنرل سے اس مقدمہ سے متعلق چند اہم قانونی سوالات پر معاونت طلب کرتے ہوئے انہیں ایکٹ آف پارلیمنٹ اور آرڈیننس کے تحت بحال ہونے والے سرکاری ملازمین کی الگ الگ فہرستیں جمع کروانے اور سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے بحال ہونے والے ملازمین کی بھی الگ الگ فہرستیں مرتب کرنے کی ہدایت کے ساتھ مزید سماعت آج جمعرات تک ملتوی کردی۔ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ،جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل لارجر بینچ نے بدھ کے روز نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کی،سوئی نادرن گیس اور اسٹیٹ لائف کے برطرف ملازمین کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ ملازمین کو تمام قانونی تقاضے پورے کرکے بھرتی کیا گیا تھا،جس پرجسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ خلاف قانون برطرفیاں 1947 سے ہو رہی ہونگی،صرف ان چند ملازمین کو ہی کیوں بحال کیا گیا؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 1996 میں بھرتی ہونے والوں کو 1997 میں نکال دیا گیا تھا، اس طرح تو انھوں نے تو صرف 6 ماہ کام کیاتھا،2003 کا عدالتی فیصلہ دس سال کام کرنے والوں سے متعلق ہے جو 1988/89 میں بھرتی ہوئے تھے ، ایکٹ اور آرڈیننس سے بحال ہونے والے افراد الگ الگ ہیں، ان ملازمین کو مستقل طور پربحال کیوں نہیں کیا گیا تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر یہ ملازمین سیاسی انتقام پر نکالے گئے تو یہ ایکٹ آف پارلیمنٹ میں بھی لکھنا چاہیے تھا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ کیا ایکٹ آف پارلیمنٹ مقررہ معیار کے مطابق بھی تھا یا نہیں؟ بہت سی قانونی کوتاہیاں موجود ہیں، ہم بھی سمجھ سکتے ہیں کہ متاثرہ ملازمین کے بچے ہیں، ہمیں بتائیں ہم کیا مدد کر سکتے ہیں؟